کارپوریٹ فارمنگ کیخلاف مارچ کی تیاریاں مکمل
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)عوامی تحریک اور سندھیانی تحریک کی مرکزی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری کی صدارت میں ڈی۔10 پلیجو ہاؤس، قاسم آباد، حیدرآباد میں منعقد ہوا۔اجلاس میں سندھیانی تحریک کی جانب سے 16 نومبر کو حیدرآباد سٹی گیٹ سے پریس کلب تک اعلان کردہ مارچ — جو سندھ کی تقسیم، کارپوریٹ فارمنگ، نہروں، معدنی وسائل پر قبضوں، قبائلی دہشتگردی، کاروکاری اور عورتوں پر مظالم کے خلاف ہوگا — کی تیاریوں اور منصوبہ بندی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت لاکھوں ایکڑ زمین کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر عرب ممالک اور دیگر کمپنیوں کو دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی، جس کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان تھا، اس نے بدترین مہنگائی کے ذریعے محنت کشوں اور غریب عوام سے ایک وقت کی روٹی کا حق بھی چھین لیا ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ جب سندھ کے ہاریوں اور آبادگاروں کی فصل مارکیٹ میں آتی ہے، تو اجناس کے نرخ گرا دیے جاتے ہیں، جس سے ہاریوں کا معاشی قتل عام ہوتا ہے۔ سرمایہ دار کمپنیوں کی بنائی ہوئی کھاد، زرعی ادویات، مشینری اور ڈیزل کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں، جبکہ ہاریوں کی فصلوں کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں۔ حالیہ دھان (چانول) کی فصل کے نرخ گرائے گئے ہیں، اور ”نمی (مؤسچر)” کے نام پر تاجر غیر قانونی کٹوتیاں کر رہے ہیں، مگر کوئی ادارہ نوٹس لینے کو تیار نہیں۔اجلاس میں کہا گیا کہ سندھ میں پولیس اسٹیشن مظلوموں کو تحفظ دینے کے بجائے تشدد خانے (ٹارچر سیل) بن چکے ہیں۔ امن و امان کو پولیس، ڈاکوؤں اور سرداروں نے مل کر تباہ کیا ہے۔ میرپورخاص میں ایک لڑکی جو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت درج کرانے گئی، خود ایس ایچ او کی جنسی زیادتی کا نشانہ بنی۔ سندھ میں پولیس منشیات، بھتہ خوری، غیر قانونی اسلحے کی فروخت، ڈاکے، اغوا، لوٹ مار اور چوری جیسے تمام جرائم میں ملوث ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ دیگر صوبوں سے غیر قانونی افغان شہریوں کو نکالا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اجلاس میں کہا گیا کہ
پڑھیں:
سندھ بلڈنگ کا محکمہ عمارتی بے قاعدگیوں کا اڈہ بن گیا
محمودآباد کے رہائشی پلاٹ سی 399پر غیر قانونی تجارتی تعمیرات کی دھما چوکڑی جاری
رہائشی پلاٹوں پر کمرشل یونٹس ، ڈائریکٹر شاہد خشک پر ‘منافع بخش خاموشی’ کے الزامات
کراچی (اسٹاف رپورٹر)شہر کے گنجان آباد علاقے محمودآباد کے رہائشی پلاٹ سی 399 پر دکانیں اور کمرشل پورشن یونٹس کی غیر قانونی تعمیرات نے شہری انتظامیہ کے ناکام ہونے کی داستان رقم کر دی ہے ۔مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر شاہد خشک کی مبینہ چشم پوشی کے باعث یہ علاقہ تعمیراتی بے ضابطگیوں کا مرکز بن چکا ہے ۔جرأت سروے کے مطابق، محمودآباد نمبر 2 کے رہائشی زون میں واقع پلاٹ سی 399 بالمقابل ایچ بی ایل کنیکٹ سینٹر پر بغیر کسی قانونی اجازت یا منظوری کے متعدد دکانیں اور تجارتی یونٹس تعمیر کیے جا رہے ہیں، جس سے نہ صرف علاقے کی منصوبہ بندی بری طرح متاثر ہو رہی ہے بلکہ پانی، گیس اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے پر بھی غیرضروری دباؤ پڑ رہا ہے ۔مقامی رہائشیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے اس مسئلے پر متعدد بار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو آگاہ کیا، حتیٰ کہ تحریری شکایات بھی جمع کروائیں،مگر ڈائریکٹر شاہد خشک سمیت کسی بھی افسر نے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ یہی ‘منافع بخش خاموشی’ غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دے رہی ہے ۔شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں رہائشی اور تجارتی زون کی واضح تقسیم موجود ہے ، اور رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات کی اجازت نہیں ہے ۔ ایسی غیر قانونی تعمیرات نہ صرف شہری منصوبہ بندی کو تباہ کرتی ہیں بلکہ حفاظتی خطرات بھی پیدا کرتی ہیں۔عوام کا مطالبہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کریں،غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کریں، اور الزامات میں ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ایک ٹرانسپیرنٹ انکوائری کمیشن قائم کریں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کراچی میں عمارتی قوانین کا احترام ہوگا، یا پھر ‘تعمیراتی مافیا’ اور سرکاری افسران کے گٹھ جوڑ سے شہر کی منصوبہ بندی تباہ ہوتی رہے گی؟