سیز فائر، ٹی ایل پی غزہ میں امن ہونے پر فساد کرنا چاہتی ہے، وزیرمملکت
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی خواہش کے عین مطابق امن منصوبہ اور جنگ بندی ہونے کے بعد اب ٹی ایل پی کو تکلیف ہورہی ہے اور وہ احتجاج کے نام پر فساد کرنا چاہتی ہے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ غزہ کے نام پر اسلام آباد میں احتجاج کی کال کے بعد سارے صوبوں میں ایکشن کیے گئے اور اسلام آباد و پنجاب سے ٹی ایل پی کے جو عہدیدار گرفتار ہوئے اُن سے پروگرام کے پمفلٹ نہیں بلکہ پولیس پر حملہ کرنے کا سامان برآمد ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کے عہدیداروں سے کیل والے ڈنڈے، کیمیکل، شیشے کی گولیاں، شیل گن، آنسو گیس شیل اور اس سے بچاؤ کے ماسک برآمد ہوئے، انہیں اب فلسطین میں امن ہونے پر مسئلہ ہے اور یہ احتجاج کے نام پر فساد کرنا چاہتے ہیں۔
وزیرمملکت نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی انتشاری سیاست اور پروگرام کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی اور ایسے عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بے خوف اور بےباکی سے فلسطین کا مقدمہ عالمی فورمز پر اٹھایا اور عملی طور پر ہم اُن ممالک میں شامل ہیں جس نے ادویات، غذائی امداد بھیجی، فلسطین کے بچوں کو پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم دی جارہی ہے، زخمیوں کو عارضی اسپتال بناکر دی اور وہاں سے مریضوں کو یہاں لائے، یہ واحد ملک پاکستان نے کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سے 8 میں پاکستان بھی شامل ہے جس نے امن منصوبے کیلیے ٹرمپ سے ملاقاتیں کیں اور تجاویز دیں، کم و بیش بیس نکاتی امن معاہدہ تیار ہوا، پاکستان نے کھل کر اُس پر بات کی اور حصہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے لوگوں کو بیان بازی نہیں امن، اپنا وطن چاہیے، انہیں احتجاج اور بیانات نہیں چاہیے، بیس نکاتی ایجنڈا پہلے مرحلے میں تسلیم ہوگیا ہے جس کے بعد اب احتجاجیوں کو امن قبول نہیں یا انہیں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ ختم ہونے کی تکلیف ہے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ وفاق پُرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے، ہر پروگرام کے ایس او پیز ہوتے ہیں، آج صبح جماعت اسلامی نے فیصل مسجد کے قریب ایک پروگرام کیا اور اُسکی اجازت لی گئی، ایس او پیز پورے کیے گئے، ٹی ایل پی نے کہاں اجازت مانگی ہے؟ کون سے ایس او پیز کی یقین دہانی کرائی ہے؟ ۔
انہوں نے کہا کہ ان کا احتجاج اور موڈ جو ہے، یہ کیا کرنا چاہ رہے تھے، ان کے سربراہ کی اشتعال انگیز اور گالی گلوچ والی تقاریر ہیں، فلسطین کے لوگوں کو امن ملنے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ فلسطین کے لوگوں کی طرح پاکستان کو بھی امن چاہیے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں گرفتاریاں ہوئیں، ملزمان کے قبضے سے پولیس پر حملہ کرنے کیلیے گولیاں، نمک، کیمیکل، ڈنڈے برآمد ہوئے، یہ ملزمان کارکنان کو آنسو گیس سے بچانے والے ماسک، شیل اور گنز اور دیگر برآمد ہونے والی چیزیں تقسیم کرتے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ بات بہت وثوق سے کہتا ہوں کہ اسلام آباد میں پکڑے جانے والے لوگ ٹی ایل پی کے بنیادی عہدیدار اور کارکن ہیں۔ طلال چوہدری کے مطابق بھارتی جارحیت کے وقت بھی ٹی ایل پی نے قوم کی توجہ ہٹانے کیلیے مارچ کا منصوبہ بنایا تھا، اُس وقت انہیں بلاکر سمجھایا اور متنبہ کیا تھا۔
