لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما ہوتا تھا‘ اس دور میں فلم کا ٹکٹ حاصل کرنا شیر کی مونچھ کا بال توڑنے سے مشکل ہوتا تھا‘ سینما کے سامنے چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی جس کے سامنے سیکڑوں لوگ قمیضیں اتار کر ایک دوسرے سے بھڑ رہے ہوتے تھے اور جس کا ہاتھ کھڑکی کے اندر پہنچ جاتا تھا وہ مٹھی کھول دیتا تھا‘ اس میں پانچ یا دس روپے کا چڑمڑ نوٹ ہوتا تھا‘ ٹکٹ کیپر نوٹ لے کر مٹھی میں ٹکٹ داب دیتا تھا اور وہ شخص جیسے تیسے ہاتھ کھینچ کر باہر نکال لیتا تھا‘ وہ اس کے بعد قمیض پہنتا تھا اور فاتح کی طرح سینما ہال میں داخل ہو جاتا تھا‘ انتظامیہ ٹکٹ بلیک بھی کرتی تھی‘ یہ اپنے عزیزوں‘ دوستوں یا ملازموں کو پچاس ساٹھ ٹکٹ دے دیتی تھی اور یہ لوگ ہال کے سامنے کھڑے ہو کر ’’دس کا بیس‘‘ کی سرگوشیاں کرتے رہتے تھے۔
اس کا مطلب ہوتا تھا تم اگر دس روپے کے ٹکٹ کے بیس روپے ادا کردو تو کھڑکی پر ذلیل ہونے کے بجائے آسانی سے ہال میں داخل ہو سکتے ہو‘ صدر آصف علی زرداری پر آج بھی مخالفین ٹکٹ بلیک کا الزام لگاتے ہیں‘ یہ الزام غلط ہے تاہم یہ درست ہے آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کراچی میں بمبینو سینما کے مالک تھے اور یہ اس زمانے میں ایشیا کا سب سے بڑا اور جدید سینما ہوتا تھا‘ آصف علی زرداری حاکم علی زرداری کے اکلوتے صاحب زادے تھے لہٰذا اتنے امیر شخص اور ایشیا کے سب سے بڑے سینما کے مالک کو ٹکٹ بلیک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ الزام بھی دیگر الزامات کی طرح بے بنیاد اور لغو ہے‘ آصف علی زرداری کو بچپن میں اداکاری کا شوق تھا اور انھوں نے1969 میں سالگرہ نام کی فلم میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے کام بھی کیا تھا‘ فلم کا وہ کلپ آج بھی موجود ہے‘ میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔
لاہوکے اس سینما کے سامنے شائقین کا بے انتہا رش ہوتا تھا‘ ایک بار مقامی اخبار کا کوئی رپورٹر اپنے دوست کو فلم دکھانے لے گیا‘ وہ جیسے تیسے کھڑکی تک پہنچا‘ اس زمانے میں صحافیوں کو اخبار کا کارڈ دکھا کر ٹکٹ میں رعایت ملتی تھی‘ صحافی نے اپنا کارڈ دکھایا لیکن ٹکٹ کیپر نے اسے لفٹ نہیں کرائی‘‘ صحافی کی اس سے توں توں میں میں ہو گئی یہاں تک کہ صحافی کو غصہ آ گیا‘ وہ کھڑکی سے پیچھے ہٹا اور زور زور سے چیخنے لگا ’’تم نے قائداعظم کو گالی کیوں دی؟‘‘ لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پہلے سے ناراض تھے۔
انھوں نے قائداعظم کا نام سنا تو فوراً اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور اس سے گستاخی کے بارے میں پوچھنے لگے‘ صحافی نے چلاتے ہوئے کہا‘ اس نے میرا نوٹ نیچے پھینک کر کہا‘ اٹھاؤ اپنے قائداعظم کو اور دفع ہو جاؤ‘ میں قائداعظم کی یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا‘ لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور سینما کی انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی‘ انتظامیہ کے غنڈوں نے انھیں دبانے اور دھمکانے کی کوشش کی جس سے معاملہ مزید بگڑ گیا اور لوگوں نے سینما پر حملہ کر دیا‘ہجوم نے آدھ گھنٹے بعد سینما کو آگ لگا دی اور یوں ایک ٹکٹ اور قائداعظم کے حوالے نے لاکھوں روپے (اس زمانے میں یہ رقم کروڑوں کے برابر ہوتی تھی) کے سینما کو جلا کر راکھ کر دیا۔
وہ پرانا زمانہ تھا‘ قائداعظم کا نام اس دور میں مقدس ہوتا تھا‘لوگ قائد سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کوئی بھی شخص ان کا حوالہ دے کر کسی کو بھی گستاخ اور قابل گردن زنی قرار دے سکتا تھا لیکن پھر وقت بدلہ‘ افغان وار شروع ہوئی اور قائداعظم اور بانیان پاکستان پیچھے چلے گئے اور مذہب بطور ہتھیار استعمال ہونے لگا‘ قائداعظم کا پاکستان کس قدر کھلا ڈھلا اور برداشت سے لبالب تھا آپ اس کا اندازہ چند حقائق سے لگا لیجیے‘ آل انڈیا مسلم لیگ سر آغا خان (سوم) کے مشوروں پر بنائی گئی تھی اور یہ اپنے انتقال 1957 تک اس کے تاحیات صدر رہے تھے‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت بریلوی سنی تھی لیکن مسلم لیگ کے 80فیصد لیڈر اہل تشیع تھے۔
قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ راجہ صاحب محمودہ آباد اور سردار عبدالرب نشتر کے عقائد ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن کسی بریلوی سنی کو ان کے کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان تھے‘ وہ ڈکلیئرڈ قادیانی تھے لیکن پرفارمنس میں آج تک ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا ’’ مسئلہ فلسطین کا حل صرف فلسطینی ریاست ہے‘‘ اقوام متحدہ میں یہ آواز سب سے پہلے سر ظفر اللہ خان نے لگائی تھی اور یہ پاکستانی ڈیسک سے آئی تھی‘ عربوں کی آزادی میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا‘ پاک فوج کے پہلے دو چیف جنرل فرینک میسوری اور جنرل ڈگلس گریسی انگریز اور کرسچین تھے‘ پاکستان ائیرفورس کے پہلے چار چیف عیسائی اور گورے تھے‘ ائیرمارشل اصغر خان 1957 میں ائیرفورس کے پہلے پاکستانی چیف بنے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں پاک فوج ہو یا پاک فضائیہ اس کی بنیاد کرسچین گوروں نے رکھی تھی۔
پاکستان کے لیے قانون بنانے کا فریضہ ہندو جوگیندر ناتھ منڈل نے نبھایا تھا‘ یہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون تھے‘ پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس اے آر کارنیلیس تھے‘ یہ 1960سے 1968 تک آٹھ سال چیف جسٹس رہے‘ یہ فلے ٹیز ہوٹل میں رہتے تھے‘ آپ کو پاکستان کے پہلے تین مسلمان چیف جسٹس کے نام یاد نہیں ہوں گے لیکن جسٹس کارنیلیس کا نام آج بھی فلے ٹیز ہوٹل کے اس کمرے کے دروازے پرلکھا ہے جس میں وہ رہائش پذیر رہے تھے‘ پاکستان میں سپارکو کی بنیاد پولش پائلٹ جے ایم تورووچ نے رکھی تھی‘ وہ کراچی میں رہا اور ونگ کمانڈر‘ گروپ کیپٹن‘ ائیرکموڈور اور اسسٹنٹ چیف آف ائیراسٹاف کی حیثیت سے پاک فضائیہ میں خدمات سرانجام دیتا رہا‘ اس کا نک نیم ’’ولادی‘‘ تھا‘وہ 1980 میں روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوا اور کراچی میں مدفون ہوا۔
اس کی بیوی بھی پوری زندگی پاکستان میں رہی‘ اس کے انتقال کے برسوں بعد پولینڈ کی خفیہ سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا پولش خفیہ ایجنسی نے اسے پاکستان کے خلاف جاسوس بنانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہ صرف انکار کر دیا تھا بلکہ وہ اس آفر کے بعد پولینڈ نہیں گیاتھا‘ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا یہ سب کچھ آج ممکن ہے؟ جی نہیں ‘ یہ صرف قائداعظم کے اس پاکستان میں ممکن تھاجس میں لوگوں کو مذہب‘ عقائد اور مسلک کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا تھا ان کا خلوص‘ نیت اور مہارت دیکھی جاتی تھی لہٰذا اگر کوئی اس زمانے میں سینما کے سامنے کھڑے ہو کرقائداعظم کے نام پر جھوٹ بھی بول دیتا تھا تو لوگ سینما جلا دیتے تھے لیکن پھر پاکستان بدل گیا اور یہاں یونیورسٹی آف نبراسکا کا تیار کردہ دینیاتی نصاب آ گیا‘ ایک ایسا مذہبی نصاب جس میں ہر دوسرا فرقہ کافر ہے اور مسلمان‘ مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں‘جس میں لوگ نماز کے دوران ہاتھ کہاں باندھتے ہیں جیسے تخلیقی اور آفاقی مسائل پر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں۔
آپ یونیورسٹی آف نبراسکا کے اسکالرز کا کمال دیکھیے‘ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی9اکتوبرکو بھارت جاتے ہیں تو بھارتی حکومت انھیں دارالعلوم دیوبند کا وزٹ کراتی ہے‘ بھارتی حکومت کو کس نے بتایا مسلمان فرقوں میں تقسیم ہیں اور طالبان دیوبندی ہیں‘ یہ سب 1980کی دہائی اور یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کا کمال تھا لہٰذا ہم اگر آج پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ دو حصوں میں تقسیم ملے گی۔
