اسلام آباد عالمی معیار کے لحاظ سے محفوظ شہر قرار
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد میں کرائم کی شرح گزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔اسلام آباد عالمی معیار کے لحاظ سے محفوظ شہر قراردیا گیاہے۔اسلام آباد میں کرائم انڈیکس 31شاریہ 37 فیصد ہے۔اسلام آباد کاسیفٹی انڈیکس 68 اعشاریہ 63 فیصد
ہے۔سیفٹی انڈیکس کے مطابق شہریوں کو دن کے وقت اکیلے چلنے میں 81 فیصد تک اطمینان حاصل ہے۔رپورٹ آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی اور ان کی ٹیم کی دن رات کوششوں کا نتیجہ ہے۔رپورٹ نمبیو کی جانب سے ہے، جو دنیا بھر کے شہروں میں جرائم اور تحفظ (Crime & Safety Index) کو ناپتی ہے۔جرائم کی مجموعی سطح گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے کم ہے منفی (29%) یعنی عالمی معیار کے لحاظ سے اسلام آباد ایک نسبتاً محفوظ شہر ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد
پڑھیں:
پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ
مجموعی ملکی پیداوار جو 30 ستمبر کو پچھلے سال کے مقابلے میں 49 فیصد زائد تھی، وہ اب کم ہو کر 22 فیصد زائد رہ گئی ہے اور اسی طرح پنجاب میں کپاس کی پیداوار جو پچھلی رپورٹ میں 56 فیصد زائد تھی، جو اب 28 فیصد زائد ہے، جبکہ سندھ کی پیداوار 45 فیصد زائد سے کم ہو کر اب صرف 19 فیصد زائد رہ گئی۔ اسلام ٹائمز۔ کپاس کی مجموعی پیداوار میں اگرچہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن یکم سے 15 اکتوبر کے دوران پیداوار 30 فیصد گھٹنے سے آنے والے دنوں میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کے خدشات پیدا ہوگئے، جس سے روئی، کاٹن سیڈ اور آئل کیک کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں کپاس کی پیداوار کے بارے میں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن اور کراپ رپورٹنگ سروسز پنجاب کے اعدادو شمار میں 100فیصد کے لگ بھگ فرق بدستور قائم ہے۔ چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پی سی جی اے کی جانب سے کپاس کی مجموعی پیداوار سے متعلق جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 15 اکتوبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 22 فیصد کے اضافے سے مجموعی طور پر 37 لاکھ 96 ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے، تاہم یکم سے 15 اکتوبر کے دوران 7 لاکھ 51 ہزار گانٹھوں جننگ فیکٹریوں میں ترسیل ہوئی ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ زیر تبصرہ مدت کے دوران پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 15 لاکھ 20 ہزار گانٹھیں جبکہ سندھ میں 22 لاکھ 76 ہزار گانٹھیں پہنچی ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بالترتیب 28 اور 19 فیصد زائد ہیں۔ پی سی جی اے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ عرصے میں ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 30 لاکھ 40 ہزار روئی کی گانٹھوں کی خریداری کی ہے، جبکہ برآمد کنندگان نے اس عرصے کے دوران ایک لاکھ 25 ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے، ملک میں فی الوقت 520 جننگ فیکٹریاں فعال ہیں۔ احسان الحق نے بتایا کہ اس سال پنجاب میں اگیتی کپاس کی زیادہ کاشت اور درجہ حرارت میں غیر متوقع اضافے سے کپاس کی چنائی قبل از وقت شروع ہونے سے ظاہری طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ اس سال پاکستان میں کپاس کی مجموعی قومی پیداوار گذشتہ سال کی بہ نسبت زیادہ ہوگی، لیکن متعدد ماہرین نے اکتوبر میں آنے والی پیداواری اعدادوشمار کی رپورٹس میں کپاس کی پیداوار گھٹنے کی پیشگوئی کی تھی۔
اس پیشگوئی کے درست ہونے کا تجزیہ پی سی جی اے کی تازہ ترین رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یکم سے 15 اکتوبر کے دوران کپاس کی مجموعی پیداوار پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے، جبکہ مجموعی ملکی پیداوار جو 30 ستمبر کو پچھلے سال کے مقابلے میں 49 فیصد زائد تھی، وہ اب کم ہو کر 22 فیصد زائد رہ گئی ہے اور اسی طرح پنجاب میں کپاس کی پیداوار جو پچھلی رپورٹ میں 56 فیصد زائد تھی، جو اب 28 فیصد زائد ہے، جبکہ سندھ کی پیداوار 45 فیصد زائد سے کم ہو کر اب صرف 19 فیصد زائد رہ گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ ایک ماہ بعد آنے والی پیداواری رپورٹ میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ رپورٹ میں کپاس کی پیداوار توقعات سے کم ہونے کے باعث کاٹن سیڈ اور آئل کیک کی قیمتوں میں 100 تا 200 روپے فی من تک کے اضافے کے باعث ان کی قیمتیں اب بالترتیب 3 ہزار 600 اور 3 ہزار 100 روپے فی من کی سطح تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ پیر سے شروع ہونے والے نئے ہفتے سے روئی کی قیمتوں میں بھی تیزی کا رجحان سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق 15 اکتوبر تک پنجاب میں کپاس کی 15 لاکھ 20 ہزار گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے، جبکہ سی آر ایس کی رپورٹ کے مطابق یہ پیداوار 30 لاکھ 81 ہزار گانٹھ ہے، جو پی سی جی اے کی رپورٹ کے مقابلے میں 100 فیصد سے بھی زائد ہے، جس سے کاٹن اسٹیک ہولڈرز میں اپنی حکمت عملی کی بنیاد کے تعین میں مشکلات پیش آ رہی ہے۔