نظامِ پاکستان: کمزوریاں، آئینی تبدیلیاں اور اصلاحات
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے جغرافیائی حیثیت، نوجوان آبادی، انسانی وسائل، اور خطّے میں اہم اسٹرٹیجک مقام جیسی نعمتیں عطا ہیں، مگر ان مواقع سے فائدہ نہ اٹھا پانے کی بنیادی وجہ نظامی کمزوریاں اور پالیسی کی ناپائیداری ہے۔ معاشی زوال، سیاسی عدم استحکام، ٹیکنالوجی میں پسماندگی، ماحولیاتی خطرات اور بین الاقوامی سطح پر متزلزل تعلقات، یہ سب ایسے مسائل ہیں جنہوں نے ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا ہے۔ اسی پس ِ منظر میں ستائیسویں آئینی ترمیم ایک بڑے نظامی موڑ کے طور پر سامنے آئی ہے، جس نے ریاستی اداروں کے توازن اور طاقت کی ترتیب کے بارے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
2024-25 کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو تقریباً 2.
پاکستان دنیا کے اْن ملکوں میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ حالیہ اور 2022ء کے تباہ کن سیلاب نے یہ واضح کیا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا ہمارا نظام کتنا کمزور ہے۔ پانی، زرعی پیداوار، جنگلات، ماحولیاتی آلودگی اور ہنگامی منصوبہ بندی جیسے شعبوں میں ریاست سنجیدگی سے سرمایہ کاری نہ کرسکی۔ چین اور امریکا جیسے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات میں عدم استحکام، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بار بار مذاکرات، اور امداد پر انحصار، یہ سب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں داخلی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ریاست عالمی شراکت داری کو ساختی بنیادوں پر مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان داخلی و خارجی مسائل کے بیچ 27 ویں آئینی ترمیم نے ریاستی اداروں کے اندر طاقت کی ازسرِنو تقسیم کی کوشش کی ہے۔ یہ ترمیم کئی حوالوں سے تاریخی، متنازع اور دور رس اثرات رکھتی ہے۔
ترمیم کے بعد ایک نئی وفاقی آئینی عدالت تشکیل دی گئی ہے جو آئین کی تشریح، آئینی تنازعات اور متعلقہ معاملات کا فیصلہ کرے گی۔ اس عدالت کی موجودگی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے کردار پر نئے سوالات کھڑے کرتی ہے۔ ناقدین کے مطابق اس سے عدالتی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے، جبکہ حامیوں کا مؤقف ہے کہ اس سے آئینی معاملات کا بوجھ کم ہوگا اور فیصلہ سازی زیادہ واضح ہو جائے گی۔ ترمیم کے تحت چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا خاتمہ، نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کا قیام، اور پانچ ستارہ عہدوں کی مستقل آئینی حیثیت، یہ سب اقدامات پاکستان کے دفاعی ڈھانچے کو ایک نئے ماڈل میں ڈھالنے کے مترادف ہیں۔ مزید برآں، اعلیٰ عسکری قیادت کو قانونی استثنیٰ بھی فراہم کیا گیا ہے، جس پر کئی حلقوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ ترمیم میں یہ وضح کیا گیا ہے کہ کوئی عدالت آئینی انحراف یا ماورائے آئین اقدام کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔ بظاہر یہ اقدام آئین کے تحفظ کے لیے ہے، مگر ناقدین کے مطابق اس میں کچھ تکنیکی پہلو ایسے بھی شامل ہیں جو مستقبل میں آئینی تنازعات کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
اپوزیشن، وکلا تنظیموں اور آئینی ماہرین نے اس ترمیم کو پارلیمنٹ کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم دفاعی نظم و ضبط کو جدید بنانے کے لیے ضروری تھی، جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ طاقت کے ارتکاز کی طرف ایک نیا دروازہ کھول رہی ہے۔ پاکستان کو اگر حقیقی معنوں میں مستحکم اور ترقی یافتہ ریاست بننا ہے تو چند بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات، برآمدات میں اضافہ، ملکی صنعت کا احیاء، تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول کی بہتری یہ معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔ پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیکنالوجی اور جدید صنعتی ماڈلز پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، حکومت اور فوج کے درمیان واضح اور شفاف حدود، یہی کسی بھی مضبوط جمہوری نظام کی اساس ہے۔ پانی، زراعت، جنگلات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ریاست کو امداد پر انحصار کم کر کے تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کو محور بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے نظام کی مکمل بحالی، وسیع تر اصلاحات، سیاسی اتفاقِ رائے اور ادارہ جاتی توازن لازم ہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم نے جہاں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، وہیں یہ بھی یاد دلایا ہے کہ پاکستان میں طاقت اور نظام کے ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دینا ایک حساس اور طویل عمل ہے۔ اگر اصلاحات نیت، شفافیت اور قومی مفاد کے ساتھ کی جائیں تو پاکستان اپنی حقیقی صلاحیت کے مطابق ترقی کے راستے پر آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری اداروں کے کے لیے
پڑھیں:
کیا نظام بدل گیا ہے؟
27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ملک کا نظام حکومت مضبوط ہوا یا کمزور۔ آئینی ترامیم حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط اور نظام کو استحکام دینے کے لیے کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم کبھی اپوزیشن نہیں کرتی۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پا س سادہ اکثریت ہو تو آپ حکومت بنا لیتے ہیں۔ اس لیے دو تہائی کے ساتھ اپوزیشن میں ہونا نا ممکن ہے۔ اس لیے آئین میں ترمیم کرنا اور قانون سازی کرنا بنیادی طو رپر حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ حکومت چاہے تو اپوزیشن کو شامل کر سکتی ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن زیادہ مواقع پر حکومت نے خود ہی آئین سازی اور قانون سازی کی ہے۔
