تقدیم کے اشتراک سے ریاض میں انٹرنیشنل ویلیوایشن اسٹینڈرڈز کونسل کا علاقائی دفتر قائم
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
سعودی اتھارٹی آف اکریڈیٹڈ ویلیوئرز (تقدیم) نے اعلان کیا ہے کہ انٹرنیشنل ویلیوایشن اسٹینڈرڈز کونسل (آئی وی ایس سی) کا علاقائی دفتر ریاض میں باضابطہ طور پر کھول دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی میڈیا ریگولیشن اتھارٹی نے نئے قواعد و ضوابط وضع کردیے
سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اعلیٰ معیار کے ویلیوایشن اسٹینڈرڈز کے فروغ کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
نیا دفتر نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے خطے میں ویلیوایشن کے شعبے کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس اقدام کو تقدیم کی مکمل حمایت حاصل ہے، جو آئی وی ایس سی کا تزویراتی شراکت دار اور بنیادی سرپرست بھی ہے۔
علاقائی سطح پر اہم پیشرفتریاض میں آئی وی اسی سی کا نیا دفتر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں کونسل کی موجودگی کو مضبوط بنائے گا، جس کے ذریعے علاقائی اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کو فروغ دیا جائے گا، انٹرنیشنل ویلیوایشن اسٹینڈرڈز کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور سرمایہ کاری، مالیاتی رپورٹنگ، پالیسی سازی اور کیپٹل مارکیٹس میں شفاف اور آزاد ویلیوایشن کو فروغ دیا جائے گا۔
قیادت کے خیالاتتقدیم کے سی ای او انجینیئر فیصل المندیل نے اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ تقدیم کو فخر ہے کہ اس نے آئی وی ایس سی کے ساتھ مل کر ریاض میں علاقائی دفتر کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب اور 12 ممالک کا بڑا اعلان: فلسطینی اتھارٹی کے لیے ہنگامی مالیاتی اتحاد قائم
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہماری مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے جو ویلیوایشن کے شعبے کو عالمی معیار کے مطابق آگے بڑھانے اور معیشت میں اعتماد، سرمایہ کاری اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں۔
آئی وی اسی سی کے سی ای او نکولس ٹالبوٹ نے کہا کہ ہمیں ریاض میں اپنا علاقائی دفتر کھولنے پر خوشی ہے جو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ عالمی ویلیوایشن منظرنامے میں بڑھتی ہوئی اہمیت کے حامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقدیم کی مضبوط حمایت کے ساتھ، ہم شفاف اور مستقل ویلیوایشن کے عالمی مشن کو مزید وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔
بین الاقوامی تعاون کا نیا بابریاض میں یہ دفتر عالمی سطح پر ایک ایسے ویلیوایشن پروفیشن کے قیام کی جانب ایک قدم ہے جو شفافیت، اصولوں پر مبنی اسٹینڈرڈز اور بین الاقوامی مشاورت کی بنیاد پر قائم ہو۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وفد کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ
یہ دفتر نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے خطے میں ویلیوایشن کی صنعت کو مستحکم بنانے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے اور معاشی پالیسی سازی میں ویلیوایشن کے کردار کو مزید اجاگر کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تقدیم سعودی عرب نٹرنیشنل ویلیوایشن اسٹینڈرڈز کونسل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: علاقائی دفتر ریاض میں کو فروغ کہا کہ
پڑھیں:
فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
انبیائے علیہم السلام کی سرزمین فلسطین ایک صدی سے زائد عرصے سے غاصب صیہونی سازشوں کا نشانہ بنتی چلی آرہی ہے۔ ظلم و جبرکی ایسی داستان رقم کی گئی ہے جس کی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔
