نوبیل امن انعام کا فیصلہ کل ہوگا : ٹرمپ کی شدید خواہش پوری ہوگی یا دل ٹوٹے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
نوبیل امن انعام کا فیصلہ کل ہوگا : ٹرمپ کی شدید خواہش پوری ہوگی یا دل ٹوٹے گا؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 October, 2025 سب نیوز
واشنگٹن(آئی پی ایس ) اپنی سنہری کامیابیوں اور جائیدادوں کے لیے مشہور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک دنیا کے معتبر ترین اعزاز، نوبیل امن انعام، سے محروم ہیں۔نوبیل امن انعام کا اعلان کل یعنی جمعہ کو اوسلو میں ہوگا اور اس سے قبل 79 سالہ ٹرمپ کی اس انعام کے لیے بے چینی عروج پر ہے اور وہ مہینوں سے یہ شکایت کر رہے ہیں کہ عالمی امن کے لیے ان کی کوششوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے بدھ کو ایک بیان میں اپنے امن مشن کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم نے 7جنگیں ختم کیں۔ ہم آٹھویں کو ختم کرنے کے قریب ہیں اور میرے خیال میں ہم روس کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ شاید وہ مجھے یہ انعام نہ دینے کی کوئی وجہ ڈھونڈ لیں گے۔ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر وہ یہ انعام نہیں جیتتے تو “یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی توہین ہوگی۔”ٹرمپ کی انعام جیتنے کی اس کھلی خواہش نے عالمی سفارت کاری پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسرائیل کے ایک سابق اعلی مذاکرات کار کے مطابق، ممکنہ طور پر اسی دبا کے باعث حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں تیزی آئی، تاکہ آخری لمحات میں امن کا اعلان کر کے ٹرمپ کو انعام کا حقدار ٹھہرایا جا سکے۔ اسرائیلی دفاعی افواج کے سابق مذاکراتی یونٹ کے کمانڈر کرنل ڈورون حدار نے کہا کہ ہر کوئی اوسلو میں نوبیل کمیٹی کے اعلان کی ٹائم لائن کو سمجھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ فریقین معاہدے پر پہنچنے میں جلدی کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کی اس خواہش کو بھانپتے ہوئے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کئی عالمی رہنما بھی میدان میں آ چکے ہیں۔ پاکستان، اسرائیل اور کمبوڈیا نے انہیں باضابطہ طور پر نامزد کیا ہے جبکہ تائیوان کے صدر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر ٹرمپ چین کو تائیوان پر فوجی عزائم سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بلاشبہ اس انعام کے حقدار ہوں گے۔
واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ نوبیل انعام کی تاریخ سے واقف ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی عوامی مہم اور لابنگ “بے مثال” اور روایات کے بالکل برعکس ہے۔ انعام کے انتخاب کا عمل انتہائی خفیہ اور پرسکون ماحول میں ہوتا ہے، اور امیدوار شاذ و نادر ہی عوامی مہم چلاتے ہیں۔ ہر سال ممکنہ فاتحین کی ایک فہرست جاری کرنے والی اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر نینا گریگرنے کہا کہ یہ بہت غیر معمولی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سال ٹرمپ ان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، لیکن وہ ادارے شامل ہیں جن سے ٹرمپ کے تنازعات رہے ہیں، جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ)۔ پوسٹ نے ایک ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ “ٹرمپ کا دبا خود غرضی پر مبنی محسوس ہوتا ہے اور ان کا انداز انعام کی روایات سے یکسر متصادم ہے۔”
