اسلام آباد:

دنیا میں آئی ٹی کے ذریعے آنے والے انقلاب کے آگے پرانی ایجادات صرف میوزیم اور نادر اشیا کے طور پر اپنی پہچان بنانے کیلئے رہ گئی ہیں، ان ہی میں سے ٹائپ رائٹر بھی ایک ماضی کی یاد بن گیا ہے۔

ٹائپ رائٹر کی ایجاد نے لکھنے کے کام میں انقلاب پیدا کردیا تھا، ہر دفتر اور چھوٹے بڑے اداروں میں ٹائپ رائٹر کا ہونا لازمی ہوتا تھا، اب تحریری کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ دستخط کر دیے جائیں، ٹائپ رائٹر کا موجد کرسٹوفر لیتھم شوس 1819 میں امریکا کی ایک ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہوا۔ چودہ برس کی عمر میں وہ ایک چھاپہ خانے میں کام کرنے لگا۔ تھوڑی ہی مدت میں اس نے طباعت میں کافی مہارت پیدا کر لی۔ اس کے بعد وہ ایک اخبار کا ایڈیٹر ہوگیا لیکن ساتھ ساتھ چھپائی کاکام بھی کرتا رہا۔

ایک دن اس کے ملازموں نے ہڑتال کر دی اس پر اسے بہت غصہ آیا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ ایک ایسی مشین بنائے گا جو چھپائی کا کام خود کیا کرے گی۔ شوس نے کئی کتابیں شائع کیں جن کے نمبر مہر سے چھاپے گئے تھے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک ایسی مشین بنانی شروع کی جس سے کتاب کے صفحوں پر نمبر ڈالنے کا کام آسان ہوجائے۔ اس مشین کی شکل وصورت آج کل کے ٹائپ رائٹروں سے ملتی جلتی ہے۔

ٹائپ رائٹر کی شکل پیانو جیسی تھی۔ شوس نے ایک سادہ سی مشین بنانی شروع کی۔ اس نے ایک شخص گلانڈن کو اپنا شریک کار بنالیا جو بہت محنتی اور ہوشیار کاریگر تھا۔ متواتر محنت اور کوشش کے بعد 1868ء میں انہوں نے سب سے پہلا ٹائپ رائٹر بنایا۔ ایسی محنت کے بعد انہیں جو کامیابی ہوئی اس سے خوش ہوکر انہوں نے ایک دن بہت سے خطوط دوستوں کے نام ٹائپ کر ڈالے۔

ٹائپ رائٹر کی چھپائی بھی صاف اور اچھی تھی تاہم ابھی بھی بہت سی خامیاں تھیں جنہیں آہستہ آہستہ رفع کیا گیا اور آخر ٹائپ رائٹر ہر لحاظ سے مکمل ہوگیا۔ اس کے موجدوں نے اس کی تیاری کے حقوق نیویارک کی ریمنگٹن کمپنی کو دے دیے اور ریمنگٹن کمپنی ٹائپ رائٹر بنانے لگی۔ اس وقت سے اب تک صد ہا قسم کے ٹائپ رائٹر بن گئے ہیں جن سے چھوٹے بڑے دونوں قسم کے حروف ٹائپ کیے جاسکتے ہیں۔

خطوط وغیرہ چھاپتے وقت الفاظ یا جملوں کے نیچے سرخ خط بھی کھینچا جاسکتا ہے۔ لمبائی کی طرف کا غذ کو کھینچنے کے لیے ایک پرزہ لگا ہوتا ہے کہ سطر ختم ہوگئی ہے۔ اب تو برقی آلات سے چلنے والے ٹائپ رائٹر بن گئے ہیں۔ بعض ایسے ٹائپ رائٹر ہیں کہ ان سے کھڑ کھڑ کی آواز بھی نہیں ہوتی۔ اندھوں کے لیے ابھرے ہوئے حروف کے ٹائپ رائٹر بن گئے ہیں۔