قانون سازی آسان کام ہے۔ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ حکومت سادہ اکثریت پر ہی بنتی ہے۔ اگر مخلوط حکومت ہو تو قانون سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کو اتحادیوں کو منانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خود سادہ اکثریت موجود ہو تو پھر قانون سازی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آئین میں ترمیم کے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنا فطری نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن اس سے دور ہی رہتی ہے۔
اب موجود ترامیم کو دیکھیں۔ دوستوں کی رائے کہ اس ترمیم سے ملک میں نظام حکومت ہی بدل دیا گیا ہے۔ آئین کی بنیادی شکل ہی بدل دی گئی ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ملک میں آئینی معاملات دیکھنے کے لیے ایک الگ آئینی عدالت کے قیام سے ملک کے آئین کی شکل ہی بدل گئی ہے؟ کیا آئینی عدالت کے قیام سے نظام حکومت کی بنیادی شکل ہی بدل گئی ہے؟ آئینی عدالت میں بھی جج ہی لگائے گئے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔
عدلیہ یہ کام ججز کے ذریعے کرتی ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے بعد ملک کے آئین کی تشریح کاکام عدلیہ ہی کرے گا۔ جج ہی یہ کام کریں گے۔ نہ تو حکومت نے آئین کی تشریح کے راستے بند کیے ہیں۔ نہ ہی یہ کام ججز سے لے کر کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو تب ہوتا جب آئین کی تشریح کا کام عدلیہ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ میں نئی عدالتوں کا قیام کوئی نیا کام نہیں ہے۔
کیا آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، اگر کوئی خاص جج ہی آئینی کیس سنیں گے تو عدلیہ آزاد ہے، اگر وہ کیس نہ سنیں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سب جج برابرہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جج کا نام سن کر ہمیں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ معاشرہ میں سیاسی تقسیم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن نظام انصاف میں سیاسی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں۔ نظام انصاف کو بہر حال غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوناچاہیے۔ اس لیے آج تنازعہ یہ نظر آرہا ہے کہ اب مخصوص جج آئینی معاملات کیوں نہیں سن سکیں گے۔ کیا آئینی عدالت الگ بننے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ تو اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ عدلیہ میں کام کی تقسیم کی گئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں باری ہی نہیں آرہی۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات زیر التو ہیں۔ ججز آئینی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی۔ آج کی ترمیم ان مسائل کی وجہ سے بھی کی گئی ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عدلیہ کا سیاسی ایجنڈا نظر نہیں آرہا تھا؟ کیا عدلیہ کے چند ججز کی خاص سیاسی سوچ پوری عدلیہ پر غالب نظر ہوتی نظر نہیں آرہی تھی؟ معاملات غیرجانبدار نہیں رہے تھے۔
دوسرا مسئلہ ججز کے تبادلے کا ہے۔ کیا جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے سے عدلیہ کی غیر جانبد اری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ کیا منطق ہے کہ اگر جج صاحب ایک ہا ئی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ چلے جائیں گے تو ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔کیس تو ملک کے عام آدمی کا سننا ہے۔ انصاف تو عام آدمی کو دینا ہے۔ اب عام آدمی کا تعلق کس صوبے سے ہے، یہ کیوں اہم ہے۔ ایک ہائی کورٹ میں ہی جج کے فرائض دینا ہی کیوں عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ تبادلہ ایک روٹین کا عمل ہے۔ فوج کے بڑے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔
افسر شاہی میں تبادلے ہوتے ہیں۔ تبادلے کو انتقامی کارروائی کب سے سمجھا جانے لگا ہے، خاص جگہ پر فرائض دینے سے آپ آزاد ہیں۔ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاص کیس سنیں گے تو آزاد ہیں۔ ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاس بنچ میں ہونگے تو آزاد ہیں ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ یہ منطق کوئی قابل فہم نہیں ہے۔ ایک تبادلے کے اختیار سے نہ تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی ملک میں عدالتی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ وہی نظام ہے۔ پھر جج کے تبادلے کا نظام اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں موجود تھا۔ دوبارہ آگیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب ججز کے استعفوں کی بھی بات کر لیں۔ ابھی تک استعفے کم آئے ہیں۔ توقع سے کم آئے ہیں۔ جو آئے ہیں ان کی وجوہات الگ ہیں۔ وہ صرف 27ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں آئے ہیں۔
اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان ججز کی رائے ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ ان کے فیصلے ان کی سوچ کے عکا س رہے ہیں۔ اب ان کے استفعوں کو بھی ان کی اسی سوچ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اور استعفیٰ آئیں گے؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نہیں آئیں گے۔
عام رائے ہے کہ آئیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ استعفوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ زیادہ استعفیٰ آئیں۔ اس لیے معاملا ت رک گئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ورنہ استعفے تو اکٹھے ہی آنے چاہیے تھے۔ ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ کتنے استعفے آئیں تو بات بن جائے گی۔ میں کہتا ہوں اگر استعفوں کا عدلیہ کے تناظر میں دیکھنا ہے تو سب کو دینے ہوںگے ورنہ سیاسی تقسیم کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ہم خیال ججز کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ابھی تک جتنے آئے ہیں، وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔ اسی لیے کسی تحریک کا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا۔ بات سمجھیں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں کہ چند استعفوں کے جھانسے میں آجائیں گے۔