افغانستان کا پاکستان مخالف کردار
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
اقوام محتدہ کی وقتاً فوقتاً شایع ہونے والی رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کی پناہ گاہیں موجود ہیں، انھیں افغانستان کی طالبان حکومت مکمل طور پر تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے اور وہاں موجود دہشت گرد گروہوں کی قیادت آزادانہ نقل وحرکت بھی کر رہی ہے اور انھیں کاروبار کرنے کی بھی مکمل آزادی ہے۔
دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ بھی ہو رہی ہے اور انھیں اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے متعدد بار افغانستان کی طالبان حکومت کو رپورٹ بھی کیا ہے اور احتجاج بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ دہشت گردوں کی پاکستان میں کارروائیوں میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔
آخرکار پاکستان کو مجبور ہو کر دہشت گردوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان کی کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی دوران افغانستان نے عارضی جنگ بندی کی درخواست کی جس پر عارضی جنگ بندی میں دوحہ میں مذاکرات تک توسیع کردی گئی ہے۔
دوحہ میں جو بھی فیصلہ ہو لیکن یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اب پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی مزید برداشت نہیں کرے گا۔ پاک فوج کے سربراہ نے بھی افغانستان کو واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کو لگام دے۔
افغانستان میں جب سے طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی ڈھلمل افغان پالیسی کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع ملا، سابقہ حکومت کے دور میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان میں لا کر بسایا گیا اور انھیں باقاعدہ طور پر مالی امداد بھی دی گئی۔
اس کا خمیازہ آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ جنھیں ٹی ٹی پی کے لوگ کہہ کر پاکستانی قرار دیا جاتا ہے، کیا وہ واقعی میں پاکستان کے شہری ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے باقاعدہ طور پر تحقیقات ہونا چاہیے۔
پاکستان کی ماضی کی افغان پالیسی کی وجہ سے افغان باشندوں کو جو ڈھیل ملی ہے اس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افغانستان کے شہریوں نے پاکستان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بنوائے ہیں۔
سابقہ فاٹا کی صورت حال تو ایسی تھی کہ وہاں کسی قسم کی کوئی پابندی ہی نہیں تھی۔ اس لیے یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ جن دہشت گردوں نے اپنی تنظیم کا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا ہے، کیا وہ واقعی پاکستان کے شہری ہیں؟ اصولی طور پر تو انھیں پاکستان کا نام استعمال کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، ان کا جرم اس قدر سنگین ہے کہ اگر وہ بفرض محال پاکستانی ہیں بھی تو ان کی نیشنیلٹی ختم کر دینی چاہیے یا وہ واقعی ختم بھی ہو چکی ہے۔
اس لیے یہ سب لوگ پاکستان کے لیے غیرملکی دہشت گرد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ اسی اصول کے تحت نمٹا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ سارے لوگ افغانستان پر قابض افغان طالبان کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سچ تو یہی ہے کہ یہ لوگ افغانستان کے شہری کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ کیونکہ جو لوگ اپنے ہی شہریوں کو غلام بنا کر رکھے ہوئے ہیں، وہ لوگوں پر اپنا قانون چلا رہے ہیں لیکن خود کسی بھی قانون کے دائرے میں نہیں ہیں۔ انھیں افغانستان کا حقیقی اور اصلی شہری کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
پاکستان کی حکومت نے غیرقانونی افغان مہاجرین کو فوری طور پر واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے انھیں کوئی مہلت نہیں دی جائے گی، کہا گیا ہے کہ صرف وہی افغان باشندے پاکستان میں رہ سکیں گے جن کے پاس درست ویزا ہوگا۔
میڈیا کے مطابق وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیرصدارت گزشتہ روز افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزرا، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے نمایندے مزمل اسلم شریک ہوئے۔