شروع شروع میں جب ٹائپ رائٹر بازار میں آئے تو ان کا ٹائپ نہایت بھدا تھا اور ان میں صرف دو یا تین انگلیوں سے کام لیا جاتا تھا لیکن آج کل کے ٹائپ رائٹروں کا ٹائپ بہت خوب صورت ہے اور ان پر دونوں ہاتھوں کی دسوں انگلیوں سے کام کیا جاتا ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم  محمد علی جناح جواہر لال نہرو اور دنیا کے  بڑے لیڈرز ٹائپ رائٹرز کا استعمال کرتے تھے، راولپنڈی کے قدیم ترین تجارتی مرکز بینک روڈ پر پرانے گھکھڑ پلازہ کے قریب 1949 سے 1952 تک ٹائپ رائٹرز کے فروخت کی ایجنسی تھی اور بعد ازاں عباداللہ خان نے اس ایجنسی کو چھوڑ کر المقسوم کے نام سے 1952 میں ایک ادارہ بنالیا، عباد اللہ خان کے انتقال کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے طاہر غزنوی نے ٹائپ رائٹرز کو فروخت اور ان کو میکینکل طور پر درست کرنے کا فیصلہ کیا۔

طاہر غزنوی کے پاس  ٹائپ رائٹرز کی کلیکشن ہے اور یہاں ٹائپ رائٹر کی آواز کبھی نہیں تھمتی۔ لال، ہرا، پیلا، نارنجی، سفید، کالا، نیلا، بھورا، سرمئی غرض ان کی کلیکشن میں آپ کو ہر رنگ اور شکل و صورت کا ٹائپ رائٹر ملے گا۔

طاہر غزنوی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے  ہوئے کہا کہ ہمارے آبا و اجداد کا تعلق جالندھر سے تھا، پاکستان بننے کے بعد ہم راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد میں منتقل ہوگئے، میں نے ابتدائی تعلیم  کینٹ پبلک اسکول اور سرسید کالج سے حاصل کی، اسکول  کے بعد اپنی والد کے ساتھ کام کرتا تھا، وہ لکڑی اور دھات سے بنے 1878ء ماڈل کے ’ریمنگٹن 7‘ کو پرانے ٹائپ رائٹرز میں سب سے قیمتی ٹائپ رائٹر کے طور پر شمار کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹائپ رائٹر بن کے ٹائپ رائٹر ٹائپ رائٹرز ا ٹائپ نے ایک کے بعد

پڑھیں:

70 دن تنہا جنگل میں گزارنے والا چینی شہری، انعام میں ایک لاکھ یوان جیت گیا

چین کے صوبے ہونان میں ہونے والے ایک انوکھے “جنگل سروائیول چیلنج میں حصہ لینے والے نوجوان ’’یینگ ڈونگ ڈونگ‘‘ نے سب کو حیران کر دیا، جب اُس نے تنہا جنگل میں70 دن مسلسل زندہ رہ کر یہ مقابلہ جیت لیا۔
تقریباً 100 شرکاء پر مشتمل اس چیلنج میں سب کو ایک دور دراز، غیر آباد جنگلی علاقے میں چھوڑا گیا۔ ان کے پاس صرف ایک چاقو اور بانس کا ڈنڈا تھا — کوئی خوراک، خیمہ یا سہولت نہیں دی گئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ مقابلہ سخت تر ہوتا گیا۔ ایک ایک کرکے شرکاء ہمت ہارتے گئے اور باہر ہوتے گئے۔ لیکن یینگ ڈونگ ڈونگ نہ صرف ڈٹا رہا بلکہ اپنی ذہانت اور حکمتِ عملی سے خود کو ثابت کیا۔ اس نے جانوروں کے جال بنائے، جنگل سے خوراک حاصل کی اور زندہ رہنے کے نت نئے طریقے آزمائے۔
اس شاندار کارکردگی پر اُسے ایک لاکھ یوان (تقریباً 40 لاکھ پاکستانی روپے) انعام میں دیے گئے۔ یینگ کی یہ کامیابی چین میں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی، جہاں لوگ اس کی ہمت اور حوصلے کو داد دے رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خاموش انقلاب کا انعام
  • افغان جارحیت کو ناکام بنانے کے بعد پاک فوج کے جوان کا لہو گرما دینے والا پیغام
  • پی ٹی آئی کیلئے نئی مشکل، اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار لانے کا اعلان
  • اپوزیشن کا وزارت اعلیٰ کیلئے مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ
  • 70 دن تنہا جنگل میں گزارنے والا چینی شہری، انعام میں ایک لاکھ یوان جیت گیا
  • ٹرمپ منصوبہ کامیاب، پاکستان کو کیا اہم ٹاسک ملنے والا ہے؟
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا آپشن نا قابل عمل قرار
  • لاہور انڈر ورلڈ کا ڈان طیفی بٹ کون تھا؟
  • پی ٹی آئی کا علی امین گنڈا پور کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور