تنقید کرنے اور بھوکنے میں فرق ہوتا ہوں؛ خلیل الرحمان قمر
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
معروف ڈراما نگار خلیل الرحمان قمر کے کریڈٹ پر بے تحاشا کامیاب ڈرامے ہیں لیکن جتنے وہ کامیاب لکھاری ہیں اتنے ہی متنازع بھی ہیں۔
تنازعات اور اختلافات میں گھرے رہنے والے خیل الرحمان قمر کے ایک اور سخت بیان نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔
خلیل الرحمان قمر کو ڈرامے ’میں منٹو نہیں ہو‘ میں استاد اور شاگرد کے درمیان رومانوی تعلقات دکھانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
جس کا جواب انھوں نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں دیا اور ایسے الفاظ استعمال کیئے جسے سوشل میڈیا صارفین نے قابل اعتراض قرار دیا۔
خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ میں نے ڈرامے میں استاد اور شاگرد کے درمیان محبت دکھائی ہے اور محبت کرنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ دونوں نامحرم ہیں اور شادی کرسکتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ میں نے افیئر نہیں محبت دکھائی ہے۔ میرے کردار غیر شادی شدہ ہیں۔ جن کے درمیان محبت ہے۔ یہ کوئی شادی شدہ ٹیچر کا طالبہ سے افیئر نہیں۔
ڈرامہ نگار نے مزید کہا کہ دراصل تنقید کرنے اور بھونکنے میں فرق ہوتا ہے۔ تنقید سے تو اصلاح ہوتی ہے۔
خیل الرحمان قمر نے کہا کہ حقیقت تو ہے کہ بہت ساری خواتین اساتذہ نے اپنے شاگردوں سے شادیاں کیں اور میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا بھی ہوں۔
ان کے بقول معاشرے میں 70 سال کی خواتین اور مرد بھی شادیاں کر رہے ہیں۔ میرے کرداروں پر کیوں تنقید کی جا رہی ہے، جو میں معاشرے سے ہی لے رہا ہوں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خلیل الرحمان قمر کہا کہ
پڑھیں:
تصوف تطہیر قلب اور محبت الہی کا راستہ ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
تحریک منہاج القرآن( بزم قادریہ) کے زیر اہتمام مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بانی سربراہ تحریک منہاج القرآن کا کہنا تھا کہ تصوف کی اصل تکریم انسانیت،برداشت اور رواداری ہے،جب بندہ اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ ہر سمت خدا کو دیکھنے لگتا ہے اور یہی اصل تصوف ہے، امت مسلمہ کی بیداری اسی وقت ممکن ہے جب اس میں روحانی شعور، اخلاقی تربیت اور تعلق باللہ کی تجدید ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ بانی و سرپرست اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ تصوف دل کی اصلاح، اخلاق کی تطہیر اور خالق و مخلوق سے محبت کا نام ہے۔ آج کے دور مادیت میں تصوف کی حقیقی روح کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہی تعلیمات معاشرے میں برداشت، امن اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تصوف رسوم و روایات کا نام نہیں بلکہ لذتِ توحید، عشقِ الٰہی، قربِ مصطفی ﷺ اور اتباعِ شریعت کے جامع امتزاج کا نام ہے۔ حقیقی تصوف دراصل قلب و باطن کی اصلاح، معرفتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی کا ایک ہمہ گیر نظام ہے جو انسان کو بندگی کے حقیقی شعور سے آشنا کرتا ہے۔ حضرت غوث الاعظمؓ نے اپنے پاکیزہ کردار سے ثابت کیا کہ شریعت و طریقت میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے تحریک منہاج القرآن اور بزم قادریہ کے زیراہتمام مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ماہانہ ’’مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبیﷺ و بڑی گیارہویں شریف‘‘ کی روحانی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ ہر سمت خدا کو دیکھنے لگتا ہے اور یہی اصل تصوف ہے، امت مسلمہ کی بیداری اسی وقت ممکن ہے جب اس میں روحانی شعور، اخلاقی تربیت اور تعلق باللہ کی تجدید ہوگی۔ انہوں نے تلقین کی کہ اخلاص، انکساری، ذکرِ الٰہی اور خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنایا جائے، کیونکہ قربِ الٰہی کی راہ تزکیۂ نفس، اطاعتِ قرآن و سنت اور عشقِ مصطفی ﷺ سے ہی شروع ہوتی ہے۔ تقریب میں گوشہ درود میں ماہِ ستمبر میں پڑھا گیا درود پاک 70 کروڑ 42 لاکھ 89 ہزار 753مرتبہ جبکہ مجموعی طور پر اب تک پڑھا گیا درود پاک 8 کھرب 19 ارب 29 کروڑ 79 لاکھ 15 ہزار 237مرتبہ ہے، بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں پیش کیا گیا۔