Express News:
2025-10-19@01:10:21 GMT

افغانستان کا پاکستان مخالف کردار

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔

اقوام محتدہ کی وقتاً فوقتاً شایع ہونے والی رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کی پناہ گاہیں موجود ہیں، انھیں افغانستان کی طالبان حکومت مکمل طور پر تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے اور وہاں موجود دہشت گرد گروہوں کی قیادت آزادانہ نقل وحرکت بھی کر رہی ہے اور انھیں کاروبار کرنے کی بھی مکمل آزادی ہے۔

دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ بھی ہو رہی ہے اور انھیں اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے متعدد بار افغانستان کی طالبان حکومت کو رپورٹ بھی کیا ہے اور احتجاج بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ دہشت گردوں کی پاکستان میں کارروائیوں میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔

آخرکار پاکستان کو مجبور ہو کر دہشت گردوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان کی کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی دوران افغانستان نے عارضی جنگ بندی کی درخواست کی جس پر عارضی جنگ بندی میں دوحہ میں مذاکرات تک توسیع کردی گئی ہے۔

دوحہ میں جو بھی فیصلہ ہو لیکن یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اب پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی مزید برداشت نہیں کرے گا۔ پاک فوج کے سربراہ نے بھی افغانستان کو واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کو لگام دے۔

افغانستان میں جب سے طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی ڈھلمل افغان پالیسی کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع ملا، سابقہ حکومت کے دور میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان میں لا کر بسایا گیا اور انھیں باقاعدہ طور پر مالی امداد بھی دی گئی۔

اس کا خمیازہ آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ جنھیں ٹی ٹی پی کے لوگ کہہ کر پاکستانی قرار دیا جاتا ہے، کیا وہ واقعی میں پاکستان کے شہری ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے باقاعدہ طور پر تحقیقات ہونا چاہیے۔

پاکستان کی ماضی کی افغان پالیسی کی وجہ سے افغان باشندوں کو جو ڈھیل ملی ہے اس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افغانستان کے شہریوں نے پاکستان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بنوائے ہیں۔

سابقہ فاٹا کی صورت حال تو ایسی تھی کہ وہاں کسی قسم کی کوئی پابندی ہی نہیں تھی۔ اس لیے یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ جن دہشت گردوں نے اپنی تنظیم کا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا ہے، کیا وہ واقعی پاکستان کے شہری ہیں؟ اصولی طور پر تو انھیں پاکستان کا نام استعمال کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، ان کا جرم اس قدر سنگین ہے کہ اگر وہ بفرض محال پاکستانی ہیں بھی تو ان کی نیشنیلٹی ختم کر دینی چاہیے یا وہ واقعی ختم بھی ہو چکی ہے۔

اس لیے یہ سب لوگ پاکستان کے لیے غیرملکی دہشت گرد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ اسی اصول کے تحت نمٹا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ سارے لوگ افغانستان پر قابض افغان طالبان کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔

سچ تو یہی ہے کہ یہ لوگ افغانستان کے شہری کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ کیونکہ جو لوگ اپنے ہی شہریوں کو غلام بنا کر رکھے ہوئے ہیں، وہ لوگوں پر اپنا قانون چلا رہے ہیں لیکن خود کسی بھی قانون کے دائرے میں نہیں ہیں۔ انھیں افغانستان کا حقیقی اور اصلی شہری کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

پاکستان کی حکومت نے غیرقانونی افغان مہاجرین کو فوری طور پر واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے انھیں کوئی مہلت نہیں دی جائے گی، کہا گیا ہے کہ صرف وہی افغان باشندے پاکستان میں رہ سکیں گے جن کے پاس درست ویزا ہوگا۔

میڈیا کے مطابق وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیرصدارت گزشتہ روز افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزرا، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے نمایندے مزمل اسلم شریک ہوئے۔

اجلاس میںوفاقی و صوبائی حکومتوں اور اداروں کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے تمام صوبائی حکومتوں، وفاقی و صوبائی اداروں کو پاکستان میں غیرقانونی طور پر موجود افغان باشندوں کی جلد از جلد وطن واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملے اور افغانوں کا ان حملوں میں ملوث ہونا تشویشناک ہے۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پیاروں کی قربانیاں دینے والے پاکستان کے بہادر عوام ہم سے سوال کرتے ہیں کہ حکومت کب تک افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے گی، افغانستان کے حملوں کو پسپا کرنے پر پوری قوم افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، ہماری بہادر افواج مادر وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہائیوں سے مشکلات میں گھرے افغانستان کی پاکستان نے ہر مشکل وقت میں مدد کی، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔

وزیراعظم نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں اور پاکستان میں مقیم افغانوں کے ان حملوں میں ملوث ہونے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار متعدد بار افغانستان کے دورے پر گئے اور افغان نگران حکومت کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے کے حوالے سے مذاکرات کیے، پاکستان نے افغانستان سے پاکستان میں خوارج کی در اندازی کو روکنے کی سفارتی و سیاسی اقدامات کے ذریعہ بھرپور کوشش کی۔

