جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز کے بااثر ملزمان کا ملک سے فرار کا خدشہ، نیب نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)قومی احتساب بیورو (نیب) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز میں ملوث متعدد بااثر ملزمان بیرونِ ملک فرار ہو سکتے ہیں، لہٰذا ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف فوری سماعت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
نیب نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اگر سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ فوری طور پر معطل نہ کیا گیا، تو ’’اکثر ملزمان ملک سے فرار ہو جائیں گے‘‘، جس سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ سے متعلق تحقیقات اور احتساب سے جڑی کارروائیاں متاثر ہوں گی۔
نیب نے اپنی اپیل میں کہا ہے کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیران ہے، کیونکہ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس کے ایک بااثر ملزم کو ریلیف دیتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور نیب سمیت دیگر اداروں کو یہ ہدایت جاری کی کہ ’’آئندہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر درخواست گزار کا نام کسی سفری پابندی کی فہرست میں شامل نہ کیا جائے۔‘‘
نیب کے مطابق، ’’اس نوعیت کا ریلیف مفروضے کی بنیادوں پر مبنی ہے اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔‘‘ مزید کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ایسے مقدمات میں بھی ریلیف دے دیا جہاں ایک ملزم نے 9؍ ارب روپے میں سے 2 ارب روپے نیب کے ساتھ پلی بارگین کے تحت ادا کیے تھے۔
نیب نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ جب مقدمہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیرِ سماعت ہے، تو سندھ ہائی کورٹ نے اس پر دائرہ اختیار کیسے قائم کیا؟ درخواست میں کہا گیا کہ ایک مقدمے میں ملزم نے یہ موقف اپنایا کہ چونکہ وہ کراچی میں رہتا ہے اور فضائی سفر کیلئے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ استعمال کرتا ہے، لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کو علاقائی دائرہ اختیار حاصل ہے، لیکن نیب کے مطابق یہ موقف قانوناً قابل قبول نہیں۔
اس کے باوجود عدالت نے یہ موقف تسلیم کرتے ہوئے نیب سمیت تمام متعلقہ فریقین کو ملزم کا نام ای سی ایل، بلیک لسٹ، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ یا کسی بھی سفری پابندی کی فہرست سے نکالنے کی ہدایت جاری کیں۔
نیب نے سپریم کورٹ کو یاد دلایا کہ جعلی اکاؤنٹس کیسز کی ابتدا سپریم کورٹ کے 2019ء کے فیصلے سے ہوئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے تمام ملزمان اور ان کے مرد اہلِ خانہ کو بیرونِ ملک سفر سے روکنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
نیب نے سوال اٹھایا کہ کیا سندھ ہائی کورٹ کسی ایسے معاملے پر فیصلہ دے سکتی ہے جو سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا ہو؟ نیب نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ سندھ ہائی کورٹ نے غیر معمولی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیسز نمٹائے۔
نیب کو 16؍ ستمبر کو نوٹس موصول ہوا، اور اگلے ہی دن (17؍ ستمبر) سماعت مقرر کردی گئی، حالانکہ معاملہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار سے متعلق تھا۔ نیب کے وکیل نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگا لیکن درخواست مسترد کر دی گئی اور عدالت نے فوری طور پر درخواست گزار کا نام تمام سفری پابندی کی فہرستوں سے نکالنے کا حکم دے دیا۔
نیب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس کیس کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے کی، حالانکہ یہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا تھا۔ بیورو نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ اس کی درخواستوں کو فوری سماعت کیلئے مقرر کیا جائے اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کو معطل کیا جائے تاکہ ملزمان ملک سے فرار نہ ہو سکیں۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سندھ ہائی کورٹ کے کے دائرہ اختیار نے سپریم کورٹ اکاو نٹس کے فیصلے کورٹ نے نیب کے
پڑھیں:
مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے: جسٹس جمال مندوخیل
چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے، 24 ججز کی میٹنگ ہوئی، کچھ شقوں کے حوالے سے معاملہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا، چند ججز نے اِن پُٹ دیا تھا اور چند نے نہیں دیا تھا۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس امین الدین نے کہا کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے، آج کی سماعت لائیو نشر نہیں کی جائے گی۔
دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ پارٹی جج پر اعتراض نہیں کر سکتی، کیس سننے کا یا نہ سننے کا اختیار جج کے پاس ہے، ہماری درخواست فل کورٹ کی ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ فل کورٹ کی بات نہ کریں، آپ کہیں وہ ججز جو 26ویں آئینی ترمیم سے قبل سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل عابد زبیری سے کہا کہ ایک طرف 16ججز کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف اجتماعی دانش کی بات کر رہے ہیں، ہمارے سامنے اس وقت آرٹیکل 191 اے موجود ہے جو آئین کا حصّہ ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں آرٹیکل 191 اے کو الگ رکھ دیں، کیسے رکھیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلے موجود ہیں، جس میں لکھا ہوا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس عائشہ ملک سے مکالمہ کیا کہ ان کو جواب دینے دیں، بینچز سپریم کورٹ رولز کے مطابق بنائے جائیں گے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ رول 2025 موجود ہے، جس کا نوٹیفکیشن ہو چکا، سپریم کورٹ رول کے آرڈر 11 کے مطابق کمیٹی بینچز بنائے گی۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ان رولز میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ بینچ چیف جسٹس بنائے گا۔
وکیل عابد زبیری نے جسٹس مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بینچ نہیں ہے، آج تک فل کورٹ کیسے بنے؟ آپ کا بھی فیصلہ موجود ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فل کورٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ رول 2025 میں ہونا چاہیے تھا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئینی ترمیم سے پہلے موجود ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، موجودہ 8 رکنی بینچ میں ہمیں اپیل کا حق نہیں ملے گا، آئینی بینچ کے لیے نامزد ججز کی تعداد 15ہے، اپیل پر سماعت کے لیے کم سے کم 9 مزید ججز درکار ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں؟ اب فیصلہ جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں آ گیا ہے، جوڈیشل کمیشن چاہے تو اضافی ججز نامزد کر کے اپیل کا حق دے سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن کی مرضی نہ ہوئی تو اپیل کا حق چھینا بھی جاسکتا ہے، یہ سیدھا سیدھا عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپیل کا حق تو 16 رکنی بینچ میں بھی نہیں ہو گا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ اجتماعی دانش پر مبنی فیصلہ ہو تو اپیل کا حق لازمی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ وکلاء نے تو یہ بھی کہا ہے آرٹیکل 191 اے کو سائیڈ پر رکھ کر کیس سنا جائے، سمجھ نہیں آتا آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ جو شق چیلنج ہو اسے کیسے سائیڈ پر رکھا جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز کے حوالے سے 24 ججز بیٹھے تھے، جن کے سامنے رولز بنے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سب کے سامنے سپریم کورٹ رولز نہیں بنے، میرا نوٹ موجود ہے۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میٹنگ منٹس منگوائے جائیں، سب ججز کو اِن پُٹ دینے کا کہا گیا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ کیا کہ آپ ریکارڈ منگوا رہے ہیں نا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیس آگے نہیں چلے گا جب تک یہ کلیئر نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل اٹھ کر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ یہ اندرونی معاملہ ہے اس کو یہاں پر ڈسکس نہ کیا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے، 24 ججز کی میٹنگ ہوئی، کچھ شقوں کے حوالے سے معاملہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا، چند ججز نے اِن پُٹ دیا تھا اور چند نے نہیں دیا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی کے پاس بینچز بنانے کا اختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا اختیار نہیں، کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے۔ دونوں مختلف ہیں، ہم بینچز نہیں بلکہ فل کورٹ کی بات کر رہے ہیں۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس فل کورٹ بنا سکتے ہیں جس میں آئینی بینچ کے تمام ججز ہوں؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس ابھی بھی فل کورٹ بنانے کا اختیار موجود ہے، فل کورٹ تشکیل دینے کی ڈائریکشن دی جاسکتی ہے، انہوں نے مختلف فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ آپ ہمیں کہہ رہے چیف جسٹس کو فل کورٹ تشکیل دینے کا کہیں، ماضی میں چیف جسٹس نے خود فل کورٹ تشکیل دیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی ہو گئی ہے۔