اجلاس میںوفاقی و صوبائی حکومتوں اور اداروں کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے تمام صوبائی حکومتوں، وفاقی و صوبائی اداروں کو پاکستان میں غیرقانونی طور پر موجود افغان باشندوں کی جلد از جلد وطن واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملے اور افغانوں کا ان حملوں میں ملوث ہونا تشویشناک ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پیاروں کی قربانیاں دینے والے پاکستان کے بہادر عوام ہم سے سوال کرتے ہیں کہ حکومت کب تک افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے گی، افغانستان کے حملوں کو پسپا کرنے پر پوری قوم افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، ہماری بہادر افواج مادر وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہائیوں سے مشکلات میں گھرے افغانستان کی پاکستان نے ہر مشکل وقت میں مدد کی، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔
وزیراعظم نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں اور پاکستان میں مقیم افغانوں کے ان حملوں میں ملوث ہونے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار متعدد بار افغانستان کے دورے پر گئے اور افغان نگران حکومت کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے کے حوالے سے مذاکرات کیے، پاکستان نے افغانستان سے پاکستان میں خوارج کی در اندازی کو روکنے کی سفارتی و سیاسی اقدامات کے ذریعہ بھرپور کوشش کی۔
اجلاس کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی مرحلہ وار وطن واپسی شروع کی گئی، 16اکتوبر 2025 تک 14 لاکھ 77 ہزار 592 افغانوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ افغانستان کی جانب ایگزٹ پوائنٹس کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ افغانوں کی وطن واپسی سہل اور تیزی سے ممکن ہو سکے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر موجود افغان باشندوں کو پناہ دینا اور انھیں گیسٹ ہاؤسز میں قیام کی اجازت دینا قانونا جرم ہے، ایسے افغان باشندوں کی نشاندہی کی جارہی ہے، پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے عمل میں عوام کو شراکت دار بنایا جائے گا اور کسی کو بھی افغانوں کو حکومت کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پناہ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اجلاس کے اختتام پر فورم نے فیصلہ کیا کہ اجلاس میں پیش کردہ تمام سفارشات پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے صوبوں کو مکمل تعاون کی درخواست کی۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی باتیں برسوں سے جاری ہیں لیکن اس مسئلے کو آج تک مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا۔
پاکستان میں قانونی اور غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی تعداد کے بارے میں گاہے بگاہے تخمینے آتے رہتے ہیں۔ ان تخمینوں کے مطابق ایسے افغان باشندوں کی تعداد تیس سے چالیس لاکھ کے قریب ہے۔
ایسے میں اگر ستر اسی ہزار کو واپس بھیجا گیا ہے تو یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے۔ پھر یہ بھی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں یا اگر موجود ہیں تو انھیں ظاہر نہیں کیا جا رہا کہ جن افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا ہے، ان میں سے کتنے واپس آئے ہیں۔
اس لیے افغانستان کے باشندوں کو واپس بھیجنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے افسران اور ملازمین ان قوانین پر عمل کرنے میں سست روی یا کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے سخت سزاؤں اور جرمانوں کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کوئی صوبائی حکومت اس انتہائی اہم، نازک اور حساس معاملے پر دوعملی کا مظاہرہ کرتی ہے یا مزاحمت کرتی ہے تو اس حوالے سے بھی قومی اور صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کر کے وفاق کو یہ معاملہ براہ راست اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے صوبوں میں افغان مہاجرین کی واپسی کا ٹارگٹ وفاقی اداروں کے سپرد کر دیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان پناہ گزینوں کی افغان باشندوں کی کی وطن واپسی کے افغان مہاجرین افغانستان میں افغانستان کے افغانستان کی پاکستان میں اس حوالے سے کے حوالے سے پاکستان نے مقیم افغان باشندوں کو پاکستان کی پاکستان کے اور انھیں کی وجہ سے کی تعداد کے شہری کے خلاف کو واپس کیا جا ہے اور اور ان گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
انتہاپسندی اور پاکستان
پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گزشتہ روز انتہائی اہم پریس کانفرنس کی ہے، اس پریس کانفرنس میں ملک کو درپیش کثیرالجہتی چیلنجز کے بارے میں بھی کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور ملک میں جاری سیاسی بحث ومباحث اور بیانات کے حوالے سے بھی دوٹوک الفاظ میں مؤقف پیش کیا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ عوام کو فوج کے خلاف بھڑکائے۔ مسلح افواج اور اس کی قیادت پر مزید حملے برداشت نہیں کیے جائیں اور ان کا سختی سے مقابلہ کیا جائے گا۔
انھوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ اس کا ’’بغیر دستانے پہنے‘‘ مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کی فوج کھڑی ہے، اور کھڑی رہے گی،ہم کہیں نہیں جا رہے۔ جب تک پاکستان ہے فوج رہے گی۔
پاکستان اور پاکستان کے باہر گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ قوتیں بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے ایسا زہریلا پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہیں جس کا مقصد پاکستان کے عوام میں مایوسی پھیلانا، انھیں یہ تاثر دینا کہ جیسے پاکستان ایک ناکام ریاست بن گیا ہے، عوام کو نظریاتی اعتبار سے کنفیوژ کرنا اور ان کے درمیان نفرتوں کے بیج بونا تاکہ وہ باہم دست وگریباں ہو جائیں۔
یہ قوتیں کون ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور یہ کہاں سے آپریٹ ہو رہی ہیں، اس کے بارے میں بہت سے حقائق آشکار ہو چکے ہیں جب کہ باقی بھی بتدریج آشکار ہوتے جائیں گے۔ پاکستان برسوں سے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔
انتہاپسندی نے بیرون ملک پاکستان کا چہرہ مسخ کیا ہے۔ افغانستان کا حکمران طبقہ برسوں سے پاکستان کے بارے میں زہریلا اور ذومعنی پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا۔
ماضی کی حکومتیں ہوں یا موجودہ طالبان حکومت، پاکستان کے حوالے سے سب کی ایک جیسی پالیسی رہی ہے اور سب کا مقصد پاکستان میں ایک مخصوص سوچ کو پروان چڑھانا، ایک مخصوص گروہ کی بالادستی قائم کرنا اور پاکستان کی طرف آبادی کے پھیلاؤ کا ہتھیار استعمال کرنا شامل ہے۔
پاکستان میں بھی ایک مخصوص گروہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ اس پروپیگنڈے کا حصہ بنا ہے اور وہ اس پروپیگنڈے کو عوام پر مسلط کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں جب سردجنگ کا اختتام ہوا، تو حالات میں کچھ تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ سامنے آیا تو پاکستان میں موجود یہ مخصوص گروہ پہلے درپردہ افغان مہاجرین کو پاکستانی دستاویزات دینے میں مدد فراہم کرتا رہا، انھیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فراہم کیے گئے، ووٹر لسٹوں میں ان کے نام شامل کیے گئے اور مہاجر کیمپوں میں سے انھیں نکالنے کے لیے ریاستی امور پر اثرانداز ہوئے۔
اس وجہ سے پاکستان میں آبادی کے تناسب میں بھی فرق پڑا اور پاکستان کے مختلف صوبوں کے اندر معاشی مسائل نے بھی جنم لیا جب کہ جرائم بھی بڑھے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں یہی طبقہ سہولت کاری کرتا رہا اور ریاست کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر انتہاپسندی کو پروان چڑھاتا رہا۔ پاکستان کے وسائل کو استعمال کر کے یہ طبقہ بااثر ہوا اور پھر پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف ہی کام کرنا شروع کر دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبرپختونخوا کے حوالے سے واضح کیا کہ کے پی میں دہشت گردی چل رہی ہے، مجھے بتادیں گزشتہ پانچ برس میں کے پی میں کس دہشت گرد کو پھانسی پر لٹکایا گیا؟
یہ کہتے ہیں آپریشن نہ کرو، دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، کیڈٹ کالج وانا پر حملے کرنے والوں سے ہم کیا بات کریں؟ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے حوالے سے مختلف حکومتوں کی پالیسیاں ابہام اور کنفیوژن کا شکار رہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی سطح پر ہمیشہ اس بیانیے کو پروان چڑھایا گیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ پاکستان کی کئی حکومتوں نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات بھی کیے لیکن اس کے باوجود صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
دہشت گرد پہلے سے بھی زیادہ طاقت پکڑتے چلے گئے۔ نجی وفود نے بھی کابل جا کر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے لیکن معاملہ پھر بھی حل نہ ہو سکا۔ اب بھی بعض قوتیں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ پالیسی پاکستان اور اس کے عوام کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوئی ہے۔
