بیرسٹر گوہر: کور کمانڈر سے ملاقات کے سوال کا جواب میرے پاس نہیں، وزیراعلیٰ سے کریں
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرنا پارٹی کا حق ہے اور مولانا فضل الرحمان کسی پیشکش کو قبول نہیں کریں گے۔
عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے کے حوالے سے بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے واضح عدالتی احکامات ہیں، مگر ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی رہنما اور وکلاء کے لیے ملاقاتیں معمول کے مطابق ہونی چاہئیں، کیونکہ یہ قانونی اور انتظامی ضروریات کا حصہ ہیں۔
کور کمانڈر اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا:
کور کمانڈر کی ملاقات کے بارے میں سہیل آفریدی سے پوچھیں، میرے علم میں نہیں کہ وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈر کی ملاقات ہوئی یا نہیں۔”
خیبرپختونخوا میں کابینہ کی تشکیل پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کابینہ کا حجم اور وقت وزیراعلیٰ کے صوابدیدی اختیار میں ہے، اور پارٹی کے تمام فیصلے بانی پی ٹی آئی کی ہدایات کے مطابق ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بعض اوقات کابینہ کی تشکیل میں تاخیر معمول کی بات ہے، مثال کے طور پر پی ڈی ایم کی حکومت کو کابینہ بنانے میں دو ہفتے لگے۔
آزاد کشمیر کی حکومت کی تبدیلی پر انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم ہمارے امیدوار تھے، مگر پارٹی سے نکال دیے گئے۔
بیرسٹر گوہر نے واضح کیا کہ اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں مولانا فضل الرحمان کسی پیشکش کو قبول نہیں کریں گے اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کا حق صرف پی ٹی آئی کا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر نے کور کمانڈر پی ٹی ا ئی ملاقات کے نے کہا
پڑھیں:
اسلام آباد حادثہ: جج کے بیٹے کی رہائی کے باوجود کئی سوال برقرار
سینیئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ ایک جج کے 16 سالہ بیٹے کا بنا لائسنس مبینہ طور پر تیز رفتار لینڈ کروزر سے 2 لڑکیوں کو کچل کر ہلاک کردینا اور پھر 5 دن کے اندر ہی لواحقین سے معافی لے کر رہائی پاجانا انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد حادثہ، جج کے کم عمر بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے 2 جوان لڑکیاں جاں بحق
وی نیوز کے پروگرام صحافت اور سیاست میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ اس واقعہ نے معاشرے میں بڑے خوفناک سوالات چھوڑے ہیں۔
ان کے مطابق واقعے کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ 2 بچیوں کی ہلاکت کے بعد محض پانچ دن میں ایک بااثر خاندان کا فرد کیسے رہا ہو گیا؟ اس سے یہ تاثر ملا ہے کہ اشرافیہ کے لیے راستے ہمیشہ صاف رہتے ہیں، جبکہ عام شہریوں کو ایسی کوئی سہولت نہیں ملتی۔
ثاقب بشیر کے مطابق اس کیس نے ٹریفک پولیس، پولیس اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی کارکردگی پر بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کے حساس ترین واقعات میں بھی پولیس فوری طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج، ایف آئی آر اور گرفتاری سے متعلق اپڈیٹ فراہم کرتی ہے مگر اس کیس میں پولیس ترجمان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عام شہری ہوتا تو پولیس کئی سطحوں پر کارروائی کرتی۔
مزید پڑھیے: اسلام آباد حادثہ: ہائیکورٹ جج کی ماورائے عدالت تصفیے کی کوششیں، صحافی اسد ملک کا انکشاف
ثاقب بشیر نے بتایا کہ ٹریفک پولیس نے بھی اس معاملے میں کوئی واضح کارروائی نہیں دکھائی حالانکہ یہ کئی قانونی جرائم پر مشتمل کیس تھا۔
ان کے مطابق یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ اس سے جڑے 6 دیگر قانونی سوالات بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف لواحقین نے معاف کر دیا لیکن دوسری طرف ریاستی اداروں کو بغیر لائسنس، جالی نمبر پلیٹ اور زیرِ عمر ڈرائیونگ جیسے جرائم پر کارروائی کرنی چاہیے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے بعد زخمیوں کو قریبی پولی کلینک کے بجائے دور موجود پمز اسپتال لے جانا بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب موقعے پر پہنچے اور بچے کو اپنی دوسری گاڑی میں گھر بھیج دیا گیا جبکہ پولیس کو گرفتاری ڈالنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔
مزید پڑھیں: کم عمر بچے کی گاڑی چلاتے پرانی ویڈیو وائرل، ’کیا یہ وہی ابوذر ہے جس کی گاڑی سے 2 لڑکیاں جاں بحق ہوئیں؟‘
ثاقب بشیر کے مطابق جب ملزم کو ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا تو عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا، میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور رپورٹرز کی بنائی گئی کچھ ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کروائی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی آرڈر کی کاپی بھی 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود دستیاب نہیں ہو سکی، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔
ثاقب بشیر نے کہا کہ ملزم کا بھائی عدالت سے روتا ہوا نکلا لیکن اندر کیا معاملہ طے ہوا یہ واضح نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ شفافیت کے بغیر ایسے کیسز میں سوالات بڑھتے رہتے ہیں اور یہ عمل نہ صرف جوڈیشری بلکہ پورے انتظامی نظام کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسکوٹی پر سوار لڑکیوں کو کچلنے کا واقعہ، جج کے بیٹے کا جسمانی ریمانڈ منظور
ان کا کہنا تھا کہ حیران کن طور پر حکومت، پولیس، ٹریفک پولیس، جوڈیشری یا کسی بھی ادارے نے اس معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکوٹی سوار لڑکیوں کی ہلاکت جج کے بیٹے کا جرم سینیئر رپورٹر ثاقب بشیر