اجلاس کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی مرحلہ وار وطن واپسی شروع کی گئی،  16اکتوبر 2025 تک 14 لاکھ 77 ہزار 592 افغانوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ افغانستان کی جانب ایگزٹ پوائنٹس کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ افغانوں کی وطن واپسی سہل اور تیزی سے ممکن ہو سکے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر موجود افغان باشندوں کو پناہ دینا اور انھیں گیسٹ ہاؤسز میں قیام کی اجازت دینا قانونا جرم ہے، ایسے افغان باشندوں کی نشاندہی کی جارہی ہے، پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے عمل میں عوام کو شراکت دار بنایا جائے گا اور کسی کو بھی افغانوں کو حکومت کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پناہ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اجلاس کے اختتام پر فورم نے فیصلہ کیا کہ اجلاس میں پیش کردہ تمام سفارشات پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے صوبوں کو مکمل تعاون کی درخواست کی۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی باتیں برسوں سے جاری ہیں لیکن اس مسئلے کو آج تک مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا۔

پاکستان میں قانونی اور غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی تعداد کے بارے میں گاہے بگاہے تخمینے آتے رہتے ہیں۔ ان تخمینوں کے مطابق ایسے افغان باشندوں کی تعداد تیس سے چالیس لاکھ کے قریب ہے۔

ایسے میں اگر ستر اسی ہزار کو واپس بھیجا گیا ہے تو یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے۔ پھر یہ بھی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں یا اگر موجود ہیں تو انھیں ظاہر نہیں کیا جا رہا کہ جن افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا ہے، ان میں سے کتنے واپس آئے ہیں۔

اس لیے افغانستان کے باشندوں کو واپس بھیجنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے افسران اور ملازمین ان قوانین پر عمل کرنے میں سست روی یا کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے سخت سزاؤں اور جرمانوں کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کوئی صوبائی حکومت اس انتہائی اہم، نازک اور حساس معاملے پر دوعملی کا مظاہرہ کرتی ہے یا مزاحمت کرتی ہے تو اس حوالے سے بھی قومی اور صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کر کے وفاق کو یہ معاملہ براہ راست اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے صوبوں میں افغان مہاجرین کی واپسی کا ٹارگٹ وفاقی اداروں کے سپرد کر دیا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغان پناہ گزینوں کی افغان باشندوں کی کی وطن واپسی کے افغان مہاجرین افغانستان میں افغانستان کے افغانستان کی پاکستان میں اس حوالے سے کے حوالے سے پاکستان نے مقیم افغان باشندوں کو پاکستان کی پاکستان کے اور انھیں کی وجہ سے کی تعداد کے شہری کے خلاف کو واپس کیا جا ہے اور اور ان گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

عمران خان اپنے دور میں ایک ہی وقت میں جلاد و فرعون کا کردار ادا کر رہے تھے، عظمیٰ بخاری

لاہور(نیوز ڈیسک)وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جیل کی دیواروں نے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے، اپنے دور حکومت میں ایک ہی وقت میں جلاد اور فرعون کا رول ادا کر رہے تھے۔

اپنے بیان میں عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ماضی میں جس انتشاری جماعت کو موصوف دہشت گرد اور شدت پسند قرار دیتے تھے، اب اسی مذہبی جماعت کے لیے پارٹی کارکنوں کو احتجاج کی کال دے رہے ہیں، یوٹرن لینے اور بار بار موقف تبدیل کرنے پر ان کو شرم بھی نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ کی فائنل کال کو پاکستان ریجیکٹ کر چکا ہے تو اب کس منہ سے کال دیتے ہیں؟ اب پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کیا انتشار پھیلانے کے لیے ان دونوں کا ایجنڈا ایک ہے؟ جس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں دہشت گردی عروج پہ ہے۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ خیبر پختونخوا اس وقت بیڈ گورننس، کرپشن اور دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے لیکن یہاں امن کے بجائے انتشار پھیلانے کے لیے حکومتیں تبدیل کرنے کے علاوہ اس جماعت کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی بطور جماعت پالیسی ڈلیور کرنا نہیں انتشار پھیلانا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • طالبان حکومت کو خطے میں قیام امن اپنا کردار ادا کرنا ہوگا:ترجمان دفتر خارجہ
  • بھارت کی افغانستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی اور نرسریاں ریکارڈ پر ہیں، دفتر خارجہ
  • پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ
  • پاک افغان کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں، اس کے لیے زمین ہموار کی جائے : مولانا فضل الرحمان
  • ْافغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو ہم کریں گے، رانا ثناء اللہ کا انتباہ
  • چین کی پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کی حمایت، امن کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش
  • عمران خان اپنے دور میں ایک ہی وقت میں جلاد و فرعون کا کردار ادا کر رہے تھے، عظمیٰ بخاری
  • چین پاک افغان تعلقات میں مسلسل بہتری کیلئے تعمیری کردار ادا کرنےکو تیار ہے،چینی وزارت خارجہ
  • افغانستان سے تناؤ کمی میں سعودیہ‘ قطر کا کردار‘ اندرونی کہانی‘شبہ ہے جنگ بندی برقرار نہیں رہے گی: خواجہ آصف