دہشتگردی برداشت نہیں کریں گے؛پاکستان کے طالبان ریجیم سےمذاکرات مکمل
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
سٹی42: قطر کےدارالحکومت دوحہ میں پاکستان کے طالبان ریجیم کے ساتھ مذاکرات ختم ہو گئے۔
پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کے دور مکمل ہونے کی اطلاع کےساتھ سفارتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ مذاکرات کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جلد ہی جاری ہونے کا امکان ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران پاکستان کا واضح موقف اور مطالبات سامنے آئے۔ پاکستان کے نمائندوں نے واضح کیا کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
دکی ؛ کوئلے کی کان میں مٹی کا تودہ گرنے سے دو کان کن جاں بحق
دوحہ میں پاکستانی وفد اور طالبان ریجیم کے وفد کی بات چیت ساڑھے 5 گھنٹے سے زائد دیر تک جاری رہی۔
پاکستان کا افغان طالبان کی عبوری حکومت کو دو ٹوک پیغام یہ تھا کہ افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی کی جائے۔ پاکستان پر افغانستان سے حملہ کوئی بھی کرے، پاکستان اس کا جواب دے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ سے قمر زمان کائرہ کی ملاقات،سیاسی صورتحال اور پارٹی امور پر گفتگو
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
افغانستان بھارت کی پراکسی بن چکا، پاکستان مزید برداشت نہیں کرے گا: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب افغانستان، بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے اور پاکستان کے خلاف منظم سازشوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کی موجودہ لہر بھارت، افغان حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جو پاکستان پر مسلط کی گئی ہے۔
خواجہ آصف نے یاد دلایا کہ جن افغان رہنماؤں کی آج کابل میں حکومت ہے، وہ کل تک پاکستان میں پناہ لیے ہوئے تھے، یہاں چھپتے پھرتے تھے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان اب کابل سے ماضی جیسے تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا، اور تمام افغان شہریوں کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا کیونکہ اب ان کی اپنی حکومت ہے اور انہیں اپنے ملک کی ذمہ داری لینی چاہیے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ ہمسایوں کی طرح پرامن اور باوقار تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ پاکستان کے وسائل اور سرزمین 25 کروڑ عوام کی امانت ہیں، اور پانچ دہائیوں پر محیط زبردستی کی مہمان نوازی’’ اب ختم کی جا رہی ہے۔خوددار قومیں دوسروں کے وسائل پر نہیں پلتیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اب صرف احتجاجی مراسلے یا امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی، نہ ہی کوئی وفد کابل جائے گا۔ اگر دہشتگردی کا منبع کہیں بھی ہوا، تو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
خواجہ آصف نے طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے امن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تفصیلات بھی پیش کیں۔ ان کے مطابق وزیر خارجہ 4 بار، وزیر دفاع اور آئی ایس آئی کے حکام 2، جبکہ دیگر اعلیٰ حکام 5 مرتبہ کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر نے بھی کابل کا دورہ کیا، اور جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے 8 اجلاس ہوئے۔ 225 بارڈر فلیگ میٹنگز، 836 احتجاجی مراسلے، اور 13 مرتبہ سخت سفارتی احتجاج (ڈیمارش) کیا گیا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 2021 سے اب تک پاکستان میں دہشتگردی کے10,347 واقعات پیش آئے جن میں3,844 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جن میں سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔
آخر میں وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان نے بار بار امن کا ہاتھ بڑھایا اور بے شمار قربانیاں دیں، لیکن بدقسمتی سے کابل سے مثبت ردعمل کبھی نہیں آیا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے۔