عدالت عظمیٰ اور 27 ویں ترمیم کے AM اور PM سیاپے
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
(1)
رات خواب دیکھا کہ ایک پاکستانی عدالت میں کسی غریب کا مقدمہ پیش ہے۔ بنا کسی تگڑے وکیل، بغیر رشوت، جج نے ایک دو پیشیوں میں ہی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق فیصلہ سنا دیا۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض خواب جھوٹے ہی نہیں بہت جھوٹے ہوتے ہیں۔ جہاں جج بڑے ہوں اور انصاف چھوٹا وہاں فیصلے عدل کے اعتبار سے مسخ، ننگے اور شرمناک ہوتے ہیں ایسے میں اقتدار کے ایوانوں میں بے ایمانی اور طاقتور سے عقیدت وبا کی طرح پھیلتی ہے۔ کرپشن اور بے انصافی عدالتوں کو جعلی تحفظ عطا کرتی ہے اور اس تحفظ کے زعم میں وہ طاقت کے اصل مراکز سے جا ٹکراتی ہیں جو فرصت ملتے ہی انہیں اوقات میں لے آتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا ہے جیسا فرقہ وارانہ فساد میں مخالف فرقے کے ساتھ۔
ججوں کے دین ومذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا کب کا ترک انصاف کیا
یہ محترم جج صاحبان کا ہنر ہی تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد جب عدالت ’’عظمیٰ‘‘ محمد خان جونیجو مرحوم کی اسمبلی بحال کرنے کی طرف مائل تھی کہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے ججوں کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ ’’جونیجوکے حق میں فیصلہ انہیں بالکل پسند نہیں آئے گا‘‘ ہمارے جج صاحبان نے اس سادہ سی مداخلت کے سامنے بھی بصد ادب انصاف کو ڈمپر سے کچلوا دیا۔ اور اس سے پہلے پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل مرڈر۔۔ عدالتی قتل۔۔۔ Bhutto,s Murder Case Revisited بطور حوالہ استعمال ہونے والے ان ریسرچ پیپر میں جسٹس نسیم حسن شاہ سے یہ منسوب ہے کہ ’’بینچ کے ججوں نے آپس میں مشاورت کی تھی اور انہیں خدشہ تھا کہ اگر بھٹو کو عمر قید مل جائے تو وہ پھر طاقتور ہوکر واپس آسکتا ہے اور بینچ کے ان ججوں کو خطرہ ہوسکتا ہے‘‘ مزید یہ کہ ’’بینچ کے ارکان نے فیصلہ کرنے میں اپنی ذاتی حفاظت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا‘‘ جسٹس نسیم حسن شاہ نے کئی انٹرویوز میں یہ اعتراف کیا تھا کہ (بھٹو کا) فیصلہ اس ماحول میں ہوا جہاں دبائو، خوف اور سیا سی مصلحتیں عدالت عظمیٰ کے ایوان سے ٹکرا رہی تھیں۔
عدل اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ بے کس ججوں سے اٹھتا ہے
عدالت عظمیٰ کے جج افتخار چودھری جنہیں بڑی منتوں اور مرادوں سے بحال کروایا گیا تھا انہوں نے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ جب کہ آئین کا آرٹیکل 248 صدر کو ایسی کارروائی سے استثنیٰ دیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا موقف تھا ’’ہم خط لکھنے کا حکم صدر آصف علی زرداری کے خلاف نہیں ریاستی ذمے داری کے تحت دے رہے ہیں‘‘ وہ نہ مانے۔ آخرکا عدالت عظمیٰ نے انہیں توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ تاہم آئینی ماہرین کے ایک بڑے طبقے کا آج بھی کہنا ہے کہ فیصلہ بے جواز طور پر سخت تھا اور 248 کا سیاق غلط پڑھا گیا۔
2017-18 میں جسٹس ثاقب نثار نے پاناما کیس جس میں نوازشریف کا نام بھی نہیں تھا اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ ’’وہ اخلاقی اور قانونی حدود میں نہیں رہے اور پارٹی صدارت یا تنخواہ لینے کے معاملات میں شفاف نہیں رہے‘‘ نا اہل قرار دے دیا۔ حالانکہ نواز شریف کا نام براہ راست حکم نامے میں شامل نہیں تھا۔ عدالت نے پارٹی یا سرکاری عملے کو اقدامات کرنے کا حکم دیا لیکن نواز شریف کا نام کسی حتمی سزا، پا بندی یا برطرفی کے لیے نہیں دیا گیا۔ بعد میں ثاقب نثارکے فیصلے کے ذریعے پارٹی صدارت یا حکومتی عہدے سے ہٹانے کی کارروائی کی گئی۔ حالانکہ پارٹی کی صدارت سے ہٹانا پارٹی کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے نہ کہ عدالت عظمیٰ کا۔ قانونی ماہرین، سیاسی مبصرین اور مورخین نے اس فیصلے کو آئینی، قانونی اور سیاسی لحاظ سے متنازع، غلط اور عدلیہ کے فعال کردار کا غلط استعمال قرار دیا گیا۔
