Express News:
2025-10-18@22:27:48 GMT

لغت اردو (جدید)

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

لغت اردو (جدید) تاریخی اصول پرکی پہلی دوسری جلد کی نستعلیق رسم الخط میں اشاعت اردو لغت بورڈ، کراچی کا شاہکار لائق تحسین کارنامہ ہے۔ عظیم الشان لغت کی بائیس جلدوں کا طباعتی سفر چالیس برس سے زائد دورانیے پر محیط رہا۔

وزارت تعلیم، حکومت پاکستان کی ایک قرارداد کے ذریعے ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ بحیثیت ایک خود مختار ادارہ 14 جون 1958کو معروض وجود میں آیا جو ذمے داری اس کے قیام کا اہم ترین مقصد بنی، وہ لسانیاتی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے آکسفورڈ ڈکشنری (کلاں) کے نمونے پر اردوکی ایک جامع لغت کی تدوین تھی، چنانچہ مارچ 1959میں مختصر سے عملے کا تقرر ڈاکٹر مولوی عبدالحق بحیثیت مدیراعلیٰ اور جوش ملیح آبادی مشیر ادبی کیا گیا۔

اس تدوین کا جو بنیادی خاکہ تیارکیا گیا، وہ یہ تھا کہ ابتداء سے لے کر موجودہ دور تک کہ ہر لفظ کے ہر معنی بلکہ اس کی ضمنی شقوں کی بھی مثالیں شروع سے لے کر آخر تک ہر دور سے مہیا کی جاسکیں، جس کے لیے اردو ادب کو تاریخی اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم بھی کیا گیا اورکوشش کی گئی کہ برصغیر کے ہر علاقے کی اردو تصانیف سے استفادہ کیا جائے۔

چونکہ یہ تاریخی لغت ہے جو جدید لسانیاتی اصول پر مرتب کی جائے گی۔ اردو ہندوستان کی ہی زبان تھی جس میں بہت بڑی تعداد میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہو چکے تھے۔

اس کا رسم الخط فارسی تھا جو عربی کی ہی ایک شکل ہے جس میں مومنوں کی فلاح کا نسخہ کیمیا لکھا گیا جو ہدایت کا دائمی منشور بھی ہے جس کے زیر اثر اردو کو مسلمانوں کے وجود کے ساتھ جوڑا گیا اور یوں اردو برصغیر میں مسلمانوں کی موجودگی کی علامت بن گئی۔

مسلمانوں کے لیے اردوکا تحفظ قومی بقا کا مسئلہ تھا، ہے اور رہے گا۔ مولوی عبدالحق کا خواب تھا کہ اردوکی ایسی جامع لغت تیارکی جائے جیسی برطانیہ میں آکسفورڈ وسیع تر انگریزی ڈکشنری بنائی گئی۔

تحریک پاکستان کے چلتے اردو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تحریک پاکستان سے پوری طرح منسلک ہو گئی اور یوں اردو ڈکشنری بورڈ ہمارے بزرگوں کی جدوجہد کی نشانی بھی ہے۔

ابتداء میں اس ادارے کا نام ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ رکھا گیا جب کہ اس کا بنیادی کام لغت نگاری تھا جس کے پیش نظر 1982 میں وزارت تعلیم نے ایک اور قرارداد کے مطابق اس سے ’’اردو لغت بورڈ‘‘ سے موسوم کر دیا اور اس کو ترقی اردو کے دیگر کاموں سے علیحدہ کر دیا، 2007 تک یہ ادارہ خود مختار حیثیت میں کام کرتا رہا۔ 

بعد ازاں ہمارے وطن عزیزکی بدقسمتی کہ یہاں کسی بھی علمی ادارے کو فروغ علمیت کے لیے خود مختار نہیں رہنے دیا جاتا اور کسی نہ کسی ادارے میں ضم کر دیا جاتا ہے اس کے تمام حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں اور اس میں کام کرنیوالے علم کے میناروں، طالبعلموں اور علم سے محبت کرنیوالوں کی کٹوتی کی جاتی ہے۔