قائداعظم کا پاکستان اور جنرل ضیاء الحق کا پاکستان‘ آپ اگر میری تھوڑی سی جسارت برداشت کر لیں تو پاکستان میں اسلامی سیاست کے بھی دو ورژن ہیں‘ قائداعظم کا اسلامک ورژن اور جنرل ضیاء الحق کا اسلامک ورژن‘ قائداعظم کے ورژن میں خلوص‘ میرٹ اور سچائی تھی جب کہ جنرل ضیاء الحق کے ورژن نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا جو منافقت‘ نعرے بازی اور جھوٹ کے ستونوں پر کھڑا ہے اور اس پاکستان کے لیے قائداعظم غیر ضروری اور غیر متعلقہ ہو چکے ہیں‘یہ مسنگ اور آؤٹ آف سلیبس ہیں اگر میری بات غلط ہے تو آپ پورے ملک میں قائداعظم کی کوئی ایک عادت یا کوئی ایک روایت دکھا دیجیے جس پر عمل ہو رہا ہو‘ قائداعظم کے ساتھ ہمارے صرف دو تعلق رہ گئے ہیں‘ ان کی تصویر سرکاری دفتروں کی دیوار پر لگتی ہے یا پھر یہ نوٹ پر چھاپی جاتی ہے‘ آپ کو اگر قائد اس کے علاوہ کسی جگہ دکھائی دیں تو پلیز مجھے ضرور اطلاع کیجیے گا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اصل پاکستان افغان وار میں ختم ہو گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ایسے پاکستان نے جنم لے لیا تھا جس کی بنیاد یونیورسٹی آف نبراسکا کے ادارے’’سینٹر فارافغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘نے رکھی تھی‘ نبراسکا کے اس کمال کے نتیجے میں 2025 میں دہشت گردی کے چار ہزار تین سو 73 واقعات پیش آئے جن میں 1073 لوگ شہید ہوئے جن میں فوج کے 584 جوان اور افسر ‘ باقی اداروں کے 133 اور 356 سویلین ہیں‘ فوج دہشت گردوں کے خلاف روزانہ 208 آپریشن کرتی ہے‘ سال میں کل 62 ہزار ایک سو 13 آپریشن ہوئے‘ ان میں 1667 دہشت گرد مارے گئے۔
ان میں 128 افغان شہری تھے اور یہ تمام حملے (4373) افغانستان سے کیے گئے تھے اور ان میں طالبان حکومت براہ راست ملوث تھی لیکن طالبان اس کے باوجود ہمارے بھائی‘ مجاہد اور اسلام کے سپاہی ہیں‘ پشاور میں30 جنوری 2023 کو پولیس لین کی مسجد پر حملہ ہوا جس میں 93پولیس اہلکار اور افسرنماز پڑھتے ہوئے شہید ہو گئے لیکن مارنے والے مجاہد اورمرنے والے اہلکاروں کوطالبان کیا کہتے ہیں، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ‘ یہ اسلام کا کون سا ورژن ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر قائداعظم کا اسلام کیا تھا؟اور اگر قائداعظم غلط تھے تو پھر ہم ان کی جگہ ملاعمر یا ملاہیبت اللہ کی تصویر کیوں نہیں لگا دیتے تاکہ ہم کم از کم آئیڈیالوجی کے بحران سے تو باہر آ جائیں‘ہم کتنے باکمال لوگ ہیں‘ ہم لاکھ لاشیں اٹھانے کے بعد بھی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ واہ کیا بات ہے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونیورسٹی آف نبراسکا آصف علی زرداری قائداعظم کا قائداعظم کے پاکستان میں پاکستان کے کی بنیاد ہوتا تھا کے سامنے سینما کے کے پہلے تھے اور تھا اور اور یہ کے لیے اور اس
پڑھیں:
پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمارا زمانہ فتنۂ الفاظ کا زمانہ ہے، چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد انفرادی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک الفاظ کے ذریعے ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں کہیں صرف الفاظ کفایت کررہے ہیں، کہیں اصطلاحیں اور کہیں نعرے… لیکن ان سب کی بنیاد الفاظ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں چنگیز خان انسانی تاریخ کی بدترین شخصیت تھا، اس نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا۔ کہنے والے غلط نہیں کہتے۔ چنگیز خان واقعتاً ایک شقی القلب انسان تھا، لیکن اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ الفاظ اور اصطلاحوں سے کھیلنے اور ان کے ذریعے اپنی شقاوت کو خوش نما بنانے والا شخص نہیں تھا۔ چنگیز خان نے کبھی نہیں کہاکہ وہ انسانی آزادی کا احترام کرتا ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جمہوریت کا علَم بردار ہے۔ اس کو کبھی یہ کہتے نہیں سناگیا کہ میری قومی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن ساری مغربی دنیا بالخصوص امریکہ خود کو انسانی آزادی کا محافظ، انسانی حقوق کا علَم بردار اور جمہوریت کا چیمپئن بھی کہتا ہے اور دوسری قوموں کے خلاف سازشیں بھی کرتا ہے۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ سے بی بی سی ورلڈ پر ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ عراق پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے وہاں دس سال میں 10لاکھ افراد دوائوں اور غذا کی قلت سے ہلاک ہوگئے، ان افراد میں 5لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔ البرائٹ نے ایک لمحے توقف کیا اور پھر پورے وثوق کے ساتھ فرمایا:
“It is acceptable and worth it”
یعنی دس لاکھ معصوم لوگوں کی ہلاکتیں ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں اور اس پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں، یہاں تک کہ ہم اسے گھاٹے کا سودا بھی نہیں سمجھتے۔
دیکھا جائے تو ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ ایک بھاری بھرکم عنوان ہے، لیکن ان تعلقات کے پردے میں سازشوں کی ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ الم ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے دو ملکوں کے تعلقات کو آقا اور غلام کے تعلق میں ڈھال دیا ہے، اور نہ صرف یہ، بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ کیا ہے کہ انہوں نے غلامی کے اس تجربے کو ’’مدلل‘‘ بنانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کو پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کہنے کا کیا جواز ہے؟
جنرل ایوب خان نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی خفیہ دستاویزات سامنے آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ سیاست دان ملک کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب کے ان رابطوں سے ظاہر تھا کہ جرنیل ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اور وہ 1958ء میں ان سازشوں کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکہ جمہوریت کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے اور اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے کام کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود اُس نے جنرل ایوب کو ان کے عزائم سے باز رکھنے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا اور انہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ جنرل ایوب نے پاکستان کے جن سول حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کیا تھا وہ کمیونسٹ یا امریکہ مخالف نہ تھے، وہ سب کے سب امریکہ کے حامی بلکہ ’’امریکہ پرست‘‘ تھے، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان میں جمہوریت کی بقا اور اسے فوجی آمریت سے محفوظ بنانے کے لیے کچھ نہ کیا، حالانکہ 1958ء سرد جنگ کا زمانہ تھا اور کمیونزم کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ پاکستان جیسے بڑے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرے۔ لیکن امریکہ نے جمہوریت کے خلاف سازش میں جنرل ایوب کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن یہ ساتھ خود جنرل ایوب کے لیے اتنا شرمناک بنا کہ اُن کی خودنوشت کے عنوان تک میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں، اس کے غلام نہیں۔
