پاکستان کے بڑے ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ G2G ماڈل پر غیر یقینی کے سائے۔ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس ’اسلام آباد، لاہور اور کراچی‘ کی آؤٹ سورسنگ پچھلے 2 سال سے حکومت کی پالیسیوں کا مرکزی موضوع بنی ہوئی ہے۔
لیکن ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کی مسلسل خاموشی نے پورا منصوبہ ایک بار پھر غیر یقینی کی گہری دھند میں دھکیل دیا ہے۔ یہ وہی منصوبہ ہے جسے حکومت نے بارہا ’گیم چینجر‘ قرار دیا، مگر اب عملی حقیقت یہ ہے کہ نہ تو سرمایہ کار سے جواب آ رہا ہے، نہ حکومت کے پاس کوئی متبادل حکمتِ عملی موجود ہے۔
ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کی خاموشی اصل خطرے کی گھنٹی:رپورٹ کے مطابق، پاکستانی حکام کی متعدد سرکاری ای میلز اور خطوط کے باوجود ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ خاموشی صرف ’عدم دلچسپی‘ نہیں، بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ یا تو گروپ اب پہلے کی طرح پُرجوش نہیں، یا وہ پاکستان کے معاشی، قانونی اور انتظامی خطرات کو دیکھ کر پیچھے ہٹ رہا ہے۔
یہ صورت حال G2G معاہدے کی بنیادیں متزلزل کرتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب پورا عمل ’ایک ہی پارٹی‘ کی دلچسپی پر کھڑا کیا گیا تھا، جو کہ خود ایک سنگین پالیسی غلطی تھی۔
حکومت کی جلدبازی اور 3 بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی ٹوکری میں ڈالنے کی غلطیپوری حکومتی مشینری نے گزشتہ سال سے اس منصوبے کو ایک ’سیاسی کامیابی‘ کے طور پر بیچا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پاکستان کے ایئرپورٹس مالی اور انتظامی طور پر مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔
ملک کا مستقبل صرف بیرونی آپریٹر کے ہاتھوں میں دینے میں ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کے ایئرپورٹس گزشتہ 10 سال میں نہ صرف اپنی لاگت پوری کر رہے ہیں، بلکہ کارگو، لینڈنگ فیس، گراؤنڈ ہینڈلنگ اور لیزنگ سے خاطر خواہ آمدنی بھی پیدا کر رہے ہیں۔
Emirates گروپ سے متعلق خدشات؛ کیا یہ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے؟ذرائع کے مطابق اگر ابو ظہبی گروپ نے رسمی طور پر ’عدم دلچسپی‘ ظاہر کر دی تو پورا G2G ڈھانچہ بیٹھ جائے گا۔ کیونکہ عمل مکمل طور پر ’خلیجی تعاون‘ کے تصور پر بنایا گیا تھا، نہ کہ اوپن مارکیٹ کمپیٹیشن یا عالمی سرمایہ کاروں کی شمولیت پر۔
اسی لیے اب یہ خدشہ حقیقی شکل اختیار کر رہا ہے کہEmirates گروپ بھی پاکستان کے ساتھ معاہدے میں وہ دلچسپی برقرار نہ رکھ سکے،
کیونکہ معاشی استحکام، پالیسی تسلسل اور قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی کسی بھی عالمی آپریٹر کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ پاکستان نے خود کو ہائی رسک زون کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
اس صورت حال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ابو ظہبی گروپ پیچھے ہٹتا ہے تو Emirates سمیت باقی ادارے بھی ’ڈیفالٹ انٹرسٹ‘ پر چلے جائیں گے۔ سوال ھے کہ کیا یہ سب ایک پالیسی فیلئر ہے؟ جواب ہاں میں ہی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی پالیسی؛ سازوں نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے 3 بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی ماڈلایک ہی مدت ایک ہی سرمایہ کارایک ہی G2G سیاسی دباؤ کے تحت آگے بڑھایا، جو کہ بنیادی طور پر ناقص منصوبہ بندی تھی۔ دنیا میں ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ ایسے نہیں ہوتی۔ ترکی نے علامیاتی مقابلہ کھلا رکھا۔
سعودی عرب نے مرحلہ وار نجکاری کیسنگاپور اور قطر نے ریجنل ماڈل اپنایا بھارت نے ملٹی انویسٹر ماڈلز استعمال کیے، مگر کسی ملک نے 3 بڑے اسٹریٹیجک ایئرپورٹس ایک ہی پارٹی یا ایک ہی ملک کے حوالے نہیں کیے۔ پاکستان نے سیاسی جلد بازی میں ایک ایسا منصوبہ بنا لیا جو معروضی حقائق کے خلاف تھا۔
CCOP کی میٹنگ، داخل بے دروازہ، خارج بے دروازہ:28 نومبر کو ہونے والی CCOP میٹنگ میں جب مبینہ طور پر سرکاری حکام نے بتایا کہ سرمایہ کار جواب ہی نہیں دے رہا، تو سارا کمرہ خاموش ہو گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے حکومت کے بیانیے سے پردہ اٹھا دیا۔
ایوی ایشن کے ایک افسر نے نام نہ بنانے کی شرط پر بتایا کہ دراصل ان کے پاس کوئی باضابطہ پلان بی موجود نہیں، کوئی دوسرا سرمایہ کار موجود نہیں، نہ ہی ان 3 ایئرپورٹس کے لیے علیحدہ کاروباری ماڈلز تیار کیے گئے۔ ہم جو پلان دیتے ہیں، وہ ردی میں چلا جاتا ھے۔ یہ وہی غلطی ہے جسے ھم گزشتہ 2 سال سے بار ہا نشاندہی کرتے آرہے ہیں کہ ’تکنیکی اسٹڈیز کے بغیر صرف سیاسی خواہشات پر ایئرپورٹس نہیں چل سکتے‘۔
اوت سورسنگ پراسس سے منسلک ایک افسر کہتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے ایئرپورٹس فروخت نہیں کیے جا رہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا انہیں غلط ہاتھوں میں دے دیا جائے گا؟ حکومت بار بار یقین دہانی کراتی رہی کہ ایئرپورٹس صرف ’آپریشنز‘ میں دیے جا رہے ہیں، نہ کہ آؤٹ رائٹ فروخت لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر سرمایہ کار ہی دلچسپی نہیں رکھتا اگر قانونی ماڈل ہی واضح نہیں اگر رِسک اینالیسز موجود ہی نہیں۔
اگر مالی سچویشن بے یقینی کا شکار ہے تو پھر کس بنیاد پر ایئرپورٹس کو ایک بیرونی ادارے کے حوالے کیا جا رہا ہے؟
ایوی ایشن سیکیورٹی، اصل نکتہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے:دنیا کے کسی ملک میں دفاعی اہمیت کے حامل ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ ایک پیچیدہ عمل ہے۔
پاکستان کے ایئرپورٹس:
VIPموومنٹ فوج آپریشنز، حساس کارگواسٹریٹیجک اور سفارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک غیر ملکی آپریٹر کے حوالے کرنا کسی بھی ملک کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اگر معاہدہ شفاف نہ ہو تو یہ فیصلہ قومی سلامتی پر بھی سوال اٹھا سکتا ہے۔
حل کیا ہے؟ حقیقت پسندانہ روڈ میپ: تینوں ایئرپورٹس کے لیے علیحدہ بزنس ماڈل بنایا جائےہر ایئرپورٹ کی مختلف ضروریات اور امکانات ہیں
G2G سے باہر نکل کر اوپن انٹرنیشنل ٹینڈرنگ کی جائے یہ دنیا کا آزمودہ، شفاف اور کامیاب طریقہ ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت ضروری ہے۔ ایئرپورٹ آپریشنز صرف ایک وزارت کا کام نہیں CAA، ASF، FIA، کسٹمز، ائرفورس سب اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ Emirates یا کسی ایک گروپ پر انحصار ترک کیا جائے۔ متبادل سرمایہ کاروں کو شامل کرنا ضروری ہے۔ قومی ایوی ایشن پالیسی 2025 کی فوری ازسرنو تدوین غیر واضح قوانین کسی بھی سرمایہ کار کو دور بھگا دیتے ہیں۔اب جبکہ ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ کا جواب نہ آنا (اگر سچ ھے تو ) ایک سنگین جھٹکا ثابت ہو رہا ہے، حکومت کے پاس 2 راستے ہیں یا تو ملک کے 3 بڑے اور حساس ایئرپورٹس کو ’سیاسی جلد بازی‘ میں ایک غیر فعال G2G معاہدے کے تحت آگے بڑھایا جائے یا پھر ایک منظم، شفاف اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نئی حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔
راقم اپنے 28 سالہ ایوی ایشن کے تجربے کے ساتھ اور بڑی زمہ داری سے کہتا ہے، اوٹ سورسنگ کا عمل ایک بہترین عمل ہے اگر اس میں شفافیت لائی جا اے بصورت دیگر سول ایوی ایشن اتھارٹی (PAA اور REGULATORY دونوں) کی موجودہ ٹیم کو مکمل فری ھیند دے دیا جائے تو ایئرپورٹس سونا اگلیں گے۔