چونکہ یہ وطن عزیزکے ناخواندہ حکمرانوں کے لیے بھاری پر رہے ہوتے ہیں جوکہ ہمارے جاہل سیاسی ٹولے کی پسماندہ سوچ و فکر کی غمازی کرتا ہے چنانچہ دیگر علمی اداروں کی طرح اس ادارے کی بھی خوب اتھل پتھل کی جاتی ہے اور دور حاضر میں یہ ادارہ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے ماتحت سرگرم عمل ہے۔

ماضی میں اس منفرد ادارے سے انگنت نابغہ روزگار شخصیات منسلک رہے جن کی علمی اعانت اور محنتوں کا ثمر اپریل 2010میں برسوں کی دیدہ ریزی کے بعد تاریخی اصول پر اردو لغت (بائیس جلدوں) کا طباعتی سفر الحمد اللہ خیرو خوبی سے مکمل ہوا، جس کی مثال صرف انگریزی اور جرمن زبان میں ملتی ہے۔

تاریخی اصول اور بیتی صدیوں سے لی گئی اسناد کے باعث یہ لغت برصغیر کی ایک ہزار سالہ تہذیبی اور تمدنی ارتقاء کی بیش بہاء دستاویز ہے جس میں اس تہذیب کے ایک ایک لفظ کو محفوظ کیا گیا ہے جو کہ نہ صرف موجودہ بلکہ آنیوالی نسلوں کے لیے بھی ایک نایاب تحفہ ہے۔

لغت شایع کرنیوالے ادارے ہر تیس برس بعد لغت پر نظر ثانی کرتے ہیں تاکہ اس میں موجود کمی بیشی کو دور کیا جاسکے چونکہ زبان میں متعدد نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں، حروف کاری میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔

تاریخی لغت کی پہلی جلد 1977 میں شایع ہوئی تھی جس کے زیر اثرجلد اول کا جدید ایڈیشن 2025 میں آنا ناگزیر تھا۔ ہمارے اسلاف محسنان اردو کی انتھک کاوشوں کے نتیجے پر نظرثانی کے لیے بلند پایہ محققین کی ضرورت ہے جب کہ اس علمی ادارے کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شعبہ ادارت میں ایک اسکالر اور کمپیوٹر سیکشن میں ایک آپریٹر موجود ہے اور باقی سب آسامیاں پر ہونے کی منتظر ہیں اور موجودہ حالات میں پر ہونے کے بجائے حکومت وقت ادارے کو مزید ضم کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کے در پر ہے۔

افرادی قوت کی انتہائی کمی کے باعث لغت بورڈ نے نظر ثانی کے بجائے تمام جلدوں میں طباعتی اسلوب کی یکسانیت اور عام استفادے کے لیے قاری کی سہولت کو مدنظر رکھنے کا فیصلہ کیا یعنی کسی بھی حرف تہجی کے تحت آنیوالے جملہ الفاظ کو ایک ہی جلد میں رکھنے اور حروف کی صوری زاویوں سے جلدوں میں تقسیم اور حسن ترتیب اختیارکی جائے، قدیم تقطیع کے بجائے سائزکو جدید اور چھوٹا رکھا جائے تاکہ اس سے حفاظت سے رکھنے اور استعمال میں آسانی فراہم ہو سکے اور یوں رسم الخط نستعلیق میں جدید اشاعت کی بلا ترمیم و اضافہ تیاری کے منصوبے کا آغازکیا گیا۔ 

جس کی پہلی جلد فروری (کراچی عالمی مشاہرے کے موقع پر اور ایک تقریب دبئی میں بھی ہوئی) اور دوسری جلد ستمبر 2025 میں منظر عام پر آئی۔ لغت کی ابتدائی چھ جلدیں (ہینڈ کمپوزنگ) ٹائپ کی مدد سے شایع کی گئیں، جلد ۷ سے۱۷ کے ابتدائی دو سو پچاس صفحات تک کے حروف چینی مونو ٹائپ کمپیوٹر سسٹم پروگرام کے تحت کمپوزکیے گئے۔

