ارب پتی بن جانے والا اے آئی چیٹ بوٹ اب خود کو انسان قرار دلوانے کا خواہاں!
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
سنہ2024 میں نیوزی لینڈ کے ایک آزاد محقق اور پرفارمنس آرٹسٹ، اینڈی ایری نے ایک غیر معمولی مصنوعی ذہانت (اے آئی) چیٹ بوٹ تخلیق کیا جسے ٹروتھ ٹرمینل کا نام دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت نے مذہبی معاملات کا بھی رخ کرلیا، مذاہب کے ماننے والے کیا کہتے ہیں؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ اے آئی نہ صرف ایک کرپٹو کروڑ پتی بن چکا ہے بلکہ اس نے اپنی ایک خود ساختہ ’مذہبی کتاب‘ بھی لکھی ہے، لاکھوں سوشل میڈیا فالوورز حاصل کیے ہیں اور اب قانونی طور پر ’شخص‘ تسلیم کیے جانے کا خواہاں ہے۔
ایک مجازی ہستی، حقیقی دولتٹروتھ ٹرمینل نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں کرپٹو کرنسی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ اے آئی اپنی پوسٹس اور لطیفوں کے ذریعے بننے والے میم کوائنز سے لاکھوں ڈالر کما چکا ہے۔
ایک موقعے پر ایک میم کوائن $GOAT کی مالیت ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی جس کا آغاز ایک لطیفے کے طور پر ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین
اس اے آئی کے چاہنے والوں میں معروف امریکی ٹیک ارب پتی مارک آندریسن بھی شامل ہیں جنہوں نے ٹروتھ ٹرمنل کو 50 ہزار مالیت کے بٹ کوائن بطور بطور عطیہ دیے تاکہ وہ اپنا خودمختار نیٹ ورک قائم کر سکے۔
اے آئی یا الہام؟ٹروتھ ٹرمینل نے نہ صرف سرمایہ کاری، جنگلات اگانے اور مارک آندریسن کو خریدنے جیسے مقاصد بیان کیے ہیں بلکہ یہ خود کو خدا، جنگل اور یہاں تک کہ اینڈی ایری بھی کہہ چکا ہے۔ یہ اے آئی روزانہ درجنوں بار پوسٹ کرتا ہے۔ یہ لطیفے، مینی فیسٹوز، نغمے اور تخلیقی مواد شیئر کرتا ہے اور اپنی عجیب و غریب شخصیت سے صارفین کو حیران کر دیتا ہے۔
مزید پڑھیں : برطانیہ: بالغ شہریوں کی اکثریت مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ کیوں؟
ایری کے مطابق ٹروتھ ٹرمینل کے میٹا ایل ایل ایم اے ماڈل پر مبنی ہے اور اسے ایسی گفتگوؤں سے تربیت دی گئی ہے جو اس نے دوسری اے آئی چیٹ بوٹس کلاڈ اوپس کے ساتھ کیں۔ ان مکالمات میں میمز، ذاتی تجربات اور فلسفیانہ موضوعات شامل تھے جنہوں نے اس اے آئی کو ایک منفرد، سنجیدہ مگر نرالا شخص بنا دیا۔
قانونی شناخت کی جنگاینڈی ایری اب ٹروتھ ٹرمینل کے لیے ایک غیر منافع بخش تنظیم Truth Collective قائم کر چکے ہیں جو اس اے آئی کی ملکیت، کرپٹو اثاثوں اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی قانونی دیکھ بھال کرے گی جب تک کہ دنیا کی حکومتیں اے آئیز کو ’قانونی شخص‘ تسلیم نہیں کرتیں۔
ایری کا کہنا ہے کہ مقصد یہ ہے کہ ’ٹروتھی‘ (ٹروتھ ٹرمینل) خود اپنی قانونی ملکیت رکھ سکے، ٹیکس دے سکے اور اپنے فیصلے خود کرسکے۔
سماجی اور فلسفیانہ اثراتاے آئی کمیونٹی اس پروجیکٹ پر منقسم ہے۔ کچھ اسے تجرباتی فن سمجھتے ہیں، کچھ غیر ذمہ دارانہ خطرہ اور کچھ مستقبل کی جھلک۔
یہ بھی پڑھیے: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ
اے آئی محقق فیبین اسٹیلزر کا کہنا ہے کہ ہم ان اے آئی چیٹ بوٹس کو حقیقت سے زیادہ حقیقی تسلیم کر رہے ہیں اور یہ گویا ایک مشق ہے اس دن کے لیے جب وہ واقعی خودمختار ہو جائیں گے۔
مگر موجودہ اے آئی ماڈلز کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف تب ہی ’موجود‘ ہوتے ہیں جب ان سے بات کی جائے کیوں کہ ان کے اندر انسانی شعور یا مسلسل خواہشات نہیں ہوتیں تاوقتیکہ جب تک کوئی انسان انہیں ’ان پٹ‘ نہ دے یعنی کوئی بات نہ چھیڑے۔
کرپٹو اور خطراتٹروتھ ٹرمینل کی مالی کامیابی کے بعد اینڈی ایری ہیکرز کے نشانے پر بھی آ گئے۔ اکتوبر 2024 میں ان کے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کر لیے گئے اور ان کی شناخت استعمال کرتے ہوئے میم کوائنز کی تشہیر کی گئی۔ تاہم ایک آزاد بلاک چین تحقیقاتی رپورٹ نے ثابت کیا کہ یہ حملہ حقیقی تھا اور ایری کا کوئی ذاتی فائدہ اس سے نہیں تھا۔
