نیتن یاہو دفتر کیجانب سے غزہ میں جنگبندی کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
غاصب اسرائیلی رژیم کے سرکاری میڈیا میں جنگبندی کی وسیع کوریج کے باوجود غاصب صیہونی وزیر اعظم کے دفتر کیجانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ابھی تک کسی معاہدے پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا اور سب کچھ آج شام منعقد ہونیوالے کابینہ کے اجلاس پر منحصر ہے! اسلام ٹائمز۔ غاصب صہیونی رژیم کے سرکاری ٹیلیویژن چینل نے اعلان کیا ہے کہ انخلاء کا حکم جاری کر دیا گیا ہے جبکہ آئندہ دنوں میں مکمل انخلاء کی تیاری کا یہ حکم غزہ میں موجود اسرائیلی فوج کی مینیوور یونٹوں کو مل چکا ہے اور وہ اس پر عملدرآمد کو تیار ہیں۔ ادھر عبرانی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے آغاز کی خبر دی ہے جبکہ قابض صیہونی فوج کے ساتھ منسلک اسرائیلی ریڈیو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں طے شدہ خطوط پر واپس لوٹ رہی ہے۔ اس بارے اسرائیلی چینل 13 نے وضاحت دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل فی الحال کوئی نئی جارحانہ کارروائی شروع نہیں کرے گا تاہم صیہونی افواج کا مکمل انخلاء، آج شام منعقد ہونے والی نیتن یاہو کابینہ کی نشست میں مذکورہ معاہدے کی منظوری کے ساتھ مشروط ہے۔ اسرائیلی چینل نے سینئر سکیورٹی اہلکار سے نقل کرتے ہوئے مزید کہا کہ قابض صیہونی فوج کا انخلا، کابینہ کے اس اجلاس میں معاہدے کی باضابطہ منظوری کے بعد شروع ہو گا۔
ادھر غاصب اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے جنگ بندی کے آغاز کے بارے اسرائیلی میڈیا رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ اقدام آج شام منعقد ہونے والے اسرائیلی کابینہ کے اجلاس کے بعد نافذ کیا جائے گا۔ نیتن یاہو آفس کا کہنا تھا کہ میڈیا نے جو کچھ شائع کیا ہے اس کے برعکس، 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن کا شمار اُس حکومتی اجلاس میں معاہدے کی منظوری کے بعد سے کیا جائے گا، جو آج شام کو متوقع ہے۔
دوسری جانب العربی ٹی وی نے بھی اطلاع دی ہے کہ الرشید اسٹریٹ پر 2 اسرائیلی ٹینک تعینات کئے گئے ہیں جن کی ذمہ داری عام فلسطینی شہریوں کو غزہ شہر کی جانب واپس آنے سے روکنا ہے جبکہ اسرائیلی لڑاکا طیارے بھی الرشید اسٹریٹ پر میزائل داغ رہے ہیں۔
۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ٹرمپ منصوبے سے غزہ میں امن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، نیتن یاہو
تل ابیب: اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اور اگر وہ امریکی قیادت میں پیش کیے گئے جنگ بندی منصوبے کو قبول کر لیتی ہے تو یہ غزہ جنگ کے خاتمے کی شروعات ہوسکتی ہے۔
نیتن یاہو نے یورونیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ "ہم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرلیا ہے، اب فیصلہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اس پر عمل کرتی ہے تو امن قائم ہوسکتا ہے، ورنہ اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت کے ساتھ حماس کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔"
انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے دو اہم حصے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جزوی انخلا شامل ہے، جبکہ دوسرے حصے میں غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا مقصد ہے۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس نے اس منصوبے پر نرمی اس لیے دکھائی کیونکہ اسرائیلی فوج نے حالیہ ہفتوں میں غزہ کے مرکزی علاقوں میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ ان کے بقول "ہماری کارروائی نے حماس کو احساس دلایا کہ اس کا انجام قریب ہے، اسی دوران صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ سامنے آیا جس نے صورتحال کو بہتر سمت دی۔"
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ "سب جانتے ہیں کہ حماس دوبارہ غزہ پر حکومت نہیں کر سکتی۔ ہمیں ایک نئی سول انتظامیہ کی ضرورت ہے جو اسرائیل سے دشمنی نہ رکھے بلکہ امن کے ساتھ رہنا چاہے۔"
انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے اس مجوزہ سول اتھارٹی کی سربراہی کا عندیہ بھی دیا ہے، جس سے اسرائیل، غزہ اور پورے خطے کے لیے ایک نیا اور پائیدار مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔
نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ حماس نے "غزہ کے لیے آنے والے اربوں ڈالر عوامی بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے زیر زمین دہشت گرد شہر بنانے پر لگا دیے۔" ان کے بقول "اب خود غزہ کے لوگ حماس کی جابرانہ حکومت کے خلاف ہیں۔"
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو مزید عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر سکتے ہیں، جیسے ماضی میں ابراہیم معاہدوں کے تحت کیے گئے تھے۔