حمیداللہ بھٹی
امن معاہدے پر دستخط کی تقریب کے چند گھنٹوں بعدہی اسرائیلی حملوں کے تسلسل کی بحالی سے یہ تو واضح ہوگیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں مکمل امن کے لیے انصاف ناگزیر ہے۔ جہاں تک ٹرمپ منصوبے کی بات ہے اُس میں جتنی توجہ اسرائیل کو محفوظ اور مستحکم بنانے پر دی گئی ہے اُتنی انصاف پر نہیں دی گئی۔ اسی بناپر معاہدہ ٹھونسنے کاتاثرہے ۔ایک فریق حماس کو مجبور کیا گیا ہے کہ معاہدہ قبول کرویاپھر سزابھگتنے کے لیے تیار ہوجائو ۔یہ رویہ فریقین کی طرف سے امن معاہدہ قبول کرنے کے باوجود ناکامی کے خدشات میں اضافہ کرتاہے ۔دستخط کی تقریب کے فوری بعد حملوں میں شہریوں کو مارنے کاکوئی جوازنہیں تھا ۔ایسے واقعات معاہدے کی ناکامی کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں جس کا حل یہی ہے کہ طاقت کے بے محابا اظہارپر قدغن لگائی جائے ۔مگر صدرٹرمپ نے صرف اسرائیلی دفاع اور مفاد و استحکام کو ترجیح دی ہے۔ امدادی اشیا کی فراہمی میںحائل رکاوٹوں کوبرقراررکھنا اسرائیلی سرشت کوبے نقاب کرتا ہے جس کے پیش نظر امن معاہدے کی پاسداری بعیدازقیاس معلوم ہوتی ہے ۔
دنیا میں امن کے حوالے سے صدرٹرمپ نے جزوی حد تک کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن وہ انصاف نہیں کر سکے کسی مسلمان ملک کو نقصان ہورہاہوتو غیرجانبداری اختیار کرتے ہیں جس سے لگتاہے ہے کہ اُن کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ اُمتِ مسلمہ کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے روس اور یوکرین جنگ بندی ہونی چاہیے کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر کسی کوکسی کی آذادی و خودمختارپامال کرنے کاکوئی حق نہیں مگرسوال یہ ہے کہ روس ویوکرین جنگ کی طرح کی بے چینی کسی اور جنگ کے بارے میں کیوں نہیں دکھائی جاتی؟ افسوس کہ جب کسی مسلمان ملک کو جنگ وجارحیت کا نشانہ بنایا جارہاہو تو امریکہ امن کے قیام میں دانستہ تاخیر کر تا ہے۔ یمن اور ایران کی طرف سے اسرائیل کو میزائلوں سے نشانہ بنانے کے دوران امریکہ کا کردارثالث کانہیں جانبدارانہ رہا ہے نہ صرف یمن پر امریکہ نے حملے کیے بلکہ اسرائیل کو محفوظ رکھنے کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کی تباہی میں بھی حصہ لیا غزہ جنگ بندی سے اقوامِ متحدہ اِس بناپر کچھ کرنے سے قاصر رہی کہ ہرقرارداد کو امریکہ ویٹو سے بے اثر کرتا رہااسی وجہ سے کوئی نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کی بجائے اقوامِ متحدہ بے بس اور تماشائی برہی غزہ میں دوبرس تک نسل کشی کا گھنائونا کھیل کھیلا گیاناکہ بندی سے شہریوں کو بھوک و پیاس سے مارا گیالیکن صدر ٹرمپ خاموش رہے اب جبکہ اُن کا امن معاہدے قبول کیا جا چکا ہے اِس کے باوجود اسرائیلی حملوں پرامریکی خاموشی معنی خیز ہے یہ طرزِ عمل چہیتاہونے کااِشارہ اور ٹرمپ کی امن میں دلچسپی کے دعوئوں کو مشکوک بناتا ہے۔