پاکستان کے خلاف امریکہ کی ایک اور بڑی سازش 1962ء میں سامنے آئی۔ اس سال چین بھارت جنگ ہوئی۔ اس جنگ کا دائرہ وسیع تھا اور چینی قیادت کو معلوم تھا کہ بھارت اس جنگ میں اپنی پوری جنگی قوت جھونکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ چین نے پاکستان سے کہاکہ وہ موقع سے فائدہ اٹھائے۔ کشمیر تقسیم برصغیر کے فارمولے کی رو سے پاکستان کا حصہ ہے، چنانچہ پاکستان طاقت استعمال کرے اور کشمیر پر قبضہ کرلے۔ مگر یہ بات امریکہ کو معلوم ہوگئی اور اُس نے پاکستان کے حکمرانوں سے کہاکہ وہ بھارت کے خلاف کارروائی سے گریز کریں۔ امریکہ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ اگر وہ اس موقع پر بھارت کے خلاف اقدام سے باز رہا تو چین بھارت جنگ کے بعد امریکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرادے گا۔ لیکن چین بھارت جنگ ختم ہوگئی اور امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جب پاکستان کو مذکورہ یقین دہانی کرا رہا تھا تو پاکستان امریکہ، اور بھارت سوویت یونین کے حلقۂ اثر میں تھا اور پنڈت نہرو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ لیکن امریکہ نے اس کے باوجود دوست کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور اپنے دشمن کے دوست کو تقویت فراہم کی۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ کی سازشوں کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان کا بحران پاکستان کا داخلی مسئلہ تھا اور بھارت کو اس بحران میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ لیکن بھارت نے مداخلت کی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس مرحلے پر پاکستان نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی جسے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ امریکہ پاکستان کی مدد صرف اس صورت میں کرسکتا ہے جب اسے کسی کمیونسٹ ملک سے خطرہ لاحق ہو۔ لیکن جب پاکستان کا اصرار بڑھا تو امریکہ نے اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے روانہ کرنے کا اعلان کیا، لیکن پاکستان ٹوٹ گیا اور امریکہ کا بحری بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بیڑا کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن امریکہ کا اس جنگ میں اس سے بھی بھیانک کردار اُس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے برادر اسلامی ملک اردن سے امریکی ساختہ ایف 104 طیارے طلب کیے۔ اس درخواست کے جواب میں اردن کے شاہ حسین نے 5 دسمبر 1971ء کو امریکہ کو ایک خط لکھا جس میں پاکستان کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اردن کو ایف 104 طیارے پاکستان کو فراہم کرنے کی اجازت دے۔ لیکن امریکہ نے اردن کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ حال ہی میں سامنے آنے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل یحییٰ نے اس صورتِ حال میں امریکہ سے کہاکہ اگر وہ خود پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا تو اردن کو ہی اس کی مدد کرنے دے، لیکن امریکہ نے جنرل یحییٰ کی بات کو بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا، یہاں تک کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ 1971ء میں پاکستان امریکہ کا قریب ترین اتحادی تھا۔ وہ سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا۔ بلاشبہ بھارت کمیونسٹ ملک نہیں تھا لیکن وہ کمیونزم کی سب سے بڑی علامت سوویت یونین پر انحصار کرنے والا ملک تھا اور اس کی کمزوری خطے میں سوویت یونین کی کمزوری اور اس کی قوت سوویت یونین کی قوت تھی، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں نہ خود پاکستان کی مدد کی اور نہ اردن کو اس کی مدد کرنے دی۔ امریکہ کے اس طرزِعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ قوانین کی بہت زیادہ پابندی کرنے والا ملک ہے، حالانکہ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ نے درجنوں جنگیں ایجاد کی ہیں، درجنوں حکومتوں کے تختے الٹے ہیں، لاکھوں لوگوں کو کسی جواز کے بغیر قتل کیا ہے۔