جب کہ جلد ۱۷ کے بقیہ صفحات اور جلد ۱۸ تا ۲۲ کی اشاعت ان پیج پرکی گئی، اس صورتحال کی بدولت اردو لغت کے بائیس ہزار صفحات میں ابتدائی سترہ ہزار صفحات کوکمپیوٹرائز شکل دینا تھا جو الحمد للہ جدید اشاعت میں دی جا رہی ہے۔

دور حاضر میں اس عظیم الشان اردو لغت کی موبائل ایپلیکیشن صارفین کے لیے بلا معاوضہ دستیاب ہے اور اس کے لیے سرچ انجن بھی تیارکیا گیا ہے اور یہ تاریخی لغت اب ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے جس کی بدولت اردو دنیا جدید زبانوں کے شانہ بشانہ بحیثیت مجموعی پاکستان کی قومی زبان اقوام عالم میں اپنی نمایندگی کا فریضہ بھرپور انداز سے انجام دے رہی ہے۔

کاغذ سے مبرا تکنیک اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے جس کے سبب یہ عظیم لغت اب باآسانی اور بلامعاوضہ ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ کمپیوٹرائزیشن آف اردو ڈکشنری سافٹ ویئرڈیولپمنٹ فار موبائل فون، ویب ہوسٹنگ اینڈاسٹیبلشمنٹ آف سرور روم کی کامیاب تکمیل کے بعد اسی تسلسل میں ریکارڈنگ آف فرسٹ ڈیجیٹل اردو ساؤنڈ ڈکشنری، اردو ڈکشنری بورڈ کا ایک اور شاندار کارنامہ ہے جو درست تلفظ اور ادائیگی سے آگاہی فراہم کرتا ہے جس سے اردو کے مطلوبہ لفظ کا تلفظ موبائل ایپلیکیشن یا انٹرنیٹ پر سن کر درست ادا کرنے کی صارفین اہلیت حاصل کرسکتے ہیں۔

اس انتہائی اہم ’’ جدید اشاعت‘‘ کے منصوبے کا آغاز پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان نے کیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں ایچ ایم آر گروپ کے روح رواں ڈاکٹر حاجی محمد رفیق پردیسی کا دست تعاون قابل تحسین ہے جن کے ادارے برکاتی فاؤنڈیشن کی مالی اعانت کے باعث اس ’’جدید لغت ‘‘ کی اشاعت اور طباعت کے مراحل طے پاسکے اور انشاء اللہ آیندہ بھی بقیہ جلدوں کے لیے طے پاتے رہیں گے۔

اردو دنیا کے ان شاہکارکارناموں میں ایک نوجوان کا کردار یقینا قابل ذکر ہے جس نے اپنے ناتواں شریر پر جس مضبوطی سے اردو زبان کو تھاما ہوا ہے وہ صد لائق تحسین ہے اور وہ نوجوان کوئی اور نہیں، سنیئر ریسرچ اسکالر اردو لغت بورڈ کراچی محمد طارق بن آزاد صاحب ہیں۔

اس جدید اشاعت کے حوالے سے وہ کہتے ہیںکہ جہاں کہیں تشریح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک نام درج ہے، وہاں ان کے نام کے ساتھ ’’ص‘‘یا صلعم کی جگہ مکمل درود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا گیا ہے۔

معنی و تشریح کے اندراج میں جہاں کہیں الفاظ ملا کر درج تھے، ان کو جدید املا کے مطابق الگ الگ لکھا گیا ہے، البتہ اسناد کے متن میں اصل نسخے کی پیروی کی گئی ہے۔ اس جدید اشاعت میں تصحیح طلب مقامات پر درستگی بھی کی گئی ہے۔

معنی وتشریح کے اندراج میں املا کی یکسانیت کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، اس حوالے سے ایک صحت نامہ بھی مرتب کیا گیا ہے جو سابقہ اشاعت رکھنے والوں کے لیے معاون و مددگار ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیا گیا اور اس گیا ہے کی گئی لغت کی ہے اور کے لیے

پڑھیں:

لغت اردو (جدید)

لغت اردو (جدید) تاریخی اصول پرکی پہلی دوسری جلد کی نستعلیق رسم الخط میں اشاعت اردو لغت بورڈ، کراچی کا شاہکار لائق تحسین کارنامہ ہے۔ عظیم الشان لغت کی بائیس جلدوں کا طباعتی سفر چالیس برس سے زائد دورانیے پر محیط رہا۔

وزارت تعلیم، حکومت پاکستان کی ایک قرارداد کے ذریعے ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ بحیثیت ایک خود مختار ادارہ 14 جون 1958کو معروض وجود میں آیا جو ذمے داری اس کے قیام کا اہم ترین مقصد بنی، وہ لسانیاتی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے آکسفورڈ ڈکشنری (کلاں) کے نمونے پر اردوکی ایک جامع لغت کی تدوین تھی، چنانچہ مارچ 1959میں مختصر سے عملے کا تقرر ڈاکٹر مولوی عبدالحق بحیثیت مدیراعلیٰ اور جوش ملیح آبادی مشیر ادبی کیا گیا۔

اس تدوین کا جو بنیادی خاکہ تیارکیا گیا، وہ یہ تھا کہ ابتداء سے لے کر موجودہ دور تک کہ ہر لفظ کے ہر معنی بلکہ اس کی ضمنی شقوں کی بھی مثالیں شروع سے لے کر آخر تک ہر دور سے مہیا کی جاسکیں، جس کے لیے اردو ادب کو تاریخی اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم بھی کیا گیا اورکوشش کی گئی کہ برصغیر کے ہر علاقے کی اردو تصانیف سے استفادہ کیا جائے۔

چونکہ یہ تاریخی لغت ہے جو جدید لسانیاتی اصول پر مرتب کی جائے گی۔ اردو ہندوستان کی ہی زبان تھی جس میں بہت بڑی تعداد میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہو چکے تھے۔

اس کا رسم الخط فارسی تھا جو عربی کی ہی ایک شکل ہے جس میں مومنوں کی فلاح کا نسخہ کیمیا لکھا گیا جو ہدایت کا دائمی منشور بھی ہے جس کے زیر اثر اردو کو مسلمانوں کے وجود کے ساتھ جوڑا گیا اور یوں اردو برصغیر میں مسلمانوں کی موجودگی کی علامت بن گئی۔

مسلمانوں کے لیے اردوکا تحفظ قومی بقا کا مسئلہ تھا، ہے اور رہے گا۔ مولوی عبدالحق کا خواب تھا کہ اردوکی ایسی جامع لغت تیارکی جائے جیسی برطانیہ میں آکسفورڈ وسیع تر انگریزی ڈکشنری بنائی گئی۔

تحریک پاکستان کے چلتے اردو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تحریک پاکستان سے پوری طرح منسلک ہو گئی اور یوں اردو ڈکشنری بورڈ ہمارے بزرگوں کی جدوجہد کی نشانی بھی ہے۔

ابتداء میں اس ادارے کا نام ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ رکھا گیا جب کہ اس کا بنیادی کام لغت نگاری تھا جس کے پیش نظر 1982 میں وزارت تعلیم نے ایک اور قرارداد کے مطابق اس سے ’’اردو لغت بورڈ‘‘ سے موسوم کر دیا اور اس کو ترقی اردو کے دیگر کاموں سے علیحدہ کر دیا، 2007 تک یہ ادارہ خود مختار حیثیت میں کام کرتا رہا۔ 

بعد ازاں ہمارے وطن عزیزکی بدقسمتی کہ یہاں کسی بھی علمی ادارے کو فروغ علمیت کے لیے خود مختار نہیں رہنے دیا جاتا اور کسی نہ کسی ادارے میں ضم کر دیا جاتا ہے اس کے تمام حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں اور اس میں کام کرنیوالے علم کے میناروں، طالبعلموں اور علم سے محبت کرنیوالوں کی کٹوتی کی جاتی ہے۔