ایک پُرامن اور تنازعات سے پاک دنیا انسانی بقاوخوشحالی کے لیے ناگزیر ہے اِس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں امن اورانصاف میں دلچسپی لیں مگر عملی طورپر ایسا نہیں ہو رہا اسی بناپردنیا ایک بار پھر کثیر قطبی نظام کی طرف جارہی لگی ہے جس سے تین عشروں سے قائم واحد عالمی طاقت کے تاثر کو دھچکا لگا ہے دراصل زیادہ ترجنگوں میں یاتو امریکی جانبداری عیاں ہوئی یاپھر امریکہ نے ایک فریق کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی لیکن چین عدم جارحیت پر عمل پیرا رہاجس سے امریکی معیشت زوال اور چینی رسوخ و معیشت کوفروغ ملا حالات کاتقاضاتو یہ تھاکہ امریکہ انصاف سے کالیتااور تنازعات حل کرنے میں غیر جانبداری اختیار کرتا مگر ایسا نہیں ہو سکابلکہ تنازعات بڑھانے میں دلچسپی لی گئی اور اپنے مفاد کے حصول کے لیے فریق بن کر کام کیا گیاجس سے اسلحے کی دوڑ شروع ہوئی اور مزید ممالک جوہری حصول کی تگ ودو کرنے لگے مشرقِ وسطیٰ کے اکثر مسائل امریکہ کے پیداکردہ ہیں حالانکہ اِس خطے میں اُسے غلبہ حاصل ہے لیکن عراق،شام ، فلسطین، لبنان پراسرائیل مسلسل حملے کررہا ہے مصر اور اُردن سے لڑائی میں کئی علاقے ہتھیا چکا ہے اب حال ہی میں قطرپرا سرائیلی حملے سے اِس تاثر کو تقویت ملی کہ امریکہ کی توجہ مسائل حل کرنے سے زیادہ خوف کی فضا بنانے پر ہے ظاہر ہے خوف کی فضا میں پائیدارامن کی منزل حاصل نہیں ہو تی مگر لگتا ہے امریکہ کو اِس کا ادراک نہیں اسی بناپر ایواین کو غیر موثر اور تنازعات کاحل اپنی پسند کے مطابق کرنے کی روش پر گامزن ہے جس سے دنیا مزید غیر محفوظ ہورہی ہے امن منصوبے سے غزہ کو امن تو شاید نصیب نہ ہو مگر امریکہ کو عرب ممالک نے خطے میںمداخلت کا حق ضروردیدیا ہے ۔
غزہ میں دوبرس کے دوران اسرائیل نے فضائی اور زمینی حملوں کے دورا ن ستر ہزار مائیں ،بچے ،بوڑھے اور جوان موت کے منہ میں دھکیل دیے عمارات تباہ کردیں لاکھوں افراد لاپتہ ہیں لیکن امریکہ اور چند مغربی ممالک کاموقف ہے کہ ایسی وحشیانہ کاروائیاںسرائیل کا دفاعی حق ہیں مزید ناانصافی یہ کہ امن منصوبہ قبول کرنے پر سفاک نیتن یاہو کی تحسین کی جارہی ہے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے اسرائیل کو ضرورت کے تمام ہتھیار دیے جنھیں اُس نے کمال مہارت سے استعمال کیا یہ سوچ یا رویہ امن و انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے انصاف تو یہ تھا کہ غزہ میں نسل کشی کا اسرائیل کو زمہ دار ٹھہرایاجاتالیکن یہاں اسرائیل کاتحفظ یقینی بنایا گیابدترین ناانصافی کے باوجود نہ صرف امریکہ اور سرائیل مزید عالمی تنہائی سے بچ گئے ہیں بلکہ امن منصوبہ تسلیم کرانے کی وجہ سے دنیا سے دادحاصل کرنے کے ساتھ سیاسی ،دفاعی اور سفارتی برتری بھی منوالی ہے جس سے مستقبل کی صف بندی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
بڑے اسلامی ممالک کو ساتھ بٹھا کر ٹرمپ نے ناانصافی کرنے کے باوجود جو کامیابی حاصل کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ کا ایک طاقتور فریق بن گیاہے جس کی وجہ سے اُسے طویل عرصے کے لیے خطے سے نکالنا مشکل ہو گیا ہے نیز ایک بار پھر ساراخطہ دفاعی حوالے سے امریکہ پر انحصار کرے گاحماس یا کسی اور آزادی پسند تحریک کاکردارختم یاکم ترہوگا کیونکہ جب امدادی اشیا پر اسرائیلی کنٹرول رہے گا توہتھیاروں وغیرہ کی فراہمی بلکل ہی ناممکن ہو جائے گی علاوہ ازیں امن منصوبہ کی آڑ میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کامنصوبہ آسانی سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جا سکے گا ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کراکر چین نے ثالثی سے عربوں میں جو مقتدرحیثیت حاصل کر لی تھی اُسے غزہ امن معاہدے نے غیر موثر کر دیا ہے اب روس ہو یا چین یا کوئی اور طاقتور ملک، اُس کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی سرزمین ایک طویل عرصہ ناہمواررہے گی یہی امن معاہدے کااہم ثمر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اسرائیل کو امن معاہدے کے باوجود کے لیے
