پولیو کے شکار مسعود خان کی بیماریوں کے خلاف ویکسین سے جنگ
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اکتوبر 2025ء) 'میں پولیو کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتا تھا۔ سکول میں جب دوسرے بچے کھیلتے تو میں انہیں دیکھ کر اداس اور مایوس ہو جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے ویکسینیٹر کا کورس کیا تاکہ دوسرے بچوں کو پولیو جیسی مفلوج کر دینے والی بیماری سے بچا سکوں۔'
مسعود صوبہ خیبرپختونخوا میں پشاور کے علاقے گڑھی عطا محمد کی سول ڈسپنسری میں گزشتہ دس برس سے ویکسینیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جہاں وہ بچوں کو معمول کے حفاظتی ٹیکے لگانے کے ساتھ پولیو کے قطرے بھی پلاتے ہیں۔
اوائل عمری میں پولیو کا شکار ہونے کے باعث ان کا بچپن معذوری میں گزارا۔ اس بیماری کے نتیجے میں تکلیف دہ تجربات نے انہیں دوسرے بچوں کو پولیو سے بچانے کا عہد کرنے کی تحریک دی۔
(جاری ہے)
وہ حفاظتی ٹیکے لگانے والے ان 14 ہزار سے زیادہ طبی کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پاکستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے تحت معاونت فراہم کر رہا ہے۔
ویکسینیٹر کے طور پر مسعود کا کام پشاور میں پولیو کے خاتمے کی قومی مہم کا اہم جزو ہے۔
پشاور وہ علاقہ ہے جہاں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے اور یہاں سے یہ دوسرے علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ مسعود کا کردار ان چار لاکھ سے زیادہ رضاکار طبی کارکنوں کے کام کو تقویت دیتا ہے جو سال میں کئی مرتبہ گھر گھر جا کر تقریباً ساڑھے چار کروڑ بچوں کو فالج کا باعث بننے والے پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں۔مسعود کے اہلخانہ اور دوست ہمیشہ ان کا مضبوط سہارا رہے ہیں۔
ان کی مدد سے وہ پشاور کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے اپنی روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ چونکہ وہ طویل فاصلہ پیدل طے نہیں کر سکتے اس لیے وہ ایک مقررہ 'ای پی آئی' مرکز پر کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوست روزانہ موٹر سائیکل پر انہیں ڈسپنسری لے جاتا ہے اور شام کو واپس گھر چھوڑ دیتا ہے۔مسعود ان لوگوں کے شکرگزار ہیں جو اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے کے لیے لاتے ہیں اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
وہ اپنے اہل خانہ کے بھی ممنون ہوں جنہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔مسعود سول ڈسپنسری میں ہر سال تقریباً تین ہزار بچوں کو ویکسین دیتے ہیں۔
مگر ان کا کردار صرف ٹیکہ لگانے تک محدود نہیں۔ وہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے ایک مؤثر حمایتی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ جب والدین اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ یا انکار کا اظہار کرتے ہیں تو مسعود ایک طبی کارکن کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آتے ہیں جو خود ایک قابل تدارک مگر عمر بھر کی بیماری جھیل رہا ہے۔وہ والدین کو تلقین کرتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کو لازمی طور پر اور بروقت ویکسین لگوانی چاہئیں تاکہ وہ پولیو سمیت دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جنہیں ویکسین کے ذریعے تو روکا جا سکتا ہے مگر ان کا کوئی اور علاج نہیں ہے اور یہ عمر بھر کی معذوری یا موت کا باعث بن سکتی ہیں۔
مسعود والدین کو اپنی مثال دیتا ہوئے کہتے ہیں کہ وہ انہیں دیکھیں اور ان کا درد محسوس کریں۔ اگر وہ اپنے بچوں کو ویکسین نہیں لگوائیں گے تو ان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہو سکتا ہے جو ان کی زندگی کو ادھورا کر دے گا۔
مسعود کی کہانی پہلے یہاں انگلش میں شائع ہوئی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بچوں کو ویکسین اپنے بچوں کو کے طور پر کرتے ہیں
پڑھیں:
موٹاپا الزائمرجیسی دماغی بیماریوں میں اضافہ کرسکتاہے؛ طبّی تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: موٹاپا الزائمر جیسی دماغی بیماریوں کے عمل کو تیز کر سکتا ہے اور اس بات کا پتہ خون کے ٹیسٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
ویب سائٹ میں شائع ایک نئی طبی تحقیقی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے شائع ہونے والی طبی تحقیق کو ریڈیولوجیکل سوسائٹی آف نارتھ امریکا کی سالانہ میٹنگ میں پیش کیا گیا۔ تحقیق میں 407 افراد کے خون کے نمونے اور اُن کے دماغ کی اسکین رپورٹس کا پانچ سالہ ڈیٹا شامل تھا۔
محققین نے خون میں ایسے کیمیائی عناصر یا ’بایومارکرز‘ کی سطح کا جائزہ لیا جو الزائمر کی شروعات سے جڑے ہوتے ہیں، ان میں pTau217، NfL اور GFAP نامی عناصر شامل تھے۔
نتائج کے مطابق جن افراد کا وزن زیادہ تھا، ان کے خون میں الزائمر سے متعلق یہ نشانیاں عام وزن رکھنے والے افراد کے مقابلے میں تقریباً 29 فیصد سے 95 فیصد زیادہ تیزی سے بڑھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خون کے ٹیسٹ دماغ کی اسکیننگ کے مقابلے میں بیماری کی ابتدا کا زیادہ جلد پتہ دے سکتے ہیں، جس سے علاج میں بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے۔تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر موٹاپا کم کیا جائے یا وزن کو قابو میں رکھا جائے تو دماغ کو نقصان پہنچنے کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ وزن کا بڑھنا صرف دل یا شوگر کے مسئلے ہی نہیں بڑھاتا بلکہ دماغ کی صحت پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔یہ تحقیق اس خیال کو مضبوط کرتی ہے کہ صحت مند وزن برقرار رکھنا الزائمر جیسے مرض کے خطرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ جب سائنس دانوں نے موٹاپے اور الزائمر کی بیماری کے درمیان تعلق کو خون کے بائیو مارکر ٹیسٹوں سے ناپا ہے۔