ترکیہ اور آذربائیجان کے پارلیمانی وفود کا نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
ترکیہ اور آذربائیجان کے اعلیٰ سطح کے پارلیمانی وفود نے این ڈی ایم اے کے نیشنل ایمر جنسیز آپریشن سینٹر کا دورہ جہاں چیئرمین این ڈی ایم اے نے مون سون کے دوران کامیاب آپریشنز، قبل ازوقت انتباہی نظام اور 30لاکھ سے زائد افراد کے بروقت انخلا پربریفنگ دی۔
ترکیہ اور آذربائیجان کی پارلیمان کے اسپیکرز کی قیادت میں مشترکہ وفد نے این ڈی ایم اے کے نیشنل ایمرجنسیز آپریشنز سینٹر کا دورہ کیا۔ ترکیہ کے گرینڈ نیشنل اسمبلی کے اسپیکر پروفیسر ڈاکٹر نعمان کرتلمش اور آذربائیجان کی ملی مجلس کی اسپیکر صاحبا غفوروا نے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔
اس موقع پر پاکستان کے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق وفود کے ہمراہ موجود تھے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے وفد کو پاکستان کے فعال ڈیزاسٹر مینجمنٹ فریم ورک پر بریفنگ دی اور ادارے کے مرکزی کردار، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور بروقت پیشگی انتباہی نظام کے حوالے سے اراکین کو آگاہ کیا۔
وفد کو این ڈی ایم اے کی علاقائی تعاون بڑھانے کی کوششوں، معلوماتی تبادلوں، تربیتی ورکشاپس اور بین الاقوامی مشقوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے مو ن سون 2025 کے دوران کامیاب آپریشنز، قبل از وقت انتباہی نظام اور 30 لاکھ سے زائد افراد کے بروقت انخلا پر بریفنگ دی۔
ترکیہ اور آذربائیجان کے وفود نے این ڈی ایم اے کے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور قومی استعداد بڑھانے کے عزم کو سراہا۔
دونوں ممالک نے پاکستان کے ساتھ ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن، صلاحیت میں اضافہ اور باہمی تعاون کے فروغ کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ترکیہ اور ا ذربائیجان ڈی ایم اے
پڑھیں:
نیشنل ایکشن پلان پر عمل سے ہی دہشت گردی پر قابو ممکن ہے، طارق سمیر
سینئر صحافی طارق سمیر نے ایک نجی ٹی وی چینل (ایم ٹی وی) کو دیے گئے انٹرویو میں ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سرحدی خطرات اور اندرونی سیکیورٹی کے چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر مکمل اور سنجیدہ عملدرآمد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب اس پلان پر سنجیدگی سے کام ہوا تو دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی، مگر سیاسی عدم استحکام، حکومتی تبدیلیوں اور پالیسی کے تسلسل کی کمی نے اس عمل کو متاثر کیا۔
طارق سمیر نے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد خطے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا۔چھوڑا گیا جدید اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر فوجی ساز و سامان غیر ریاستی عناصر کے قبضے میں چلا گیا، جسے اب پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردافغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں گھس کر کارروائیاں کر رہے ہیں، اور پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے یہ ایک مسلسل اور سنجیدہ خطرہ ہے۔
انٹرویو کے دوران طارق سمیر نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت اوربھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط پاکستان کی سلامتی کے لیےسفارتی اور سیکیورٹی سطح پر بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے کے لیے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر سکتا ہے۔
حل کیا ہے؟
طارق سمیر نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کوچند بنیادی اقدامات فوری طور پر اٹھانے کا مشورہ دیا:
1۔نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد
2۔انٹیلی جنس شیئرنگ کو مؤثر بنانا
3۔سرحدی نگرانی کو مضبوط کرنا
4۔افغان حکومت سے دوٹوک سفارتی بات چیت
5۔عوام کو دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے میں شامل کرنا
ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاستی ادارے، سیاسی قیادت اور عوام متحد ہو کر ان نکات پر عمل کریں تو دہشت گردوں کو شکست دینا ممکن ہے۔ بصورت دیگر، صرف مذمتی بیانات اور وقتی ردعمل سے بات نہیں بنے گی۔