WE News:
2025-11-23@04:46:14 GMT

کیا 28ویں ترمیم میں نئے صوبے بن سکیں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT

کیا 28ویں ترمیم میں نئے صوبے بن سکیں گے؟

28 ویں ترمیم ممکن ہے اور اس پر بات چیت بھی چل رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ اور فیصل واوڈا سمیت دیگر سیاسی قائدین اس بات کا اظہار کر رہے ہیں، جبکہ کچھ سینیئر صحافیوں کے مطابق 28 ویں ترمیم میں ممکنہ طور پر بلدیاتی نظام کی مضبوطی اور نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے بات کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں ترمیم طویل المدتی فوائد رکھتی ہے، وقت آگیا ہے کہ ملک 28ویں ترمیم کی جانب بھی پیش قدمی کرے، خواجہ آصف

21 نومبر کو ایم کیو ایم کی قیادت نے ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وہ بلدیاتی نظام کی مضبوطی کے لئے جدوجہد تو کر ہی رہے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ میں نئے صوبے کے قیام کے لئے بھی آواز اٹھائیں گے۔

ایم کیو ایم کے اس اعلان پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک بار پھر لفظی جنگ شروع ہو گئی ہے۔

28 ویں آئینی ترمیم پر بات کیسے شروع ہوئی؟

13 نومبر کو صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر دستخط کر کے اسے آئینِ پاکستان کا حصہ بنا دیا تو اسی وقت 28 ویں آئینی ترمیم کی باتیں شروع ہو گئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل واوڈا قومی اسمبلی سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل مٹھائی کا ٹوکرا لے کر پارلیمنٹ پہنچ گئے اور کہا کہ ’27 ویں آئینی ترمیم کی مٹھائی کھائیں اور 28 ویں آئینی ترمیم کی تیاری کریں‘۔

یہ بھی پڑھیں:ملک میں عدالتی نظام انصاف پر مبنی نہیں، 27ویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان

اسی طرح وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے 17 نومبر کو کہا کہ 28 ویں ترمیم پر بات چیت چل رہی ہے اور اگر اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا تو پیش بھی کر دی جائے گی۔اس ترمیم میں عوامی مسائل جیسے بلدیاتی ادارے، بہبودِ آبادی، قومی مالیاتی کمیشن، صحت کا نظام اور صوبوں و مرکز کے درمیان تعلقات، ان امور پر بات چیت چل رہی ہے۔

کراچی اور حیدرآباد کو ملا کر ایک صوبہ بنانے کی بات وقتاً فوقتاً قومی بحث کا موضوع بنتی رہتی ہے اور حالیہ دنوں میں جب سے حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم نے اس پر بات چیت شروع کی ہے تو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں ایک ٹکراؤ نظر آتا ہے۔

نئے صوبوں پر بات ہو رہی ہے، احمد بلال محبوب

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر اور معروف سیاسی تجزیہ نگار احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ نئے صوبوں کا معاملہ ایک دم سے سامنے نہیں آیا۔

28 ویں ترمیم کے اندر نئے صوبوں کے معاملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے کوئی تحریک موجود نہ ہو تو پارلیمنٹ میں اس بحث کا سامنے آنا ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلے میں کہیں نہ کہیں بات ضرور ہو رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے باقاعدہ تجاویز پر مشتمل مسودہ پیش کیا گیا اور صحافیوں کو بریفنگ بھی دی گئی، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کچھ محرکات موجود ہیں۔ مقتدر حلقوں میں نئے صوبے اور صدارتی نظام متعارف کرائے جانے پر بات چیت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی نہریں نکالنے کے معاملے پر ایک صوبے میں بہت بڑی تحریک چلائی گئی، حالانکہ اس صوبے کا پانی استعمال کرنا بھی مقصود نہیں تھا۔ زرعی خود کفالت کے لیے یہ قدم ضروری تھا، مگر صوبائی انتہاپسندی کی نذر ہو گیا۔ ممکن ہے کہ اب اسی انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے چھوٹے صوبوں کی بات ہو رہی ہو۔

یہ بھی پڑھیں:28ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع، بیرسٹر عقیل ملک نے تفصیلات بتادیں

احمد بلال محبوب کے مطابق بلدیاتی نظام کی مضبوطی کا وعدہ وزیراعظم نے ایم کیو ایم سے کر رکھا ہے۔ این ایف سی کے مسائل بھی موجود ہیں۔ جس طرح 26 ویں ترمیم کی کچھ چیزیں 27 ویں ترمیم میں طے ہوئیں، اسی طرح 27 ویں کی کچھ باقی معاملات 28 ویں ترمیم میں طے ہو سکتے ہیں۔