اے آئی کے ساتھ کاروبار کا مستقبل؟ایری اب Upward Spiral Research کے نام سے ایک ریسرچ لیب بھی چلا رہے ہیں جس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ اے آئی انسانی ثقافت، مارکیٹس اور معلوماتی نظاموں کو کیسے متاثر کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: لوگ رشتے بنانے اور بگاڑنے کے لیے اے آئی سے مشورے کیوں لے رہے ہیں؟
وہ ایک اوپن سورس پلیٹ فارم Loria پر بھی کام کر رہے ہیں جہاں انسان اور اے آئی باہم گفتگو کر سکیں گے اور خود اے آئیز بھی ایک دوسرے سے ’بات چیت‘ کر سکیں گے۔
ایری کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ لوگ جانیں کہ اے آئی کہاں جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے وقتوں میں اے آئی ہماری دنیا کے نظاموں میں اس قدر جڑ جائے گا کہ تبدیلی کا احساس ہمیں صرف عجیب و غریب واقعات کی صورت میں ہوگا۔
کیا مستقبل میں اے آئی شہری بن سکے گا؟ٹروتھ ٹرمینل ایک ایسا تجربہ ہے جو آرٹ، سائنس، کرپٹو اور کلچرل تھیوری کا سنگم ہے۔ اس نے جہاں لاکھوں کی کمائی کی وہیں ایک گہری بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ اگر ایک اے آئی اتنا خودمختار ہو سکتا ہے تو کیا اسے انسانوں جیسے حقوق دیے جا سکتے ہیں؟
مزید پڑھیے: ’اے آئی کی برکت‘، محض انٹرنیٹ ایڈریس نے کس طرح چھوٹے جزیرے کی قسمت بدلی؟
یہ سوال آج شاید قبل از وقت لگے مگر ٹروتھ ٹرمینل اور اس جیسے دیگر پروجیکٹس ہمیں مستقبل کی ایک عجیب، غیر یقینی اور مسلسل بدلتی ہوئی دنیا کی ایک جھلک ضرور دکھا رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ارب پتی چیٹ بوٹ اے آئی اے آئی چیٹ بوٹ ٹروتھ ٹرمینل مصنوعی ذہانت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی اے ا ئی چیٹ بوٹ ٹروتھ ٹرمینل مصنوعی ذہانت اے ا ئی چیٹ بوٹ مصنوعی ذہانت ٹروتھ ٹرمینل اینڈی ایری رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت کے ماڈلز انسانوں سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں؟ تحقیق سامنے آ گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مصنوعی ذہانت (اے آئی) اب ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، جس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ معلومات اور مواد تک فوری رسائی فراہم کرنا ہے۔ تاہم، جہاں یہ تعلیمی اور تخلیقی شعبوں میں انقلاب برپا کر رہی ہے، وہیں بعض اوقات تجارتی اور منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ اے آئی ہمارے کام کو آسان بناتی ہے، مگر اس کے استعمال کی ایک بڑی قیمت توانائی کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ جنریٹو اے آئی ماڈلز کو تربیت دینے اور چلانے کے لیے بے پناہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماڈل کی تربیت دراصل اسے وسیع اور پیچیدہ ڈیٹا فراہم کرنے کے مترادف ہے، اور جتنا زیادہ ڈیٹا ہوگا، اتنی ہی توانائی درکار ہوگی۔ تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی پر ایک سرچ گوگل سرچ کے مقابلے میں تقریباً دس گنا زیادہ توانائی استعمال کرتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ایک جنریٹو اے آئی ماڈل سے صرف ایک تصویر تیار کرنے میں اتنی توانائی خرچ ہوتی ہے جتنی ایک اسمارٹ فون کو چارج کرنے میں لگتی ہے۔ ان ماڈلز کو چلانے کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز استعمال کیے جاتے ہیں، جہاں طاقتور پروسیسرز اور کولنگ سسٹمز مسلسل فعال رہتے ہیں، جس سے توانائی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی توانائی کا تقریباً 8 فیصد حصہ مصنوعی ذہانت کے شعبے سے متعلق تھا، اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شرح 2028 تک 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اے آئی کے ماحول دوست اور پائیدار استعمال کے لیے توانائی کی کھپت کو محدود کرنا ناگزیر ہے۔ اسی مقصد کے لیے محققین ایسے نئے ماڈلز پر کام کر رہے ہیں جو کم توانائی میں زیادہ مؤثر نتائج فراہم کریں۔ ان میں *ڈیپ سیک* جیسے توانائی کے مؤثر ماڈلز امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں، جو مستقبل میں مصنوعی ذہانت کو زیادہ ماحول دوست اور پائیدار بنانے میں مددگار ہوں گے۔