فلسطین کے عوام سیاسی، معاشی اور اخلاقی سمیت ہر طرح کی نا انصافی اور جبرکا مقابلہ اپنے صبر اور استقامت کے ساتھ کرتے آئے ہیں اور آج کی جدید دنیا میں بھی فلسطینیوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کے صبر اور استقامت کے مقابلے میں دنیا کی سپر طاقتیں بے بس ہو چکی ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ نہ صرف مسلم امہ کے اجتماعی ضمیرکا امتحان ہے بلکہ عالمی سیاسی قوتوں کے کردار کا عکاس بھی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جاری اسرائیلی جارحیت، فلسطینیوں کی نسل کشی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور غزہ کی تباہ کن صورتحال کے باوجود عالمی طاقتیں خصوصاً امریکا کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کرتی آئی ہیں۔
گزشتہ دو سال کی جنگ میں بھی امریکی حکومت نے کھلم کھلا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی بھرپور مدد کی ہے اور فلسطینی عوام پر ہونے والی وحشیانہ جارحیت کی آج تک مذمت نہیں کی ہے۔
ایسے ماحول میں کہ جہاں امریکا نے ایک طرف غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی سرپرستی کی ہے، وہاں اب دوسری طرف غزہ پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد دراصل وہی سیاسی ہتھکنڈا ہے جس کے ذریعے اسرائیل کو مزید وقت، جواز اور مدد فراہم کی جائے گی۔
یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین کی مزاحمت کے سامنے امریکا اور اسرائیل جو کچھ کھلے میدان کی جنگ میں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب دنیا کے چند ممالک کی مدد سے یا پھر یہ کہہ لیجیے کہ مسلمان ممالک کی مدد سے غزہ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد ایسی ہی سازشوں کی کڑی تھی جن میں غزہ پر امریکی و اسرائیلی تسلط کو یقینی بنانا، غزہ کی مزاحمت کو ختم کرنا، فلسطین سے جبری جلا وطن فلسطینیوں کو واپس وطن نہ آنے دینا اور فلسطین کے مستقبل اور قسمت کا فیصلہ فلسطینیوں کو نہ کرنے دینا ہے۔
یہ امریکی قرارداد اسی طرح کی ناانصافی پر مبنی ہے جیسا کہ1917میں بالفور اعلامیہ تھا اور بعد ازاں 1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 تھی جس میں فلسطین کی سرزمین پر غاصب صیہونیوں کو قبضہ کرنے کا گرین سگنل دیا گیا تھا۔
حیرت انگیز اور افسوسناک امر یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد پر پاکستان سمیت چند مسلم ممالک نے کھلم کھلا حمایت کی، کچھ نے خاموشی اختیارکی اور چند اہم ممالک خصوصاً پاکستان نے بھی غیر واضح اور کمزور سفارتی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا۔
یہ رویہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، حق واپسی اور حق مزاحمت کے خلاف ہے بلکہ مسلم دنیا کی سیاسی خود مختاری اور نظریاتی بنیادوں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ایک اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ چین اور روس نے اس قرارداد پر نقطہ چینی کی اور قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا، اگرچہ ان کے غیر حاضر ہونے سے بھی اس قرارداد کو منظور کر لیا گیا لیکن تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ جہاں چین اور روس نے ویٹو نہیں کیا وہاں انھوں نے اس قرارداد پر اعتراض لگایا۔
لیکن مسلمان ممالک کی جانب سے ایسا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا جس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمان حکمران امریکا کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔
روسی مندوب نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد کو غیر متوازن قراردیا اور سخت نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کی قراردادیں بین الاقوامی قانونی فیصلوں (مثلاً ریاستِ فلسطین کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حیثیت) کی روشنی میں ہونی چاہئیں۔
روسی مندوب نے کہا کہ بعض قراردادیں بین الاقوامی قانونی فیصلوں (مثلاً اقوامِ متحدہ کی دوسری قراردادوں) کے منافی ہیں اور انھیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر مستقل انتظام دینے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جو فلسطینی خود ارادیت کی روح سے متصادم ہے۔