چونکہ یہ وطن عزیزکے ناخواندہ حکمرانوں کے لیے بھاری پر رہے ہوتے ہیں جوکہ ہمارے جاہل سیاسی ٹولے کی پسماندہ سوچ و فکر کی غمازی کرتا ہے چنانچہ دیگر علمی اداروں کی طرح اس ادارے کی بھی خوب اتھل پتھل کی جاتی ہے اور دور حاضر میں یہ ادارہ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے ماتحت سرگرم عمل ہے۔

ماضی میں اس منفرد ادارے سے انگنت نابغہ روزگار شخصیات منسلک رہے جن کی علمی اعانت اور محنتوں کا ثمر اپریل 2010میں برسوں کی دیدہ ریزی کے بعد تاریخی اصول پر اردو لغت (بائیس جلدوں) کا طباعتی سفر الحمد اللہ خیرو خوبی سے مکمل ہوا، جس کی مثال صرف انگریزی اور جرمن زبان میں ملتی ہے۔

تاریخی اصول اور بیتی صدیوں سے لی گئی اسناد کے باعث یہ لغت برصغیر کی ایک ہزار سالہ تہذیبی اور تمدنی ارتقاء کی بیش بہاء دستاویز ہے جس میں اس تہذیب کے ایک ایک لفظ کو محفوظ کیا گیا ہے جو کہ نہ صرف موجودہ بلکہ آنیوالی نسلوں کے لیے بھی ایک نایاب تحفہ ہے۔

لغت شایع کرنیوالے ادارے ہر تیس برس بعد لغت پر نظر ثانی کرتے ہیں تاکہ اس میں موجود کمی بیشی کو دور کیا جاسکے چونکہ زبان میں متعدد نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں، حروف کاری میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔

تاریخی لغت کی پہلی جلد 1977 میں شایع ہوئی تھی جس کے زیر اثرجلد اول کا جدید ایڈیشن 2025 میں آنا ناگزیر تھا۔ ہمارے اسلاف محسنان اردو کی انتھک کاوشوں کے نتیجے پر نظرثانی کے لیے بلند پایہ محققین کی ضرورت ہے جب کہ اس علمی ادارے کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شعبہ ادارت میں ایک اسکالر اور کمپیوٹر سیکشن میں ایک آپریٹر موجود ہے اور باقی سب آسامیاں پر ہونے کی منتظر ہیں اور موجودہ حالات میں پر ہونے کے بجائے حکومت وقت ادارے کو مزید ضم کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کے در پر ہے۔

افرادی قوت کی انتہائی کمی کے باعث لغت بورڈ نے نظر ثانی کے بجائے تمام جلدوں میں طباعتی اسلوب کی یکسانیت اور عام استفادے کے لیے قاری کی سہولت کو مدنظر رکھنے کا فیصلہ کیا یعنی کسی بھی حرف تہجی کے تحت آنیوالے جملہ الفاظ کو ایک ہی جلد میں رکھنے اور حروف کی صوری زاویوں سے جلدوں میں تقسیم اور حسن ترتیب اختیارکی جائے، قدیم تقطیع کے بجائے سائزکو جدید اور چھوٹا رکھا جائے تاکہ اس سے حفاظت سے رکھنے اور استعمال میں آسانی فراہم ہو سکے اور یوں رسم الخط نستعلیق میں جدید اشاعت کی بلا ترمیم و اضافہ تیاری کے منصوبے کا آغازکیا گیا۔ 

جس کی پہلی جلد فروری (کراچی عالمی مشاہرے کے موقع پر اور ایک تقریب دبئی میں بھی ہوئی) اور دوسری جلد ستمبر 2025 میں منظر عام پر آئی۔ لغت کی ابتدائی چھ جلدیں (ہینڈ کمپوزنگ) ٹائپ کی مدد سے شایع کی گئیں، جلد ۷ سے۱۷ کے ابتدائی دو سو پچاس صفحات تک کے حروف چینی مونو ٹائپ کمپیوٹر سسٹم پروگرام کے تحت کمپوزکیے گئے۔

