پی آئی اے اور اتحاد ایئرویز کے درمیان اہم شراکت، مسافروں کے لیے نئی سفری سہولتیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
اسلام آباد – پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) اور متحدہ عرب امارات کی معروف فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز کے درمیان کوڈ شیئر معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت دونوں ایئرلائنز اپنے مسافروں کو زیادہ وسیع اور مربوط سفری سہولتیں فراہم کریں گی۔
پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق یہ معاہدہ مسافر پروازوں کے ساتھ ساتھ کارگو سروسز اور فریکوئنٹ فلائر پروگرام پر بھی لاگو ہوگا۔ اس کا باضابطہ آغاز31 اکتوبر 2025 سے ہوگا۔
معاہدے کی اہم باتیں:
کوڈ شیئرنگ: ان روٹس پر شراکت داری ہوگی جہاں پی آئی اے کی براہ راست پروازیں موجود نہیں، جس سے مسافروں کو متبادل سفری آپشنز میسر آئیں گے۔
کارگو سروس: کارگو کے شعبے میں بھی تعاون کیا جائے گا جس سے پی آئی اے کی مال برداری کی خدمات کو وسعت ملے گی۔
فریکوئنٹ فلائر پروگرام: مسافر دونوں ایئرلائنز کے نیٹ ورک پر سفری پوائنٹس جمع کر سکیں گے، جس سے وفادار مسافروں کو اضافی سہولت ملے گی۔
ترجمان نے کہا کہ اتحاد ایئرویز کے عالمی نیٹ ورک تک رسائی پی آئی اے کے مسافروں کے لیے ایک بڑی سہولت ہوگی، خاص طور پر ان مقامات پر جہاں براہ راست پروازیں نہیں جاتیں۔ اس معاہدے سے نہ صرف سفری سہولتوں میں بہتری آئے گی بلکہ پی آئی اے کی آمدن میں اضافے کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔
برطانیہ کے لیے خصوصی تیاری:
ترجمان کے مطابق برطانیہ جانے والی پروازوں کے لیے **پی آئی اے کے سب سے بڑے بوئنگ 777 طیاروں کو تیار رکھنے کی ہدایت** جاری کی گئی ہے، تاکہ مسافروں کو بہتر سہولت اور آرام دہ سفر فراہم کیا جا سکے۔
یہ معاہدہ پی آئی اے کے لیے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف ایئرلائن کے بین الاقوامی روابط مضبوط ہوں گے بلکہ مسافروں کو بھی عالمی معیار کی سہولیات حاصل ہوں گی۔
.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ا ئی اے کے مسافروں کو کے لیے
پڑھیں:
امریکہ۔سعودی عرب دفاعی معاہدے کے پس منظر میں، ریاض کا چاہتا ہے؟
اپنی ایک رپورٹ میں نیوز ویک کا کہنا تھا کہ ریاض کے ساتھ دوحہ کی طرز کا معاہدہ، امریکہ کی علاقائی پالیسی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ جو برسوں کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان روایتی سلامتی کے تعلقات کو بحال کریگا۔ اسلام ٹائمز۔ سعودی عرب ایک جامع دفاعی معاہدے پر امریکہ کی ٹرامپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ جس کی رو سے ریاض پر ہونے والا کوئی بھی حملہ امریکی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ، گزشتہ مہینے امریکہ اور قطر کے درمیان ہونے والے معاہدے کی طرز پر ہے۔ جو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سیکورٹی و فوجی تعاون کو گہرا کرے گا۔ نیز مشرق وسطیٰ کے استحکام اور دنیا میں امریکہ کی اسٹریٹجک پوزیشن پر دور رس اثرات بھی مرتب کرے گا۔
یہ معاہدہ کیوں اہم ہے؟ تجویز کردہ معاہد، محمد بن سلمان کی طویل المدت امریکی حمایت و حفاظت برقرار رکھنے کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ سعودی عرب کی سیاسی و عسکری فیصلہ سازی انہی کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے ہی امریکہ کے ساتھ باضابطہ سیکورٹی معاہدے کو ریاض کے لئے کلیدی ترجیح بنایا۔ اس بارے میں نیوز ویک نے فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے لئے یہ معاہدہ، توانائی، سرمایہ کاری اور سلامتی کے شعبوں میں شراکت داری کے ذریعے، خطے میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے کردار کے مقابلے میں امریکی اثر و رسوخ کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ معاہدہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششوں پر بھی اثر انداز ہوگا، جس میں ابراہیم اکارڈ کے ذریعے سعودی عرب کی شراکت بھی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرامپ نے حال ہی میں اس امید کا اظہار کیا کہ دنیا جلد ہی ابراہیم معاہدے میں توسیع کا مشاہدہ کرے گی۔ انہوں نے اس بابت سعودی عرب کو اس عمل میں ایک اہم ملک قرار دیا۔ دوسری جانب ریاض امید کر رہا ہے کہ اگلے مہینے سعودی ولی عہد کے دورہ وائٹ ہاؤس کے دوران، دونوں ممالک کے درمیان مذکورہ سیکورٹی معاہدہ حتمی شکل میں آ جائے گا۔
مذاکرات سے واقف افراد توقع کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون، مشترکہ دفاعی منصوبہ بندی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو مضبوط کرے گا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فنانشل ٹائمز کو ایک امریکی حکومتی اہلکار نے اس امر کی تصدیق کی کہ سعودی ولی عہد کے دورہ امریکہ کے دوران ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بارے میں بات چیت جاری ہے، تاہم وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ نے اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ حالانکہ امریکی خارجہ پالیسی کے ادارے نے ہمیشہ واشنگٹن و ریاض کے درمیان دفاعی تعاون کو اپنی علاقائی حکمت عملی کی مضبوط بنیاد قرار دیا۔ واشنگٹن نے اعلان کیا کہ وہ اختلافات کو دور کرنے، علاقائی یکجہتی میں مدد کرنے اور دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہوں کے قیام کو روکنے کے لئے سعودی عرب کے ساتھ کام جاری رکھے گا۔ حالیہ ممکنہ اسٹریٹجک معاہدے کے بارے میں نیوز ویک کی رپورٹ پر، واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
قطر معاہدہ
گزشتہ مہینے، امریکہ اور قطر نے ایک دفاعی معاہدے کے ذریعے عہد باندھا کہ قطر پر کسی بھی قسم کے حملے کو امریکی امن و سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا جائے گا۔ یہ معاہدہ دوحہ میں حماس کے سیاسی رہنماؤں پر حملے کے چند دن بعد ہوا، جس نے خطے میں کشیدگی کے پھیلاؤ کے خدشات کو بڑھا دیا۔ نیوز ویک نے لکھا کہ ریاض کے ساتھ دوحہ کی طرز کا معاہدہ، امریکہ کی علاقائی پالیسی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ جو برسوں کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان روایتی سلامتی کے تعلقات کو بحال کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ 2020ء میں اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے امریکی ثالثی کے فریم ورک کے طور پر، ابراہیم معاہدوں کے امکانات کو بھی زندہ کرے گا۔
ناکام سعودی کوششیں
قبل ازیں سعودی عرب، سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے، لیکن یہ کوششیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر منحصر تھیں۔ جو حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد ناکام ہو گئیں۔ خاص طور پر غزہ کی جنگ کے بعد، سعودی عرب نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگایا اور تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کر دیا۔ البتہ صیہونی وزیراعظم نتین یاہو نے اس شرط کی مخالفت کی۔
آئندہ کیا ہوگا؟
رپورٹ کے مطابق توقع ہے کہ محمد بن سلمان کے امریکہ پہنچنے سے پہلے، مذاکرات میں تیزی آئے گی۔ دونوں ممالک کے عہدیدار ایسے رسمی معاہدے پر پہنچنا چاہتے ہیں جو خلیج فارس میں امریکی فوجی عہدوں کو مضبوط کرے اور خطے کی سلامتی کے حتمی ضامن کے طور پر واشنگٹن کے کردار کی توثیق کرے۔ سعودی عرب کے لئے یہ معاہدہ امریکہ کے ساتھ اس کی اسٹریٹجک شراکت کو مضبوط کرے گا اور اس کے عالمی مقام کو بلند کرے گا۔ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرامپ کی نئی پالیسی کی بنیاد ہوگا۔ ایسی پالیسی جو آئندہ سال خطے میں اتحاد کی نئی تعریف پیش کر سکتی ہے۔