اسموگ کے خاتمے کے لیے گرین اسٹیکر کے بغیر گاڑیاں سڑکوں پر نہیں چل سکیں گی
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
اسموگ کے خاتمے کے لیے ادارہ تحفظِ ماحولیات نے فیصلہ کیا ہے کہ گرین اسٹیکر کے بغیر گاڑیاں اب سڑکوں پر نہیں چل سکیں گی۔
پنجاب بھر میں ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر صوبائی ادارہ تحفظِ ماحولیات (ای پی اے پنجاب) نے گاڑیوں کے اخراج (ایمیشن) کے معائنے کو لازمی قرار دیتے ہوئے سخت کریک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعلیٰ پنجاب ’کوپ کانفرنس‘ میں اسموگ پر بھارت سے آلودگی کا معاملہ اٹھائیں گی
ای پی اے کے ترجمان ساجد بشیر کے مطابق 15 نومبر 2025 کے بعد گرین اسٹیکر کے بغیر کوئی بھی گاڑی موٹروے یا شہروں کے داخلی راستوں پر داخل نہیں ہو سکے گی۔
اس اقدام کا مقصد دھواں اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کو روکنا ہے، جو صوبے کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
پیڈ وہیکل ایمیشن ٹیسٹنگ کا آغاز
ترجمان کے مطابق ای پی اے پنجاب نے پیڈ وہیکل ایمیشن ٹیسٹنگ (وی ای ٹی) کا سرکاری آغاز کر دیا ہے۔ اب سے گاڑیوں کے اخراج ٹیسٹ کی فیس لازمی طور پر وصول کی جا رہی ہے۔
ادارے نے اخراج ٹیسٹ کی فیسوں کا نیا اور حتمی شیڈول جاری کر دیا ہے، جو گاڑیوں کی قسم اور انجن کی صلاحیت (سی سی) کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔
تمام ادائیگیاں صرف ای پے سسٹم کے ذریعے ہوں گی، جبکہ نقد ادائیگی کو مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ بغیر ای پے تصدیق کے کوئی گاڑی ٹیسٹ کے لیے قبول نہیں کی جائے گی۔
ای پی اے کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق موٹر سائیکل 100 روپے، رکشہ 300 روپے، 1000 سی سی تک کی کاریں 500 روپے، 1000 سے 1500 سی سی کاریں 800 روپے، 1500 سے 2500 سی سی گاڑیاں 1000 روپے، 2500 سے 4500 سی سی گاڑیاں 1500 روپے، جبکہ 4500 سی سی سے بڑی گاڑیاں 2000 روپے فیس ادا کریں گی۔
ترجمان ساجد بشیر نے مزید بتایا کہ تمام ٹیسٹنگ اسٹیشنز پر فیسوں اور ادائیگی کے طریقۂ کار سے متعلق معلومات نمایاں طور پر آویزاں کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں تاکہ شہریوں کو کوئی الجھن نہ ہو۔
افسران کے لیے نئی ہدایات
ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ہر افسر کو مخصوص آئی ڈی جاری کی جائے گی، اور وہ اپنی آئی ڈی کے استعمال کا ذاتی طور پر ذمہ دار ہوگا۔ ہدایات پر عمل نہ کرنے والے افسران کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے گی، جو برطرفی تک جا سکتی ہے۔
کمرشل گاڑیوں پر پابندی
کمرشل گاڑیوں کے لیے بھی سخت ضابطے نافذ کیے جا رہے ہیں۔ گرین اسٹیکر کے بغیر کمرشل گاڑیاں لاہور سمیت دیگر شہروں میں داخل نہیں ہو سکیں گی۔
یہ پابندی خاص طور پر ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرکوں اور دیگر کمرشل وہیکلز پر ہوگی، کیونکہ بڑی گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے سموگ پیدا ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب پولیس کا اسموگ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، 24 گھنٹوں میں 28 مقدمات، 396 افراد پر جرمانے
ای پی اے پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں فضائی آلودگی کی سطح عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان، سیالکوٹ اور راولپنڈی جیسے شہروں میں سموگ کا مسئلہ ہر سال شدید ہو جاتا ہے۔
اس کریک ڈاؤن سے نہ صرف آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ شہریوں کی صحت کو بھی تحفظ ملے گا۔ ترجمان نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر اپنی گاڑیوں کا اخراج ٹیسٹ کروا کر گرین اسٹیکر حاصل کریں تاکہ 15 نومبر کی ڈیڈ لائن سے قبل پریشانی سے بچا جا سکے۔
مزید اقدامات اور سہولتیں
