سیاسی بیانات کی بنا پر تعلقات خراب نہیں ہونے چاہییں، وزیراعظم کی پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
سیاسی بیانات کی بنا پر تعلقات خراب نہیں ہونے چاہییں، وزیراعظم کی پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت WhatsAppFacebookTwitter 0 8 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت پارٹی رہنما ئوں کا اہم اجلاس ہوا جس میں اسپیکر ایازصادق، اعظم نذیرتارڑ، احسن اقبال، طارق فضل چوہدری، رانا ثنااللہ اور رانا تنویرحسین نے شرکت کی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی تنازع کے محرکات کا جائزہ لیا گیا جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماں کی ملاقاتوں کے بارے میں اسپیکر نے آگاہ کیا۔
ذرائع نے بتایاکہ وفاقی وزرا کا موقف تھاکہ پیپلزپارٹی کا مسئلہ وفاق سے نہیں پنجاب حکومت سے ہے۔ذرائع کا کہنا تھاکہ وزیراعظم نے پیپلزپارٹی کے تحفظات افہام وتفہیم سے دور کرنے، اسپیکر اور وفاقی وزرا کوپیپلزپارٹی کی سینیئرقیادت سے ملاقاتیں جاری رکھنے کی ہدایت کی۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ سیاسی بیانات کی بنا پر پیپلزپارٹی سے تعلقات خراب نہیں ہونے چاہییں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطے جاری رکھنے اورتحفظات دورکرنے کیلیے مختلف آپشنزپرغور کیا گیا، وزیراعظم اس معاملے پر وزیراعلی پنجاب مریم نوازسے بھی بات کریں گے۔ذرائع نے بتایاکہ پارٹی رہنماں نے دونوں طرف سے متنازع بیان بازی بند کرنے کی تجاویز دیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ کئی روز سے پنجاب اور سندھ حکومت کے درمیان ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری جاری ہے۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے بیان پر پیپلز پارٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور قومی اسمبلی سے واک آٹ کرتے ہوئے اپنے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تاہم وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی پنجاب کے خلاف بات کرے گا تو بطور وزیر اعلی میں اسے جواب ضرور دوں گی اور صوبے کے عوام کا تحفظ کروں گی، کسی سے معافی نہیں مانگوں گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعلی امین گنڈاپور نے بطور وزیراعلی خیبرپختونخوا آخری کابینہ اجلاس کل طلب کرلیا علی امین گنڈاپور نے بطور وزیراعلی خیبرپختونخوا آخری کابینہ اجلاس کل طلب کرلیا سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلی نہیں بن سکیں گے، ندیم افضل چن کا دعوی وفاقی حکومت نے کپپٹن(ر)محمد محمود کو وفاقی سیکرٹری ہائوسنگ تعینات کر دیا پرانے قرضے اتارنے کیلئے حکومت کا رواں سال 22 ہزار ارب کے نئے قرضے لینے کا فیصلہ مصری صدر کی ٹرمپ کو غزہ جنگ بندی معاہدے کی صورت میں دستخطی تقریب میں شرکت کی دعوت اورکزئی میں آپریشن:لیفٹیننٹ کرنل و میجر سمیت 11 جوان شہید، نماز جنازہ ادا،وزیر اعظم ،فیلڈ مارشل کی شرکتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کرنے کی
پڑھیں:
بھارتی آرمی چیف کے ’دھرم یُدھ‘ والے بیان پر نئی بحث چھڑ گئی، فوج میں مذہبی رنگ شامل ہونے پر تشویش
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپیندر دویویدی کے حالیہ بیان نے بھارت میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انہوں نے ایک تقریب کے دوران کہا کہ آپریشن سندور محض ایک عسکری کارروائی نہیں تھا بلکہ ایک دھرم یُدھ (مذہبی جنگ) تھا۔ اس بیان کو ملک کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں میں فوج کو ’مذہبی رنگ میں رنگنے‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بیان نے بھارتی فوج کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھا دیےتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کو’دھرم یُدھ ‘ قرار دینا بھارت کی طویل عرصے سے قائم غیر سیاسی اور غیر مذہبی فوجی روایت سے انحراف ہے۔
رپورٹس کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ مذہبی الفاظ کا استعمال فوج کے اندر نظریاتی جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ عسکری بیانیہ سیاسی نظریات یا اکثریتی مذہبی سوچ سے متاثر ہو رہا ہے؛ اور فوج جیسے ادارے کی غیر جانب داری متاثر ہو سکتی ہے۔
تنقید کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’سِندور‘ کا نام ہندو مذہبی علامت سے منسوب ہے، جس سے عسکری مہم کو مذہبی یا ثقافتی شناخت کے ساتھ جوڑنے کا تاثر پیدا ہوا۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس نام کو ’سفرو نائزیشن‘ یعنی ’ہندوتوا رنگ‘ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔
نماز کے دوران کارروائی نہ کرنے کے بیان پر بھی ردِعملجنرل دویویدی نے مزید کہا کہ فوج نے آپریشن کے دوران کبھی نماز کے وقت حملہ نہیں کیا۔جسے مخالفین نے ’بین السطور اسلاموفوبیا‘ قرار دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس طرح کے جملے جنگ کو مذہبی زاویے سے پیش کرنے کا تاثر دیتے ہیں، جو تنازع کو علاقائی کے بجائے مذہبی رنگ دینے کے مترادف ہے۔
بیان سیاسی فائدے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہےتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مذہبی یا جذباتی بیانات سیاسی ماحول میں ہندو ووٹر بیس کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق عسکری کارروائیوں کو مذہبی بیانیے سے جوڑنا انتخابی سیاست پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
حکومتی یا فوجی ردِعمل؟تا حال بھارتی حکومت یا فوج نے اس حوالے سے کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کیا، تاہم معاملہ تیزی سے ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں