Jasarat News:
2025-10-28@00:34:30 GMT

نوآباد غذائیں

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251028-03-7

 

سعود عثمانی

تصور کیجیے کہ ایک دن آپ خوشگوار موڈ میں گھر کا سودا لینے نکلے اور سبزی والے کے پاس پہنچے۔ آپ نے تین کلو آلو مانگے تو سبزی فروش ہکا بکا ہوکر آپ کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’آلو کیا صاحب؟ ہمارے پاس تو نہیں ہوتا‘‘۔ آپ اس کے حیران ہونے پر حیران رہ گئے۔ بھلا بتائیے آلو سے بھی کوئی ناواقف ہو سکتا ہے؟ آپ نے اسے آلو کے بارے میں بتانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ جھنجھلا کر اس سے ہری مرچیں مانگیں لیکن وہ بدستور ہونقوں کی طرح کھڑا رہا۔ اسے ہری مرچ کا بھی معلوم نہیں تھا۔ ایک ایک کرکے آپ ٹماٹر‘ پیٹھا کدو‘ توریاں‘ گوبھی‘ بند گوبھی‘ شملہ مرچ مانگتے گئے اور پتا چلا کہ دکاندار ان سب سے ناواقف ہے۔ آپ کا غصہ دیکھ کر وہ دوسرے دکانداروں کو بلا لایا اور وہ سب آلو‘ ہری مرچ‘ ٹماٹر‘ گوبھی وغیرہ سے ناواقف نکلے۔ ہاں بینگن‘ پیاز‘ میتھی‘ اروی جیسی سبزیاں جتنی چاہیں مل جائیں گی۔ دن خراب کرنے کے لیے یہی واقعہ کافی نہیں تھا کہ پھل والے نے بھی کسر پوری کر دی۔ سیب‘ انگور‘ انار‘ شریفہ‘ آلو بخارا یہ سب اس کے لیے اجنبی نام تھے۔ نہ کبھی سنے نہ کبھی دیکھے۔ ہاں آم اور کیلا لے جائیں۔ بہت میٹھے اور ذائقے دار‘ کیا یاد کریں گے۔ یاد تو یقینا آپ بہت کریں گے مْوڈ غارت کر دینے والے اس دن کو۔ اب آلو‘ ٹماٹر‘ مرچ کے بغیر کیا پکائیں؟ یہ منظر تصوراتی لگتا ہے لیکن تصوراتی ہرگز نہیں۔ فرق صرف زمانے کا ہے۔ آپ بس کسی طرح 450 سال پہلے کے بازار میں جا پہنچے تھے اور وہاں ان تمام ناموں سمیت بیشمار غذائی چیزوں سے کوئی واقف نہیں۔ اور واقف اس لیے نہیں کہ اس وقت کے ہندوستان میں یہ موجود ہی نہیں تھیں۔

 

کچھ ناقابل ِ یقین حقیقتوں پر یقین کے لیے تیار ہو جائیں۔ جن غذائوں پر آج ہماری ہر خوراک کا دار ومدار ہے‘ جن کے بغیر کسی گھر میں نہ ہنڈیا پکتی ہے‘ نہ کوئی دستر خوان سجتا ہے‘ پانچ سو سال پہلے ہندوستان کے لوگ ان میں کسی کو نہ جانتے تھے نہ یہ کھانوں میں استعمال ہوتی تھیں۔ جو کھانے ہم مغلیہ کھانوں کے نام سے جانتے ہیں‘ ان میں سے بیش تر بڑے مغل بادشاہوں نے چکھے تک نہیں۔ دنیا بھر میں جو کھانے برصغیر کے کھانوں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور جن کی بنیاد پر ہر ملک میں اَن گنت بھارتی اور پاکستانی ریستوران چل رہے ہیں‘ اپنی اصل میں برصغیر کے ہیں ہی نہیں۔ ویسے تو بیشمار کھانے جو ہندوستان میں باہر سے آئے مثلاً پلائو‘ کباب‘ بریانی وغیرہ سے بھی ہندوستان کے لوگ اْس وقت ناواقف تھے لیکن یہ تو کھانے ہیں‘ ان پر کسی اور وقت بات ہو گی۔ میں چائے کافی جیسی نسبتاً نئی چیزوں کی بات بھی نہیں کر رہا۔ اس وقت میری گفتگو صرف ان سبزیوں‘ پھلوں اور غذائی اشیا تک محدود ہے جن سے کھانے بنتے اور دسترخوان سجتے ہیں۔

 

آلو‘ ٹماٹر اور ہری مرچ کی بات پہلے کر لیں۔ آلو پہلی بار ہندوستان میں پرتگیزی لائے۔ قریب 1650ء میں پرتگالی آبادکار جو سورت‘ کرناٹک اور بمبئی کے علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا رہے تھے‘ اپنے ساتھ آلو لائے اور یہ جنوبی امریکا کی سوغات تھی۔ یہ شہنشاہ شاہجہاں کا دور تھا۔ یعنی پرانی سلطنتیں چھوڑ دیں‘ صرف مغلوں کی بات کریں تو بابر‘ ہمایوں‘ اکبر اور جہانگیر نے نہ کبھی آلو دیکھے تھے اور نہ چکھے تھے۔ جب شاہجہاں آباد بسایا گیا‘ جو اَب دلّی ہے‘ تو یہاں آلو نہیں تھا۔ یہ بتدریج شمالی علاقوں میں پھیلا اور کھانوں میں استعمال ہوا۔ یہ تو1823ء کی بات ہے کہ آلو شملہ اور نیلگری پہاڑی علاقوں میں کاشت ہونا شروع ہوا۔ فرض کیجیے وہ آلو جو اَب حلوائیوں کے ہاں سموسوں کا جزو اعظم ہے‘ اگر نہ ہوتا تو ہمارا افطار کیسے ہوتا‘ اور ہمارے ریستوران کون سے کھانے بیچتے۔ وہ جو نامور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ’’بارے آلو کے کچھ بیاں ہو جائے‘‘ نامی کمال تحریر لکھی‘ وہ کس پر لکھتے؟ بھنڈی اور بینگن پر تو ہرگز نہیں۔ آلو سے ہماری محبت اور عقیدت تو اس درجے کی ہے کہ اسے ’’آلو شریف‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔

 

ٹماٹر کو لے لیجیے۔ ہمارے گھروں اور ہوٹلوں میں کون سی ہنڈیا ہے جس میں ٹماٹر استعمال نہیں ہوتا؟ چٹنیوں سے لے کر شوربوں اور کڑاہیوں تک ٹماٹر راج کرتا ہے۔ لیکن حقیقت بہرکیف یہ ہے کہ جنوبی امریکا سے آنے والا ٹماٹر یورپیوں نے متعارف کرایا‘ جن میں پرتگیزی اور انگریز پیش پیش تھے۔ ٹماٹر پہلی بار اسی دور میں یعنی 1650ء کے لگ بھگ ہندوستان آیا۔ اس سے پہلے کھٹاس اور ذائقے کے لیے املی وغیرہ کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ بات صرف ہندوستان ہی کی نہیں‘ یورپ میں بھی ٹماٹر کا استعمال بہت کم اور اعلیٰ طبقے تک محدود تھا۔ ہندوستان میں یہ انہی علاقوں تک محدود رہا جہاں یورپین بستے تھے۔ ابتدا میں اسے آرائشی پودے کے طور پر لگایا گیا اور یہ چھوٹے ٹماٹر تھے۔ یہ برطانوی تھے جنہوں نے اسے کھانوں میں استعمال کیا‘ اس کی کھیتی کو فروغ دیا اور اسے شمالی ہندوستان تک پھیلایا۔ خود امریکا میں بھی ٹماٹر بہت زمانے تک اجنبی رہا۔ ہندوستان میں 200 سال پہلے تک اسے ’’ولایتی بینگن‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

 

بڑی مرچیں لگتی ہیں یہ سوچ کر کہ مرچ سترہویں صدی سے پہلے ہمارے یہاں تھی ہی نہیں۔ یہاں کالی مرچ ہوتی تھی۔ دہلی کے روایتی اور مغلیہ کہلانے والے کھانے اب سرخ یا ہری مرچ کے بغیر بنتے ہی نہیں‘ لیکن بڑے مغل بادشاہوں نے مرچ چکھی بھی نہیں تھی۔ البتہ بہادر شاہ ظفر تک آتے آتے مرچ کا رواج کھانوں میں شروع ہو چکا تھا۔ شملہ مرچ کا شملہ سے بھی کوئی تعلق نہیں؛ البتہ ممکن ہے یہ پہلے پہلے شملہ میں اُگائی گئی ہو۔ یہ بھی جنوبی امریکا کا اجنبی پودا تھا‘ جو پرتگیزی اپنے ساتھ ہندوستان لائے۔ جنوبی امریکا میں سبز‘ پیلی‘ لال اور کئی رنگوں کی مرچ ہوتی ہے‘ اس لیے دیکھنے میں بھی خوبصورت لگتی ہے؛ چنانچہ اسے آرائشی پودے کے طور پر کھیتوں کے گرد باڑ کے طور پر لگایا گیا۔ ویسے بھی مرچ تیکھی اور بے ذائقہ ہوتی ہے اس لیے یورپیوں کی زبانوں کو نہیں لگی۔ مہارشٹرا کے علاقے میں پرتگیزیوں کے گھروں اور کھیتوں میں جن ہندوستانیوں نے کام کرنا شروع کیا انہوں نے یہ پودا دیکھا۔ اس کا تیکھا پن کسی کو پسند آیا اور اس نے اسے پیس کر چٹنی کے طور پر شامل کر لیا۔ لہسن اور پیاز ہندوستان میں پہلے سے تھے‘ سو لہسن اور مرچ کی چٹنی ایسی مقبول ہوئی کہ آج تک بیش تر گھروں میں‘ مثلاً میرے گھر میں ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مرچ بہت بعد میں شمالی ہندوستان میں پہنچی لیکن وہ جنوبی ہندوستان سے زیادہ کھانوں میں پسند کی جاتی ہے۔ ذرا دیکھیے کہ ہندو مذہبی روایا ت میں آلو‘ ٹماٹر اور مرچ ہیں ہی نہیں۔ یورپین جو یہاں اس کو متعارف کرانے میں پیش پیش رہے‘ وہ بھی مرچ کے استعمال میں ہم سے بہت پیچھے ہیں۔ ہم ذرا تیکھے لوگ ہیں اور اس کی تیزی اور کاٹ ہمارے مزاجوں میں گھل مل گئی ہے۔ اب سرخ مرچ ہمارے خون میں بھی دوڑتی پھرتی ہے۔ میرے خیال میں ہندوستان کے موسم کا بھی اس کی مقبولیت میں کافی دخل ہے۔ اب میں گورے کو مرچ مسالوں والے کھانے کھاتے اور سی سی کرتے دیکھتا ہوں تو دل میں کہتا ہوں: شاباش! اور بھگت! تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی۔