روسی مندوب نے غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (stabilization force) کی تعیناتی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی امریکی قرارداد بظاہر جنگ بندی یا انسانی امداد جیسے الفاظ پر مبنی ہے، لیکن اس کے پسِ پشت اسرائیلی مفادات اور امریکی اسٹرٹیجک مقاصد پوشیدہ ہیں۔
اس قرار داد میں غزہ جنگ بندی سے متعلق جرائم کرنے والے نیتن یاہو کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو اسرائیل کا دفاعی حق قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح فلسطینی مزاحمت جوکہ عالمی قوانین کی رو سے ایک جائز حق ہے اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس مزاحمت کو ختم کرنے یا غیر مسلح کرنے کی بات کی گئی ہے، ساتھ ساتھ غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کے قیام کے لیے مسلمان ممالک کی افواج کو امریکی و برطانوی سرپرستی میں تعینات کرنے کا ذکر ہے۔
ان افواج کا کام غزہ میں موجود فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بتایا گیا ہے۔ یقینی طور پر ایسی قرارداد کی حمایت کرنا عملاً مظلوم کی بجائے ظالم کے بیانیے کو تقویت دینا ہے۔
مسلم ممالک نے امریکا کے ایسے بیانیے کی حمایت میں ووٹ دیا ہے جو فلسطین مخالف ہے اور فلسطینی عوام کے حق کو پامال کرتا ہے۔ اس موقف نے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے بانیان نے آزادی سے پہلے فلسطین کاز کے لیے ایک ٹھوس اور جاندار موقف اپنایا جو انصاف کے تقاضوں پر مبنی تھا، اسی طرح جب پاکستان آزاد ہو ا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا اور اٹل فیصلہ دیا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔
پاکستان ہمیشہ قبلہ اول کے دفاع اور فلسطینیوں کے حق کے لیے بین الاقوامی فورمز پر مضبوط دلائل دیتا آیا ہے، لیکن اب سلامتی کونسل میں امریکی موقف کی حمایت کر کے ایک ایسی قرارداد کو ووٹ دیا ہے جس کو خود فلسطینی عوام نے مسترد کر دیا ہے۔
سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد کی حمایت کرنے سے مسلم دنیا کے اتحاد کے میدان میں بھی ان کا موقف کمزورہو گا۔ یہ صرف فلسطین کازکا نقصان نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر مسلم دنیا کی ساکھ کو نقصان ہے۔
کمزور اور لچکدار موقف مسلم اتحاد کو مزید کمزورکرے گا۔سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کی حمایت ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ اس فیصلے کو درست قرار نہیں دیا جائے گا ، پاکستانی عوام فلسطین کے معاملے پر انتہائی واضح اور جذباتی موقف رکھتے ہیں۔
اگر کوئی یہ بتا رہا ہے کہ اس کے عوض امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے ذریعے ترقی حاصل ہو گی اور ایک دم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آ جائیں گے تو یقینا ایسا نہیں ہو گا۔
تاریخ گواہ ہے جس جس نے امریکا کی وفاداری کا دم بھرا ہے امریکی حکومت نے اس ملک کا بد ترین حال کیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں۔
یہ تعلقات اب ان کی خارجہ پالیسی کو فلسطین سے دورکررہے ہیں، لیکن کیا ان ممالک میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں عوام کو فلسطین سے دور کیا جا سکا ہے؟ درا صل یہ امریکا نے مسلم ممالک کے خلاف ایک سنگین سازش کا جال بنایا ہے جس میں طاقتور افواج رکھنے والے مسلمان ممالک کو کمزور کرنا ہے، تاکہ آیندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امریکی غلامی کا طوق ان کی گردن میں رہے۔
فلسطینی قومی دھڑوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد امن کے لیے نہیں بلکہ اسرائیل کو فوائد پہنچانے کے لیے ہے۔ حماس سمیت فلسطین کی تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیموں نے اس قرارداد کو غزہ دشمنی سے منسوب کیا ہے اور اسے اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے قتل عام کا نیا لائسنس اور اجازت نامہ قرار دیا ہے۔