پی ٹی اے نے وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی لائسنسنگ کا آغاز کردیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی لائسنسنگ کا آغاز کردیا۔
یہ لائسنسنگ اب بحال شدہ کلاس ویلیو ایڈڈ سروسز ریجیم کے تحت کی جا رہی ہے، جس کا مقصد ملک میں محفوظ اور مجاز وی پی این سروسز کی فراہمی کو منظم کرنا اور قومی قوانین و ڈیٹا سیکیورٹی کے معیار کو یقینی بنانا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی اے نے متعدد کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے ہیں۔
(Cont’d): PTA remains steadfast in its commitment to safeguarding the integrity of Pakistan’s mobile communication ecosystem and urges the public to remain vigilant, reporting any suspicious activities related to device tampering, as perpetrators will face stringent legal… pic.
— PTA (@PTAofficialpk) December 1, 2025
ان لائسنس یافتہ کمپنیوں کو قانونی اور مجاز مقاصد کے پیش نظر وی پی این سروسز فراہم کرنے کی اجازت ہے۔
اب صارفین اپنے آئی پی ایڈریسز یا موبائل نمبرز کی الگ سے پی ٹی اے میں رجسٹریشن کروائے بغیر براہ راست ان لائسنس یافتہ وی پی این فراہم کنندگان کی خدمات حاصل کر سکیں گے۔
یہ اقدام عوام کی آسانی، ریگولیٹری سہولت اور پاکستان کے ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں سائبر سیکیورٹی کے مزید استحکام کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔
واضح رہے کہ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین نے پاکستان میں فری اور غیر رجسٹرڈ وی پی اینز پر پابندی کو ناگزیر قرار دے دیا۔
ماہرین کے مطابق فری اور غیر رجسٹرڈ وی پی اینز ملک میں بڑھتے ہوئے سائبر سیکیورٹی خدشات کی ایک بڑی وجہ بن چکے ہیں۔ ان وی پی اینز کے ذریعے شہریوں کا ڈیٹا ہیکنگ، چوری، غیر ملکی نگرانی اور سائبر جرائم کے خطرات سے دوچار ہو جاتا ہے، جس کے باعث محفوظ ڈیجیٹل پاکستان کے لیے ان پر مکمل پابندی وقت کی اہم ضرورت قرار دی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پی ٹی اے لائسنسنگ وی پی این سروسز وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی اے لائسنسنگ وی پی این سروسز وی نیوز پی ٹی اے
پڑھیں:
بارڈر مینجمنٹ پر سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر
—فائل فوٹوڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ بارڈر مینجمنٹ پر سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
سینئر صحافیوں سے ملکی سلامتی کے امور پر تفصیلاً گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 4 نومبر 2025 سے اب تک دہشت گردی کے خلاف 4 ہزار 910 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے۔ رواں سال خیبر پختونخوا میں 12 ہزار 857 اور بلوچستان میں 53 ہزار 309 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔ ان آپریشنز کے دوران 206 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال مجموعی طور پر 1873 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے، جن میں 136 افغانی بھی شامل ہیں۔ پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت ریاستی سرپرستی میں پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے، پاکستان بھارتی دہشتگردی کےثبوت اقوام عالم کے سامنےمتعدد مرتبہ پیش کرچکا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد 1229 کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں، پاک افعان بارڈر پر پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتی اگر وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو، اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں، ایسی صورتِ حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں، اس کے برعکس افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی کے لیے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اگر افغان بارڈر سے متصل علاقے دیکھیں بمشکل مؤثر انتظامی ڈھانچہ گورننس کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے، ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے، سہولت کاری فتنہ الخوارج کرتے ہیں، اگر سرحد پار سے دہشت گردوں کی تشکیلیں یا اسمگلنگ، تجارت ہو تو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمے داری ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہیں تو انہیں کس نے روکنا ہے؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں، افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں۔