طلاق چوہدری نے کہا کہ غزہ امن معاہدہ پوری امت مسلمہ کی کامیابی ہے، جس کے تحت اسرائیل فوج غزہ سے نکلے گی، غاضب شکست کھا رہا ہے، وہ اپنے پلان میں ناکام رہا ہے، فلسطینی اسی طرح کا معاہدہ چاہتے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسے میں غزہ کیلیے احتجاج کے نام پر فساد کا اعلان کیا جارہا ہے، خوراک، ادویات کیلیے نہیں بلکہ چندہ کیلوں والے ڈنڈے خریدے گئے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طلال چوہدری نے کہا چوہدری نے کہا کہ اسلام ا باد میں انہوں نے کہا کہ فلسطین کے کے نام پر ٹی ایل پی
پڑھیں:
حکومت کی 28 ویں آئینی ترمیم لانے کی تردید، ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں،طارق فضل چوہدری
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)کچھ وزراء کے حالیہ بیانات کے باوجود اعلیٰ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت 28ویں آئینی ترمیم سے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے واضح طور پر اس تاثر کی تردید کی کہ حکومت 28ویں آئینی ترمیم کے کسی پیکج پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نےنجی اخبار سے بات کرتے ہوئے اپنی اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے کہا: ’’کوئی 28ویں ترمیم زیر غور نہیں ہے۔‘‘ وزیراعظم ہاؤس کے ایک اہم عہدیدار نے بھی بتایا کہ وزیرِاعظم آفس میں کسی نئی آئینی ترمیم سے متعلق کچھ نہیں دیکھا جا رہا۔ ذرائع نے کہا ’’ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں،‘‘ ڈاکٹر طارق نے وضاحت کی کہ اس معاملے پر کوئی اجلاس نہیں ہوا اور موجودہ بحث کو میڈیا کی پیدا کردہ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے پیکج میں شامل کچھ تجاویز جو اتفاقِ رائے نہ ہونے کے باعث خارج کر دی گئی تھیں آئندہ کبھی دوبارہ زیر غور آ سکتی ہیں لیکن فی الحال 28ویں ترمیم شروع کرنے کا کوئی عمل جاری نہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: ’’اس وقت 28ویں آئینی ترمیم پر کوئی غور نہیں ہو رہا‘‘ اور بتایا کہ انہوں نے اس بات کی وزیر قانون سے دوبارہ تصدیق بھی کر لی ہے۔ ’’جو بھی 28ویں ترمیم کے بارے میں پوچھ رہا ہے، اسے یہی جواب دیا جا رہا ہے کہ ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔‘‘چند وزرا کی جانب سے 28ویں ترمیم کا ذکر کیے جانے کے بعد قیاس آرائیاں بڑھ گئیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت ’’جلد 28ویں آئینی ترمیم‘‘ متعارف کرائے گی۔ چنیوٹ میں صحافیوں سے گفتگو میں مبینہ طور پر انہوں نے کہا کہ مجوزہ ترمیم کا تعلق مقامی حکومتوں، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) اور صحت سے متعلق امور سے ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان موضوعات پر مشاورت جاری ہے اور اگر اتفاقِ رائے ہوا تو حکومت اس سمت میں پیش قدمی کر سکتی ہے۔ وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عدیل ملک کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ رپورٹس آئیں کہ انہوں نے 28ویں ترمیم سے متعلق بات کی ہے۔ تاہم، گزشتہ چند دنوں میں متعدد کوششوں کے باوجود انہوں نے نہ موبائل کالز اٹینڈ کیں اور نہ ہی کوئی جواب دیا۔
انصار عباسی