اداکاری کٹھن، پیچیدہ اور صبر آزما کام ہے، فیصل قریشی کے نوجوان فنکاروں کو اہم مشورے
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
پاکستان کے سینیئر اداکار فیصل قریشی نے کہا ہے کہ اداکاری کی دنیا باہر سے جتنی چمکدار دکھائی دیتی ہے، اندر سے اتنی ہی کٹھن، پیچیدہ اور صبر آزما ہے۔
’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فیصل قریشی نے اپنے فنی سفر، ناکامیوں، سیکھنے کے مراحل اور کامیابی کے بعد کے دباؤ پر کھل کر بات کی۔
’شروع میں سب آسان لگا، پھر حقیقت نے جھنجھوڑا‘انہوں نے کہاکہ یہ چکا چوند پہلے تو بہت آسان لگتی تھی، لیکن جب ریئلٹی چیک ملا تو پتا چلا کہ نہیں، یہ دنیا ذرا مشکل ہے۔ کافی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بھاگ دوڑ، محنت، قربانی۔
’بچپن سے انڈسٹری سے جڑے اور ایک طویل عرصہ اچھا نہیں بھی رہا، لیکن ہمت نہیں ہاری۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ چیزیں چلنا شروع ہوئیں، لوگوں نے پسند کرنا شروع کیا، اور تب جا کر میں نظر آنا شروع ہوا جو میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔‘
’کامیابی کے بعد اصل امتحان شروع ہوتا ہے‘فیصل قریشی کے مطابق ایوارڈ مل جانا یا کسی فلم یا ڈرامے کی کامیابی حاصل کر لینا سب کچھ نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اس کامیابی کو کیسے لے کر چلتے ہیں۔ جب لوگوں کی امیدیں آپ سے جُڑ جاتی ہیں، تو ایک دباؤ آتا ہے۔ پھر ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے۔
’میں سمجھتا تھا میں ہیرو نہیں بن سکتا‘فلم انڈسٹری سے مایوسی کے بعد جب فیصل قریشی نے ڈرامہ انڈسٹری کا رخ کیا، تو ان کے دل میں شکوک تھے۔ ’مجھے لگتا تھا میں ہیرو نہیں بن سکتا۔ لیکن پھر میری نظر پاکستان کے ان عظیم اداکاروں (طلعت حسین، محمد قوی خان، فردوس جمال، عابد علی، شفیع محمد) پر پڑی جنہیں میں بچپن سے فالو کرتا آیا ہوں۔‘
’ماسٹر کلاس کا ماضی اور حال‘فیصل قریشی بتاتے ہیں کہ آج سوشل میڈیا کا دور ہے اور کچھ سیکھنے کے لیے نوجوان سوشل پلیٹ فارم پر باآسانی ماسٹر کلاس کا انتخاب کرلیتے ہیں، ہمارے وقت میں ان سینیئرز کا کام ہی ہماری ماسٹر کلاس تھی۔
’ان کے ساتھ بیٹھنا، ان سے بات کرنا، ان کو دیکھنا یہی اصل تربیت تھی۔ میں نے خود لیجنڈز کے ڈرامے 20،20 بار دیکھے۔ ان کی لائنوں کی ادائیگی، کردار کی اپروچ، سب کچھ سیکھا اور آج بھی کہیں پھنس جاتا ہوں تو نعمان اعجاز جیسے سینیئرز سے مشورہ لیتا ہوں۔‘
’سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا‘فیصل قریشی کا ماننا ہے کہ اداکاری کا کوئی مخصوص فارمولا نہیں ہوتا، یہ سب آپ کے اندر ہوتا ہے، جسے وقت اور تجربہ پالش کرتا ہے۔
’نوجوان اداکاروں کے لیے پیغام‘فیصل قریشی نوجوان فنکاروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ صرف شہرت کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ فن کو سمجھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اداکار ڈرامہ انڈسٹری فلم انڈسٹری فنی سفر فیصل قریشی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اداکار فلم انڈسٹری فیصل قریشی وی نیوز فیصل قریشی
پڑھیں:
نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت آج کے دور کا بڑا چیلنج ہے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل کا سیرت النبی ؐ کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ سیرت طیبہ کی پیروی ہی نجات کا راستہ ہے، سیرت مصطفیٰ ؐ نوجوانوں کی شخصیت سازی کا بہترین ذریعہ ہے، کامیابی کی تلاش ہر انسان کی فطرت ہے، مگر اس کی حقیقی کنجی صرف سیرتِ مصطفیٰﷺ میں موجود ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے سیرت النبی ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’’طلبہ کی کردار سازی میں سیرت مصطفیٰ کی اہمیت اور اساتذہ و والدین کی بنیادی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں نوجوان نسل کی تربیت اور اخلاقی مضبوطی سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس کا بہترین حل حضور نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ کی پیروی میں ہے، طلبہ کی علمی کامیابی کیساتھ ساتھ ان کے اخلاق، کردار اور معاشرتی رویے بھی مضبوط ہونا ضروری ہیں، سیرت النبیﷺ ہر دور میں انسانیت کیلئے عملی رہنمائی اور کامل اسوہ ہے، جو نوجوانوں کی شخصیت کو متوازن اور بااخلاق بناتی ہے۔
تحریک منہاج القرآن ننکانہ صاحب کے زیراہتمام منعقدہ ’’سیرت النبیﷺ ‘‘ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ کامیابی کی تلاش ہر انسان کی فطرت ہے، مگر اس کی حقیقی کنجی صرف سیرتِ مصطفیٰﷺ میں موجود ہے، آج ہمارے نوجوانوں سے لیکر پچاس سال کے افراد تک ہر شخص سمت، رہنمائی اور فکری وضاحت کی تلاش میں بھٹک رہا ہے، اصل مسئلہ یہ نہیں کہ راستہ معلوم نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اس راستے پر عملی قدم رکھنے سے گریزاں ہیں، حالانکہ سیرتِ طیبہ ہماری رہنمائی کیلئے مکمل اور روشن راستہ پیش کرتی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو خصوصی طور پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ بلا تاخیر سیرتِ نبویﷺ سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور اسے اپنی عملی زندگی کا مرکز بنا لیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے واضح کیا کہ قیادت کا تعلق کسی عہدے، منصب یا حکومت سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ عاجزی، خدمت، نرم خوئی، تحمل اور محبت کے امتزاج سے جنم لیتی ہے، سچا قائد وہ ہوتا ہے جو اپنی کامیابی اس بات سے نہیں ناپتا کہ وہ کہاں پہنچا، بلکہ اس سے کہ اس نے اپنے ساتھ کتنے لوگوں کو منزل تک پہنچایا، سیرتِ مصطفیٰﷺ یہی درس دیتی ہے کہ قیادت مسلسل تربیت، خود احتسابی اور اصلاحِ احوال کا نام ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ قیادت محض اقتدار اور حکمرانی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عظیم امانت ہے جس کا حساب دنیا اور آخرت دونوں میں ہوگا، سچا لیڈر ذمہ داریوں کو اپنے پاس جمع نہیں رکھتا بلکہ وہ انہیں منظم انداز سے آگے منتقل کرتا ہے، تاکہ ایک مربوط نظام، مضبوط ٹیم اور مؤثر نظامِ کار نسل در نسل آگے بڑھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹی تعریف سے بچنا، بے بنیاد تنقید سے غیر متاثر رہنا اور اصلاح کیلئے ہر رائے کو مثبت انداز میں قبول کرنا ہی ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔
انہوں نے علم اور قلم کی قوت کو قیادت کا بنیادی ستون قرار دیتے ہوئے کہا کہ فکری اور نظریاتی وراثت قلم کے ذریعے محفوظ رہتی ہے، انہی اصولوں کی روشنی میں طاہرالقادری کی علمی، فکری اور تربیتی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جو لاکھوں نوجوانوں کی کردار سازی اور فکری رہنمائی میں تاریخی کردار ادا کر رہے ہیں، آخر میں پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے صدر تحریک منہاج القرآن ننکانہ و پرنسپل پاک گیریژن کالج، منہاج القرآن ننکانہ کے جملہ ذمہ داران اور طلبہ و طالبات کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ملک و قوم کا روشن مستقبل ہیں، آپ میں سے آج کا محنتی طالب علم کل کا بہترین قائد بنے گا۔ انہوں نے والدین اور اساتذہ کی کاوشوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