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومتی ممبران کا اپوزیشن کو ووٹ دینا فلورکراسنگ نہیں ہوگی، اپوزیشن لیڈرکے پی حکومتی ممبران کا اپوزیشن کو ووٹ دینا فلورکراسنگ نہیں ہوگی، اپوزیشن لیڈرکے پی کابینہ سے منظوری ملنے تک جنگ بندی نافذ العمل نہیں ہوگی؛ اسرائیل کا یوٹرن غزہ میں جنگ بندی امن کیلئے نادر موقع،پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑ ا ہے،محمد عارف جیل میں بیٹھا شخص دہشت گردوں کا چیف اسپانسر ہے جس نے دہشت گردوں کو واپس لاکر بسایا، عطا تارڑ وزیراعظم اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ، سیاسی صورتحال اور اہم قومی امور پر بات چیت آئینی ترمیم کے بعد ترقی پانے والے ججز کو بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے: جسٹس مسرتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: نوبیل امن انعام انعام کا ٹرمپ کی
پڑھیں:
کیمیا کا نوبیل انعام جینے والے سعودی شہری اور فلسطینی سائنس دان عمر یاغی کون ہیں ؟
اردنی نژاد فلسطینی سائنس دان اور سعودی شہریت رکھنے والے پروفیسر عمر مؤنس یاغی نے نوبیل انعام برائے کیمیا اپنے نام کر لیا۔
سویڈن کی شاہی اکیڈمی آف سائنسز نے اعلان کیا کہ یہ انعام عمر یاغی کے ساتھ جاپان کے سوسومو کیتاگاوا اور آسٹریلیا کے رچرڈ روبسن کو مشترکہ طور پر دیا جا رہا ہے۔
تینوں سائنس دانوں کو "میٹل آرگینک فریم ورک (MOFs)" کی ایجاد اور اس میں نمایاں تحقیقی خدمات کے اعتراف میں یہ اعزاز ملا۔
یہ ایوارڈ کیمیائی سائنسز کا سب سے بڑا عالمی اعزاز ہے جس کے ساتھ 1 کروڑ 10 لاکھ سویڈش کرونر (تقریباً 12 لاکھ ڈالر) کی رقم بھی دی جاتی ہے۔
سعودی سائنسدان کون ہیں ؟1965 میں اردن کے دارالحکومت میں پیدا ہونے والے پروفیسر عمر یاغی ایک فلسطینی ہیں اور فی الوقت امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلی میں پروفیسر ہیں۔
علاوہ ازیں وہ "برکلی گلوبل سائنسز انسٹیٹیوٹ" کے بانی ڈائریکٹر بھی ہیں اور لارنس برکلی نیشنل لیبارٹری میں تحقیق میں مشغول رہتے ہیں۔
انھوں نے امریکا میں ہی تعلیم حاصل کی اور 1990 میں یونیورسٹی آف الینوائے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو رہنے کے بعد انہوں نے ایریزونا، مشی گن اور یو سی ایل اے جیسی بڑی جامعات میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2012 سے وہ برکلی سے وابستہ ہیں۔
پروفیسر یاغی کو "ریٹیکیولر کیمسٹری" کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس شعبے نے ایسے کھلے فریم ورک ڈھانچے متعارف کرائے جنہیں گیس ذخیرہ کرنے، توانائی کے تحفظ اور ماحولیاتی ٹیکنالوجیز میں انقلابی اہمیت حاصل ہے۔
وہ متعدد عالمی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں جن میں شاہ فیصل ایوارڈ (2015)، مصطفی پرائز برائے نینو سائنس، البرٹ آئن اسٹائن ورلڈ ایوارڈ آف سائنس اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم کی جانب سے دیا جانے والا فرسٹ کلاس میڈل آف ایکسیلنس (2017) شامل ہیں۔
ان خدمات کے باعث ہی پروفیسر عمر یاغی کو 2021 میں سعودی شہریت دی گئی اور 2024 میں "نوابغ العرب" ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
کیمیائی علوم میں دنیا کے صفِ اول کے محقق سمجھے جانے والے عمر یاغی 1998 سے 2008 تک دنیا کے بہترین سائنس دانوں کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر بھی رہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سعودی شہریت رکھنے والے سائنس دان کو کیمیا کا نوبیل انعام ملا ہے، جو نہ صرف ان کے ذاتی سفر بلکہ عرب دنیا کے سائنسی میدان میں تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