مرحوم جونیجو، ذوالفقار علی بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے معاملے میں اس selective judicial activism کی مثالوں کے بعد اب دیکھیے عمران خان کے باب میں عدالت عظمیٰ کے ججوں کی جانبداری، مخصوص گروہ پرستی اور فریق پرستی۔ 2017-18 ہی میں عمران خان کی تحریک انصاف کی صدارت کے دوران اثاثوں، آمدنی اور جائداد کے حوالے سے جب معاملات عدلیہ کے نوٹس میں آئے جس کی صدارت ثاقب نثار کررہے تھے تو عمران خان بنی گالاکے اثاثے اور دیگر مالی کاغذات پیش کرنے اور مکمل دستاویزات دکھانے میں ناکام رہے اس کے باوجود ثاقب نثار نے فیصلہ دیا کہ عمران خان صادق اور امین ہیں اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت پارلیمان کے لیے اہل ہیں۔ نواز شریف مکمل کاغذات دکھانے پر نااہل اور عمران خان نامکمل کاغذات دکھانے پر صادق اور امین۔ یا للعجب۔ اس کے بعد ثاقب نثار جس طرح جیلوں، اسپتالوں اور منرل واٹرز پلانٹس کے معائنوں پر نکلے، ڈیم بنانے میں مصروف ہوئے، خاندانی منصوبہ بندی کے جلسے میں شریک ہوئے، پی ٹی آئی کا ٹکٹ دلوانے کے لیے رقم کی وصولی میں ملوث پائے گئے۔۔۔ وہ اتنے کریہہ الصوت، کریہہ الصورت مناظر تھے دنیا کا کوئی جج جن کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
25 مئی 2022 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے پی ٹی آئی کو آزادی مارچ ڈی چوک کے بجائے سیکٹر G-9 میں کرنے کا حکم دیا لیکن عمران خان نے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی تھی لیکن عدالت نے کوئی سزا دینا یا جرمانہ کرنا تو درکنار آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھا۔ نومبر 2024 میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ اس مرتبہ بھی منہ دوسری طرف کرلیا گیا اس کے بعد آڈیو لیکس موج در موج سامنے آئیں جن میں سے ایک میں بندیال کی ساس مہ جبین نون اور خواجہ طارق رحیم کی بیوی رفیعہ طارق کی عمران خان کو عدالتی ریلیف نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں پوسٹر لگے تھے Mother-in-law is not the law
اس زمانے میں لوگ عدالتی بینچ کو دیکھتے ہی فیصلے کے بارے میں بتادیا کرتے تھے کہ وہ عمران خان کے حق میں ہوگا اگر وہ ٭ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ٭ جسٹس اعجازالاحسن اور ٭ جسٹس منیب اختر پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ ’’لائک مائنڈڈ جج‘‘ کہلاتے تھے۔ یہ جج متعدد مقدمات میں ایک ساتھ بیٹھتے۔ جیسے 2023 میں پنجاب اور پختون خوا میں 90 دنوں میں انتخابات کا حکم جو تحریک انصاف کے فیور میں تھا یا پھر 2024 میں محفوظ نشستوں کا کیس جس میں 8 ججوں (بشمول جسٹس منیب اختر اور جسٹس اطہر من اللہ) نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔ گیارہ مئی 2023 کو جب عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں گرفتار کرکے پیش کیا گیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں دیکھ کر کہا ’’گڈ ٹوسی یو‘‘ اس پر تنقید کی گئی تو ان کا جواب تھا یہ انہوں نے احترام اور شائستگی کے اعتبار سے کہا۔ یہ ہے ہماری عدالت ’’عظمیٰ‘‘ کا وہ شاندار ماضی ہزاروں سال جس کی بے نوری پر نرگس روتی رہے گی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عدالت عظمی نواز شریف کا حکم کے بعد تھا کہ
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے ججز کی رائے تقسیم
اسلام آباد:ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس میں اجتماعی استعفے اور ترمیم کی حمایت کرنے کی دو تجاویزمیں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو سکا اور یوں ترمیم کے حوالے سے رائے منقسم نظر آئی۔
اجلاس میں چند ججوں کی طرف سے یہ بیان جاری کرنے کی تجویز دی گئی کہ 27 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کی ہے جو بائنڈنگ ہے اسے چیلنج کرنا وفاقی آئینی عدالت کیخلاف جائیگا جو اس ترمیم کے تحت قائم ہو چکی ہے۔
اس تجویز پر اتفاق رائے نہ ہو سکا، بعض ججز کی رائے تھی کہ یہ بیان 27 ویں ترمیم کی توثیق کے مترادف ہوگا، یوں یہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
بعض ججز کی طرف سے اجتماعی استعفوں کی تجویز بھی آئی تاہم اس پر بھی اتفاق نہ ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ کے حوالے سے جسٹس صلاح الدین پنہور کا خط نہیں پڑھا اور اسے واپس لوٹا دیا۔
چیف جسٹس نے ان افواہوں کی تردید کی کہ انہوں نے اپنے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ برقرار رکھنے کیلئے حکومت سے بات کی تھی۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی جب علم ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے الفاظ حذف کئے جا رہے ہیںتو انہوں نے مستعفی ہونے کاذہن بنا لیا تھا۔ بعد ازاںحکومت نے ان کا عہدہ ترمیم میں برقرار رکھا۔