مدینہ سے مکہ جانے والے بھارتی عمرہ زائرین کی بس ٹینکر سے ٹکرا گئی، ہلاکتوں کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
سعودی عرب میں پیش آئے ایک المناک واقعے میں 40 سے زائد مسافروں کو لے کر مکہ سے مدینہ جانے والی بس ڈیزل کے ٹینکر سے ٹکرا گئی ہے جس کے بعد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق بس میں جانے کے والے عمرہ زائرین بھارت سے تعلق رکھنے والے ہیں جس میں سے کئی مسافر حیدرآباد سے تھے۔
ہنگامی ٹیمیں اور مقامی حکام امدادی کارروائیوں کے لیے موقع پر پہنچ گئے ہیں جبکہ اب بھی ہلاکتوں کی صحیح تعداد کی تصدیق اور متاثرین کی شناخت کی جارہی ہے۔
واقعے پر اپڈیٹ, اقدامات اور امدادی کارروائیوں کی تفصیلات سے باخبر رہنے کے لیے سیکرٹریٹ میں ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔ یہ متاثرین کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو بھی معلومات فراہم کرے گا۔
مزید برآں قونصلیٹ جنرل آف انڈیا، جدہ نے بھی حادثے کے بعد ایک ہیلپ لائن قائم کی ہے۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں قونصلیٹ جنرل آف انڈیا، جدہ نے کہا کہ مدینہ، سعودی عرب کے قریب ایک المناک بس حادثے کے پیش نظر، جس میں بھارتی عمرہ زائرین شامل تھے، ہندوستان کے قونصلیٹ جنرل میں ایک 24x7 کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔
ہیلپ لائن رابطے کی تفصیلات یہ ہیں: 8002440003، 8002440003، 4102192693، 4003، 0126614276، 0556122301 (واٹس ایپ)۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا ملکی دفاعی صنعت پر عدم اعتماد اور برہمی کا اظہار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے دفاعی صنعت کی کارکردگی پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدوں کو وقت پر مکمل نہ کرنا ملکی صنعتی صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے۔
ایک تقریب سے خطاب میں جنرل انیل چوہان کا کہنا تھا کہ آپ معاہدہ تو کر لیتے ہیں مگر وقت پر ڈیلیوری نہیں دیتے، جو ہماری مجموعی صلاحیت کو کمزور کرتا ہے۔ ان کے مطابق دفاعی پیداوار کے معاملے میں مقامی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ضروری ہے کیونکہ یہ براہِ راست قومی سلامتی سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ منافع کمانے کی دوڑ میں کچھ حب الوطنی کا پہلو بھی شامل ہو۔ دفاعی اصلاحات یکطرفہ نہیں ہوسکتیں، اس کے لیے صنعت کو اپنی اصل استعداد کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔
جنرل انیل چوہان نے مزید کہا کہ متعدد کمپنیاں اپنی مصنوعات کو 70 فیصد مقامی قرار دیتی ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، اور قیمت کے لحاظ سے بھی ان کی مصنوعات بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگی پڑتی ہیں۔