پڑھیں:
غزہ کی شکار گاہ میں جنگ بندی کا ڈھکوسلا
سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے چوبیس اکتوبر پچیس تک مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج اور مسلح یہودی آبادکار ڈھائی سو بچوں سمیت گیارہ سو فلسطینی قتل اور گیارہ ہزار کو زخمی کر چکے ہیں۔جب کہ اس عرصے میں مغربی کنارے پر اکیس ہزار سے زائد گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
ہیروشیما شہر کے نصف رقبے کے برابر مشتمل غزہ پر پانچ سے چھ ہیروشیما سائز جوہری بموں کی طاقت کے برابردو بار برسایا جا چکا ہے۔غزہ اس وقت کم ازکم پانچ کروڑ ٹن سے زائد ملبے کا ڈھیر ہے۔ستر ہزار ہلاکتیں تو باضابطہ گنی جا چکی ہیں مگر لگ بھگ دس ہزار لاپتہ لاشیں ملبے تلے دبی پڑی ہیں اور انھیں نکالنے کے لیے جو بھاری مشینری درکار ہے اس کی درآمد پر اسرائیل نے پابندی لگا رکھی ہے۔
جو غیر ملکی ڈاکٹر غزہ یا مغربی کنارے پر زخمیوں کے علاج اور سرجری کے لیے آنا چاہتے ہیں انھیں اسرائیل ویزہ دینے سے انکاری ہے۔ دس اکتوبر کی جنگ بندی سے اب تک اسرائیل چھ سو بار سے زائد اس کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔اس جنگ بندی کے بعد سے اب تک لگ بھگ چار سو مزید فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے اوپر زخمی ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی سمجھوتے کے تحت روزانہ چھ سو ٹرکوں کو رسد لانے کی اجازت دی جانی تھی مگر اوسطاً ڈیڑھ سو ٹرکوں کو ہی غزہ کے اندر آنے دیا جا رہا ہے۔قحط زدگان کے لیے کھانے پینے کی اشیا کے نام پر گوشت ، ڈیری مصنوعات یا سبزی کے بجائے صرف وہ ڈبہ بند اشیا لانے کی اجازت ہے جن میں بہت کم غذائیت پائی جاتی ہے۔جب کہ ادویات ، خیموں ، گرم کپڑوں اور تعمیراتی میٹریل لانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔
امدادی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ اس وقت خوراک کی جو مقدار لانے کی اجازت ہے وہ ایک چوتھائی سے بھی کم آبادی کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزیں ( انرا ) کے سرحد پار گوداموں میں اتنی خوراک پڑی ہے جو غزہ کی پوری آبادی کی تین ماہ کی ضروریات پوری کر سکتی ہے مگر انرا کو اسرائیل نے دھشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔حالانکہ علامی عدالتِ انصاف نے اکتوبر میں جنگ بندی کے بعد یہ رولنگ دے رکھی ہے کہ اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی امدادی ایجنسی بشمول انرا کا غزہ میں داخلہ نہیں روک سکتا۔عدالت نے اسرائیل کی یہ دلیل مسترد کر دی کہ انرا غیر جانبدار ادارہ نہیں ۔عدالت کا کہنا ہے کہ انرا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ امدادی ادارہ ہے۔