اس سلسلے مین صرف ادارے کے اندر تبدیلی (reshuffling ) لائ جائے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایئرپورٹس منیجرز کو حکومت پاکستان کے جاری کردہ نوٹیفکیشن اور قانون کے مطابق کام کرنے دئیا جائے، اور اس قانون کے مطابق سابقہ طریقہ کار کے تحت تمام ایجنسیوں کو ایئرپورٹس مینیجر ز کو ہوابدی بنایا جائے بصورت دیگر اگر یہ معاملہ اسی طرح سیاسی دباؤ اور جلد بازی کے تحت چلایا گیا تو پاکستان نہ صرف 3 قیمتی سونا اگلنے والے ایئرپورٹس کھو دے گا, بلکہ بین الاقوامی سرمائے کا اعتماد بھی ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سینئر قانون دان کالم نگار اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ابو ظہبی انویسٹمنٹ گروپ پاکستان کے ایئرپورٹس بڑے ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ ایئرپورٹس کو سرمایہ کار ایوی ایشن حکومت کے کے مطابق رہے ہیں کے تحت کے لیے کو ایک ایک ہی رہا ہے
پڑھیں:
میئر کراچی کا سارے اداروں پر قبضہ، پھر بھی بچے گٹر میں گر رہے ہیں: جماعت اسلامی
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ میئر کراچی نے سارے ادارے اپنے قبضے میں کر رکھے ہیں، کوئی اس شہر کا پرسان حال نہیں ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق کراچی میں امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بی آر ٹی کے نام پر شہریوں کی تذلیل کی جا رہی ہے، سندھ حکومت میں کرپشن بڑا کاروبار بن چکا ہے، ان کی سرپرستی کون کررہا ہے سب کو پتہ ہے، اس بی آر ٹی کے ڈیزائن میں بھی مسائل ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ مطالبہ ہے بی آر ٹی پروجیکٹ ختم کیا جائے، یونیورسٹی روڈ کو بحال کیا جائے۔ فرضی ڈاکومنٹس پر گلشن اقبال میں گھر پر قبضہ کیا جا رہا ہے، کسی بھی شہری کے گھر پر کوئی قبضہ کرے گا تو جماعت اسلامی مزاحمت کرے گی، جماعت اسلامی نے سیل بنا دیا ہے۔
لاہور: درختوں کی کٹائی سے متعلق درخواست پر پی ایچ اے کو نوٹس جاری
ان کا کہنا تھا کہ زمینوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی جائے گی، حکومت سسٹم چلانے والوں کو لگام دے، پاکستان میں ہر جگہ قبضہ ہوتا ہے، کسانوں، ہاریوں کی زمین پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، دریائے راوی کے کنارے جعلی سوسائٹیاں بنی ہوئی ہیں، جعلی سوسائٹیاں بنتی ہیں، دریاؤں کے راستوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، زمین پر قبضے کے خلاف جدوجہد بدل دو نظام کا اہم حصہ ہو گا۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نورا کشتی لڑتی ہے، عوام کو بے وقوف بناتی ہے، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے پر جب قبضہ ہو رہا تھا ایم کیو ایم ان کے ساتھ کھڑی تھی، قبضہ گیروں کے خلاف مزاحمت کی جائے گی، کوئی اس شہر کا پرسان حال نہیں ہے، حالات کی ذمے داری حکومت پر ہے، کراچی کے شہریوں کو لاوارث نہیں چھوڑیں گے۔
ڈیرہ غازی خان میں پولیس اور واپڈا کے درمیان انوکھا فلمی تصادم، پورا علاقہ پریشان
انہوں نے کہا کہ چھوٹے کاشتکاروں کی زمین پر قبضہ کیا جاتا ہے، ہزار ارب روپے کراچی کو ملنے چاہئے تھے، مصطفیٰ کمال کے دور میں یہ شق ختم کی گئی، ایم کیو ایم اس وقت حکومت کا حصہ تھی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے منعم ظفر نے کہا کہ بچے گٹر میں گر رہے ہیں، مر رہے ہیں، انفرا سٹریکچر تباہ حال ہے، ہم اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈوبنے والے بچے کی لاش 12 گھنٹے بعد بھی تلاش نہیں کی جاسکی، افسوسناک واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، فون کالز کے باوجود کے ایم سی کہیں موجود نہیں تھی۔
ویڈیو: پی ایس ای آر کے تحت پنجاب بھر میں گھر گھر سروے شروع، مستقبل میں یہ سروے عوام کے لیے کتنا مفید؟ اہم تفصیلات جانیے
منعم ظفر نے بتایا کہ یوسی چیئرمین نے اس گڑھے کے حوالے سے29اکتوبر کو شکایت درج کرائی، ہمارے تمام ٹاؤنز چیئرمین آن بورڈ ہیں، جن محکموں کی ذمہ داری بنتی ہے ان کو کردارادا کرنا چاہیے۔