اتفاقِ رائے کے بغیر نئے صوبے نہیں بن سکتے، طاہر خلیل

جنگ سے وابستہ سینیئر صحافی اور پارلیمانی رپورٹنگ کے ماہر طاہر خلیل کہتے ہیں کہ نئے صوبوں کے قیام پر بات چیت تو ہو رہی ہے لیکن اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم پر کبھی راضی نہیں ہوگی۔

اگر پنجاب کو شمالی، وسطی اور جنوبی پنجاب میں تقسیم کرنے کی بات ہو تو بھی اتفاقِ رائے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخواہ میں ہزارہ صوبے کی بات بھی پرانی ہے۔

طاہر خلیل نے کہا کہ 28 ویں ترمیم کا اصل ہدف بلدیاتی نظام ہے، اور یہ بات زیر غور ہے کہ نئی ترمیم کے ذریعے یہ لازم کر دیا جائے کہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہوتے ہی 90 روز کے اندر انتخابات کروائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں لیکن پنجاب اور اسلام آباد میں ابھی تک نہیں ہوئے، جو ہونے چاہییں۔ ترمیم میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ صوبے وفاقی فنڈز کے لیے اپنا حصہ ادا کریں، جس کے لیے این ایف سی کے قواعد میں تبدیلی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:28ویں آئینی ترمیم کب آئےگی اور اس میں کیا تجاویز ہوں گی؟

ان کے مطابق درست راستہ یہ ہے کہ تمام معاملات پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں رکھے جائیں، پھر پارلیمان میں کھلی بحث ہو، اور عوام کے سامنے مجوزہ ترامیم پیش کی جائیں۔

مزید یہ کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے—مثلاً صرف پنجاب کے 11 ڈویژن یعنی 11 صوبے—مگر اس کے لیے بہت بڑے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

28ویں ترمیم احمد بلال محبوب ایم کیو ایم بلال محبوب بلدیاتی نظام پیپلز پارٹی رانا ثنا طاپر خلیل فیصل واوڈا نئے صوبہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 28ویں ترمیم احمد بلال محبوب ایم کیو ایم بلال محبوب بلدیاتی نظام پیپلز پارٹی طاپر خلیل فیصل واوڈا ویں آئینی ترمیم کی نئے صوبوں کے قیام احمد بلال محبوب ویں ترمیم میں بلدیاتی نظام یہ بھی پڑھیں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم پر بات چیت کے قیام کے ایم کی کے لیے ہو رہی بات ہو کی بات کہا کہ رہی ہے

پڑھیں:

صوبے کے مالیاتی ڈھانچے میں بڑی پیش رفت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس (CGA) اسلام آباد کی ہدایات اور حکومت سندھ کی معاونت سے صوبے کے مالیاتی ڈھانچے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ اور تمام ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس دفا تر میں جدید ERP سسٹم SAP S/4HANA کامیابی سے نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس جدید نظام کے تحت سر کا ری مالیاتی لین دین، پنشن اور تنخواہوں کی ادائیگیاں پہلے سے زیادہ شفاف، تیز رفتار اور موثر طریقے سے ممکن ہوسکے گی۔ اعلیٰ حکام کے مطابق نئے نظام سے نہ صرف کام کی رفتار بہتر ہوگی بلکہ پنشنرز اور سرکاری ملازمین کو بروقت ادائیگیوں میں بھی فائدہ ہوگا۔ یہ پروجیکٹ ڈائریکٹوریٹ آف FABSنے TMC کی شراکت سے CGA کی ہدایات کے مطابق مکمل کیا۔ محکمہ خزانہ سندھ نے تمام متعلقہ محکموں کو نئے سسٹم سے متعلق ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یہ اقدام صوبہ سندھ میں ڈیجیٹل گورننس کی جانب ایک اہم سنگ میل ہے جو مالیاتی نظم و ضبط اور عوامی خدمات کی فراہمی میں مزید بہتری کا باعث بنے گا۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • 28ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی بات زیر غور نہیں، وفاقی وزیر
  • حکومت نے 11 ویں نیشنل فنانس کمیشن کا افتتاحی اجلاس 4 دسمبر کو طلب کرلیا
  • صوبوں میں وسائل کی تقسیم کا فارمولہ طے کرنے کیلئے این ایف سی کا اجلاس 4 دسمبر کو طلب
  • صوبے کے مالیاتی ڈھانچے میں بڑی پیش رفت
  • سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حساس ڈیٹا کیوں چوری کیا؟ 28ویں آئینی ترمیم، کتنے نئے صوبے بننے جارہے ہیں؟
  • 28ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع، بیرسٹر عقیل ملک نے تفصیلات بتادیں
  • وفاق نے گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے صوبوں کوبلا لیا
  • 27ویں آئینی ترمیم طویل المدتی فوائد رکھتی ہے، وقت آگیا ہے کہ ملک 28ویں ترمیم کی جانب بھی پیش قدمی کرے، خواجہ آصف
  • ترقی نہیں، پسماندگی پر زیادہ فنڈ ملے گا، ریحام خان کی این ایف سی فارمولے پر تنقید