اگرچہ سترہ نومبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بیس نکاتی ٹرمپ غزہ امن منصوبے کی منظوری دے دی ہے مگر دو ہفتے گذرنے کے باوجود اس منصوبے کے تحت ٹرمپ کی صدارت میں جو امن بورڈ اور غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے جو بین الاقوامی عبوری انتظامیہ قائم ہونی تھی اس کا دور دور تک اتا پتہ نہیں۔یہ انتظام بھی اسرائیل کی رضامندی سے تشکیل پانا تھا تاکہ فلسطینیوں پر براہِ راست قبضے کو اسرائیلی حمائیت یافتہ بین الاقوامی قبضے کا روپ دیا جا سکے۔اس عرصے میں اگر کوئی شرپسندی مسلسل ہے تو وہ لگاتار اسرائیلی حملے ہیں جن کی مذمت امریکا سمیت کسی ایک ملک نے بھی کھل کے نہیں کی جو ٹرمپ امن پلان کے ضامن ہیں۔البتہ روائیتی افسوس اور رسمی تشویش کے مشینی بیانات جاری ہیں۔
ایسے غیر یقینی حالات میں بین الاقوامی فورس کی تشکیل بھی مخدوش ہے جسے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کی ذمے داریاں سنبھالنی ہیں۔اسرائیل کی شعوری کوشش ہے کہ امن فوج کی تشکیل کی نوبت ہی نہ آئے تاکہ نسل کشی کے لیے ہاتھ کھلا رہے۔ویسے بھی ٹرمپ پلان میں نسل کشی کی روک تھام کا کوئی نکتہ شامل نہیں ۔
نام نہاد جنگ بندی سے بس اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے اگر روزانہ سو عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور جوان شہید ہو رہے تھے اب ان کی تعداد کم ہو گئی ہے مگر غذائی اور انسانی امداد کی ترسیل پر مسلسل پابندی کے سبب نسل کشی کا عمل متبادل طریقوں سے جوں کا توں جاری ہے۔
اس نام نہاد جنگ بندی کا اسرائیل اور اس کی اتحادی حکومتوں کو سب سے بڑا فائدہ پبلک ریلیشننگ کے میدان میں ہوا ہے۔جنگ بندی کے تاثر کے سبب بڑے بڑے مذمتی مظاہرے نہیں ہو رہے۔جن حکومتوں نے علامتی طور پر اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا دعوی کیا تھا اب جرمنی سمیت ان ممالک نے حالات کو نارمل فرض کر کے کاغذی پابندیاں بھی ہٹا لی ہیں۔یعنی جنگ بندی نے اسرائیل کی نسل کش پالیسی کو ایک اضافی سیاسی و سفارتی نقاب فراہم کر دیا ہے جسے وہ ہر روز نوچ کر پھینکنے اور پہننے کے لیے پہلے سے زیادہ آزاد ہے۔
اسرائیل کا اس وقت غزہ کے تریپن فیصد علاقے پر مکمل فوجی قبضہ ہے۔نہ ہی ٹرمپ پلان پر پوری طرح عمل درآمد ہو گا اور نہ ہی اسرائیل سے مطالبہ ہو گا کہ وہ منصوبے کے اگلے مرحلے میں اپنی فوجیں مزید پیچھے ہٹائے۔
اسرائیل نے اپنے قبضے کی حدبندی کے لیے ایک خیالی زرد لائن بنا رکھی ہے۔چونکہ یہ خیالی ہے اس لیے روزانہ آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے۔اس کی کوئی واضح حدبندی جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔
غزہ کے کسی باشندے کو اس تصوراتی زرد لائن کا معلوم نہیں چنانچہ وہ لاعلمی میں اسرائیلی فوج کا مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔امریکا سمیت کسی بھی اتحادی نے جنگ بندی کے بعد سے آج تک اسرائیل سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اس نام نہاد خطِ زرد پر واضح نشانیاں لگائے تاکہ فلسطینی اسے عبور کرنے میں احتیاط برتیں۔
اسرائیل ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس سے روزانہ کے شکار میں کمی آ سکتی ہے۔حتمی مقصد یہ ہے کہ یا تو تنگ آ کے فلسطینی بچا کھچا علاقہ بھی خالی کر دیں یا پھر انھیں لاشوں میں تبدیل کر کے یہ علاقہ خالی کروا لیا جائے۔جنگ یا جنگ بندی۔دونوں صورتوں میں اسرائیل کا بنیادی ہدف جوں کا توں ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)