ہزاروں بے گناہ پاکستانی خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں جوانوں نے شہادت پائی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس قدر نقصانات کے باوجود بعض لوگ یا قوتیں آج بھی یہ کہتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
یہ سوچ اور اپروچ کس کے لیے فائدہ مند ہے؟ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوا ہو کہ کچھ قوتیں اپنے ہی ملک کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہوں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ ہمارا تعلق کسی ایلیٹ طبقے سے نہیں ہم مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، خود آرمی چیف ایک اسکول ماسٹر کے بیٹے ہیں، ہم عوام میں سے آئے ہیں، ہمارے افسران میں کوئی کلرک کا بیٹا ہے، کوئی کسی غریب آدمی کا بیٹا ہے، ہمارے افسران اور نوجوان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہورہے ہیں، پاک فوج کا جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں جاتا ہے، خوارج کے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے؟
کون اپنی جانیں دیتا ہے؟ ہم نے جانیں دینا اور لینا ہوتی ہیں۔ اگر کوئی اپنی ذات اور اپنی نامناسب سوچ کے لیے فوج اور اس کی لیڈر شپ پر حملے کرتا ہے تو یہ عمل درست نہیں۔ ہم نے اس ریاست کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 9 مئی کے حملے محض تخریب نہیں بلکہ دشمن کے مفادات کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھے، فوجی عدالتوں میں 9 مئی کے مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں، جب کہ سول مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
ترجمان نے دہشت گردی کے خلاف ریاستی عزم دہراتے ہوئے کہا، فتنہ الخوارج سے بات چیت نہیں کریں گے۔ یہ لوگ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ صوبوں، خصوصاً خیبرپختونخوا میں سیاست کے نام پر دہشت گردوں کی سہولت کاری قابلِ مذمت ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور جو نکات اٹھائے گئے ہیں، وہ قابل غور ہیں۔ پاکستان کی سالمیت، بقاء، تحفظ اور تعمیر وترقی کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا لازم ہو چکا ہے۔
پاکستان کے خلاف بیانیے کی جو جنگ مسلط کی گئی ہے، اس کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر وہ قوتیں جو ایسا پروپیگنڈا کر رہی ہیں یا اس کا حصہ بن رہی ہیں جو پاکستان کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہیں، ان کا محاسبہ اور احتساب بھی ضروری ہو چکا ہے۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کو بند رکھنا اور اسے ایک فول پروف میکنزم کے طور پر آپریٹ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ غیرقانونی تجارت اور غیرقانونی دولت کا پاکستان کے اندر پنپنا اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔
دہشت گرد تنظیمیں اور جرائم پیشہ گروہ اس غیرقانونی تجارت کے دو پہیے ہیں جنھیں چلانے والے وائٹ کالر کریمنلز کارٹلز ہیں۔ ان کے اتحاد کو توڑنا پاکستان کو بچانے کے لیے لازمی ہو چکا ہے۔ بلیک اکانومی پاکستان کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے۔
افغان ٹریڈ کے نام پر بلیک اکانومی کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح پاک ایران سرحد بھی فول پروف ہونی چاہیے۔ سمندری سرحدوں کی بھی بھرپور نگرانی ہونی چاہیے۔ پاکستان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان کو ایک جدید اور ماڈریٹ ریاست بنانے کے لیے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔
نصاب تعلیم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ نصاب تعلیم میں موجود خامیاں دور کرنے کے لیے جدید ذہن کے اہل علم کے ذریعے نیا نصاب تعلیم تیار کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے محاذ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے قوانین کا خاتمہ کیا جانا چاہیے جو تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں یا جو ایک مخصوص طبقے کی مراعات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔
پاکستان میں مڈل کلاس کو پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشیات کا اصول ہے کہ جب تک مڈل کلاس کا پھیلاؤ نہیں ہوتا، کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان میں مڈل کلاس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے پرانے سماجی نظام میں اصلاحات لانا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے صوبائی حکومتوں کو روایت شکن کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