جب کہ جلد ۱۷ کے بقیہ صفحات اور جلد ۱۸ تا ۲۲ کی اشاعت ان پیج پرکی گئی، اس صورتحال کی بدولت اردو لغت کے بائیس ہزار صفحات میں ابتدائی سترہ ہزار صفحات کوکمپیوٹرائز شکل دینا تھا جو الحمد للہ جدید اشاعت میں دی جا رہی ہے۔

دور حاضر میں اس عظیم الشان اردو لغت کی موبائل ایپلیکیشن صارفین کے لیے بلا معاوضہ دستیاب ہے اور اس کے لیے سرچ انجن بھی تیارکیا گیا ہے اور یہ تاریخی لغت اب ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے جس کی بدولت اردو دنیا جدید زبانوں کے شانہ بشانہ بحیثیت مجموعی پاکستان کی قومی زبان اقوام عالم میں اپنی نمایندگی کا فریضہ بھرپور انداز سے انجام دے رہی ہے۔

کاغذ سے مبرا تکنیک اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے جس کے سبب یہ عظیم لغت اب باآسانی اور بلامعاوضہ ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ کمپیوٹرائزیشن آف اردو ڈکشنری سافٹ ویئرڈیولپمنٹ فار موبائل فون، ویب ہوسٹنگ اینڈاسٹیبلشمنٹ آف سرور روم کی کامیاب تکمیل کے بعد اسی تسلسل میں ریکارڈنگ آف فرسٹ ڈیجیٹل اردو ساؤنڈ ڈکشنری، اردو ڈکشنری بورڈ کا ایک اور شاندار کارنامہ ہے جو درست تلفظ اور ادائیگی سے آگاہی فراہم کرتا ہے جس سے اردو کے مطلوبہ لفظ کا تلفظ موبائل ایپلیکیشن یا انٹرنیٹ پر سن کر درست ادا کرنے کی صارفین اہلیت حاصل کرسکتے ہیں۔

اس انتہائی اہم ’’ جدید اشاعت‘‘ کے منصوبے کا آغاز پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان نے کیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں ایچ ایم آر گروپ کے روح رواں ڈاکٹر حاجی محمد رفیق پردیسی کا دست تعاون قابل تحسین ہے جن کے ادارے برکاتی فاؤنڈیشن کی مالی اعانت کے باعث اس ’’جدید لغت ‘‘ کی اشاعت اور طباعت کے مراحل طے پاسکے اور انشاء اللہ آیندہ بھی بقیہ جلدوں کے لیے طے پاتے رہیں گے۔

اردو دنیا کے ان شاہکارکارناموں میں ایک نوجوان کا کردار یقینا قابل ذکر ہے جس نے اپنے ناتواں شریر پر جس مضبوطی سے اردو زبان کو تھاما ہوا ہے وہ صد لائق تحسین ہے اور وہ نوجوان کوئی اور نہیں، سنیئر ریسرچ اسکالر اردو لغت بورڈ کراچی محمد طارق بن آزاد صاحب ہیں۔

اس جدید اشاعت کے حوالے سے وہ کہتے ہیںکہ جہاں کہیں تشریح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک نام درج ہے، وہاں ان کے نام کے ساتھ ’’ص‘‘یا صلعم کی جگہ مکمل درود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا گیا ہے۔

معنی و تشریح کے اندراج میں جہاں کہیں الفاظ ملا کر درج تھے، ان کو جدید املا کے مطابق الگ الگ لکھا گیا ہے، البتہ اسناد کے متن میں اصل نسخے کی پیروی کی گئی ہے۔ اس جدید اشاعت میں تصحیح طلب مقامات پر درستگی بھی کی گئی ہے۔

معنی وتشریح کے اندراج میں املا کی یکسانیت کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، اس حوالے سے ایک صحت نامہ بھی مرتب کیا گیا ہے جو سابقہ اشاعت رکھنے والوں کے لیے معاون و مددگار ہوگا۔

متعلقہ مضامین