ای پی اے نے ٹیسٹنگ اسٹیشنز کی تعداد بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے، جہاں ای پے کے ذریعے ادائیگی کے بعد فوری ٹیسٹ اور اسٹیکر جاری کیا جائے گا۔ مزید معلومات کے لیے شہری ای پی اے کی ویب سائٹ یا ہیلپ لائن سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
یہ اقدام صوبائی حکومت کی ماحولیاتی پالیسی کا حصہ ہے، جو اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) سے ہم آہنگ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسموگ پنجاب ٹیسٹنگ اسٹیشنز حکومت پنجاب گرین اسٹیکر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسموگ ٹیسٹنگ اسٹیشنز حکومت پنجاب گرین اسٹیکر گرین اسٹیکر کے بغیر گاڑیوں کے کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا‘ آزاد عدلیہ کے بغیر انصاف ممکن نہیں‘ لطیف کھوسہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251111-08-21
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پی ٹی آئی رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ آزاد عدلیہ کے بغیر معاشرے میں انصاف ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا۔ وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ فسطائیت نے نظام مکمل طور پر خراب کردیا ہے۔ 26ویں ترمیم میں بھی اسی طرح شب خون مارا گیا تھا۔ کس طرح آدھی رات کو حالات بدلے گئے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے چیف جسٹس عبد الرشید نے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات سے معذرت کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ملاقات کا اثر کیسز کے نتائج پر نہ مرتب ہو۔انہوں نے کہا کہ جس قوم کو انصاف ملتا ہے وہ قوم کبھی شکست نہیں کھاتی۔ 8 فروری 2024ء کو عوام نے مینڈیٹ تحریک انصاف کو دیا اور پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان بلا ہی چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود عوام نے من پسند نمائندوں کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا۔ ہمارے فارم 45 کے تحت 180 اور ن لیگ کو 17 سیٹیں ملی۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ الیکشن کی ہار تسلیم کرتی تو سیاست پر مثبت اثر پڑتا۔ اگر مخصوص نشستوں پر بھی ہمیں ملتی تو ہمیں 230 نشستیں ملتیں،عوام کے ووٹوں پر آج بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہیں۔ لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں ترمیم کرکے من پسند ججز کو نظام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقصد یہ کہ فیصلوں کے نتائج تحریک انصاف کے خلاف آئیں۔قانون کہتا ہے فراڈ کی بنیاد پر کوئی عمارت نہیں ٹھہر سکتی۔ حکومت نے 26ویں ترمیم میں جے یو آئی کو بھی دھوکا دیا تھا۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے زیر اثر آئینی بینچ بنایا گیا۔ ہمیں بتائیں کہ اس آئینی بینچ نے کون سا بڑا فیصلہ سنایا۔ جسٹس منصور علی شاہ ایک جید قسم کے جج ہیں۔ ان کا ایک عالمی مقام ہے۔ 17 ججز کے آئینی بینچ سے فیصلہ ریورس کروایا گیا۔ اس آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ ان مخصوص نشستوں کی بھی ہم نے بندر بانٹ دیکھی۔ ان کو مخصوص نشستیں دے دی گئیں، جن کا حق ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو جید ججز ہیں، ان کو بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ من پسند فیصلے کروانے کے لیے اب پیراشوٹر ججز کی تعیناتی کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف عدالتوں کے بعد اب اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی قبضے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ آئینی بینچ کے بننے کے بعد ایک بھی فیصلہ عوامی مفاد کے حق میں نہیں آیا۔ آئینی بینچ کے زیادہ فیصلوں میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو ریورس کرتے دیکھا گیا ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری پارٹی سرے سے ختم کردی اور حکومت کے لیے گراونڈ کو کلیئر کیا۔ ان فیصلوں کے بعد حکومت کے لیے بھی آسانی ہوگئی کہ جس رہنما کو چاہیں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