اسکول انتظامیہ مخصوص دکان یا اسٹیکروالی کاپی کا مطالبہ نہیں کرسکتی
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نوابشاہ (نمائندہ جسارت)تعلیمی اداروں میں والدین پر غیر ضروری مالی دباؤ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر آگاہی مہم کے پوسٹر نے شہری حلقوں میں نمایاں بحث چھیڑ دی ہے۔ مہم میں واضح کیا گیا ہے کہ اسکول انتظامیہ نہ تو مونوگرام والی کاپیاں، کتابیں، بیگ یا اسٹیشنری کسی مخصوص دکان سے خریدنے کا حکم دے سکتی ہے اور نہ ہی فیس میں اضافہ ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے باضابطہ حکم نامے کے بغیر کر سکتی ہے۔ والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر اسکول ان اشیاء کی لازمی خریداری یا فیس میں من مانی تبدیلی کا تقاضا کرے تو مؤدبانہ انداز میں صرف ایک بات کہیں: ‘‘براہِ کرم اس حوالے سے ڈائریکٹریٹ کا باضابطہ لیٹر دکھا دیں۔’’ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ برسوں میں کئی اسکول اپنی مرضی سے فیسیں بڑھانے یا مخصوص برانڈز کی اشیاء لازمی قرار دینے کا رجحان اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں، جس سے والدین پر بے جا بوجھ پڑ رہا ہے۔ قانون کے مطابق اسکول کسی بھی فیس میں اضافہ اس وقت تک نافذ نہیں کر سکتے جب تک متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کی منظوری تحریری صورت میں حاصل نہ ہو۔ اسی طرح کسی بھی مخصوص سامان کو خریدنے کی شرط بھی اس وقت تک نافذ نہیں ہوتی جب تک اس کا باقاعدہ سرکاری نوٹیفکیشن موجود نہ ہو۔تعلیمی ماہرین اور والدین کے نمائندوں نے اس مہم کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نہ صرف والدین کو اپنے قانونی حقوق کا ادراک ہوگا بلکہ اسکول انتظامیہ میں بھی شفافیت کی فضا بہتر بنے گی۔ آگاہی مہم کا مقصد کسی ادارے کی ساکھ کو چیلنج کرنا نہیں بلکہ والدین کو اعتماد اور معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ وہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مالی تحفظ بھی یقینی بنا سکیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس: جسٹس جمال مندو خیل نے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟
مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اپنے اختلافی نوٹ میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے مطابق 41 آزاد امیدواروں نے باقاعدہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
جسٹس مندوخیل کے مطابق ان 41 امیدواروں کا معاملہ کبھی بھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت نہیں رہا، لہٰذا عدالت کو اختیار حاصل نہیں کہ کسی امیدوار کی حیثیت تبدیل کرے، آئین کا آرٹیکل 187 لامحدود اختیارات نہیں دیتا اور ’مکمل انصاف‘ صرف اسی معاملے میں ممکن ہے جو عدالت کے روبرو ہو۔
اختلافی فیصلے میں مزید تحریر کیا گیا کہ 41 ارکان کو ’آزاد‘ قرار دینا اختیارات سے تجاوز ہے، کیونکہ ان کے پی ٹی آئی سے تعلق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ منتخب رکن کسی جماعت میں شامل ہو جائے تو ازخود اس سے الگ نہیں ہو سکتا، اور اگر جماعت چھوڑے تو آرٹیکل 63 اے کے تحت اس کی نشست ختم ہوجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل: جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ جاری
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی اتھارٹی کسی رکن کے ووٹ یا حیثیت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، اس لیے 41 امیدواروں کو آزاد قرار دینا آئین اور قانون کے منافی ہے۔
مزید یہ کہ 15 دن میں جماعت تبدیل کرنے کی اجازت دینا بھی غلط تھا۔ جسٹس مندوخیل کے مطابق اکثریتی فیصلہ حقائق کے خلاف تھا اور اس حد تک برقرار نہیں رہ سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اختلافی نوٹ الیکشن کمیشن جسٹس جمال خان مندوخیل سنی اتحاد کونسل فیصلہ مخصوص نشستیں