امریکہ پاکستان کا کتنا ’’گہرا دوست‘‘ اور قوانین کا کتنا زیادہ پابند ہے اس کا اندازہ 1980ء کی دہائی میں ہونے والی ایف 16 طیاروں کی خریداری کے معاملے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں امریکہ سے ایف 16 طیارے خریدنے کے لیے ایک تجارتی سمجھوتہ کیا اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پیشگی ادا کی، لیکن امریکہ نے سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیارے دینے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پریسلر ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے چنانچہ امریکہ پاکستان کو ایف 16 طیارے نہیں دے سکتا۔ یہ زیادتی کی انتہا تھی، لیکن امریکہ نے اس انتہا پر بھی قناعت نہ کی، اُس نے نہ صرف یہ کہ طیارے نہیں دیئے بلکہ پاکستان کی رقم ادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ تجارتی سمجھوتوں کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی ملک نے نہ چیز دی ہو نہ خریدار کی رقم لوٹائی ہو۔ امریکہ پاکستان کی یہ رقم بارہ سال تک دبائے بیٹھا رہا اور پھر بالآخر اُس نے اس کے عوض پاکستان کو کھانے کا تیل فراہم کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہی دوستی ہے تو دشمنی کس کو کہتے ہیں؟ لیکن امریکہ کی دشمنی اور سازشوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوگیا۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں پاکستان کے پانچ ہزار فوجی اور تیس ہزار سے زیادہ عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان کو 10 برسوں میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، لیکن امریکہ کے لیے سب کچھ گنوا دینے والوں کے ہاتھ میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے سانحات آئے جن میں امریکہ نے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری ہی کو نہیں امریکہ کے لیے قربانیاں دینے والی فوج کو بھی براہِ راست نشانہ بنایا۔ ایسا کرکے امریکہ نے یہ بتایا کہ وہ پاک فوج کو اپنی اتحادی نہیں بلکہ کرائے کی فوج سمجھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کیوں بن گئی ہے؟
انسانی تاریخ میں باطل قوتوں کی مزاحمت دو ہی بنیادوں پر بروئے کار آئی ہے: ایک ایمان اور دوسری خود تکریمی یا Self Respect۔ پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کا ایمان بھی کمزور ہے اور ان کو خود تکریمی یا Self Respect بھی چھوکر نہیں گزری۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ کو ایک ملک نہیں نعوذ باللہ خدا سمجھتے ہیں۔ انسان کا ایمان مضبوط ہو تو وہ خدا پر بھروسا کرتا ہے اور ہر قیمت پر حق کی گواہی دیتا ہے، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے امریکہ کے ساتھ پچاس سالہ تعلق میں کبھی حق کی گواہی دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ جہاں تک انسان کی خود تکریمی کا تعلق ہے تو انسان اپنی عزت اُسی وقت کرتا ہے جب وہ خود کو انسان سمجھے اور اُس کی شخصیت کی جڑیں اُس کے معاشرے اور اُس کی تاریخ اور تہذیب میں پیوست ہوں۔ مگر ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کا تصورِ ذات اتنا پست ہے کہ انہیں عالمی سیاست کا شودر بھی نہیں کہا جاسکتا۔
جہاں تک ان حکمرانوں کی شخصیت کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں اپنے معاشرے، تاریخ اور تہذیب کے بجائے سیاسی اور معاشی مفادات میں پیوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حکمران اپنی قوم کو بار بار فتح کرتے ہیں اور دشمنوں کے سامنے بار بار ہتھیار ڈالتے ہیں۔