 

آلو‘ ٹماٹر اور ہری مرچ نے مقامی کھانوں کے ساتھ وہی کیا جو طاقتور نئے آبادکار پرانے مقامیوں کیساتھ کرتے ہیں‘ ساری سلطنتوں پر قبضہ اور مقامیوں کی بے دخلی۔ اب بینگن‘ چقندر اور اروی اپنے شاندار ماضی کو یاد کرکے آہیں بھرتے اور آلو‘ ٹماٹر‘ مرچ کے اقتدار کو رشک سے دیکھتے ہیں۔ ہزاروں سال کے اقتدار کا خاتمہ چند صدیوں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ذرا دیکھیے ابھی بات صرف تین سبزیوں تک ہے اور گنجائش ختم ہو گئی۔ باقی چیزیں تو رہ ہی گئیں اور ہاں! خود ہم بھی تو تاریخ کے لحاظ سے نئے آبادکار ہیں۔ وہ لوگ جو خود کو عرب شجروں سے جوڑتے‘ کتنے سو سال پہلے ہندوستان میں وارد ہوئے؟ اور وسطی ایشیا سے آنے والے کتنے سو سال پہلے؟ اور شمالی ہندوستان کے آرین کتنے ہزار سال پہلے؟ انسان ہی نہیں‘ غذائیں‘ پھل اور سبزیاں بھی تو نئی آبادکار ہو سکتی ہیں۔ اس غذائی نو آبادکاری کی تاریخ بھی قبول کیجیے۔

 

ے

سعود عثمانی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جنوبی امریکا ہندوستان میں ہندوستان کے کھانوں میں کے طور پر ا بادکار سال پہلے ہی نہیں میں بھی کی بات مرچ کے کے لیے سے بھی

پڑھیں:

پیٹ کمنز ایشز سیریز کے پہلے ٹیسٹ سے باہر

ایشیز سیریز سے قبل آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کو بڑا دھچکا، کپتان پیٹ کمنز پہلے ٹیسٹ سے باہر ہو گئے۔

کرکٹ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ کپتان پیٹ کمنز پہلے ایشیز ٹیسٹ کے لیے وقت پر فٹ نہیں ہوں گے۔

ایشیز سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں اسٹیو اسمتھ ٹیم کی قیادت کریں گے۔

کرکٹ آسٹریلیا نے کہا ہے کہ پیٹ کمنز نے رننگ کا آغاز کر دیا ہے، جلد بولنگ شروع کرنے کی توقع ہے۔

پانچ ٹیسٹ میچز پر مشتمل ایشیز سیریز کا پہلا ٹیسٹ 21 نومبر سے پرتھ میں کھیلا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں ’دل دل پاکستان‘ گانے کے بعد حملے کا نشانہ بنتے بنتے بچے، فرحان سعید
  • آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز فٹنس مسائل کے باعث ایشز سیریز کے پہلے ٹیسٹ سے باہر
  • پیٹ کمنز ایشز سیریز کے پہلے ٹیسٹ سے باہر
  • پہلے ایشیز ٹیسٹ سے قبل آسٹریلیا کو بڑا دھچکا، پیٹ کمنز باہر، نیا کپتان کون ہوگا؟
  • توبہ، توبہ، توبہ!!
  • موضوع: پاک افغان صلح اور ہندوستان کی بڑھتی سرگرمیاں
  • بھارت کو پاکستان کیخلاف افغان طالبان رجیم کی حمایت مہنگی پڑ گئی
  • پشاور میں ٹماٹر سستا، پیاز مہنگی،  شہری پریشان
  • اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ٹماٹر کی قیمت