نائیجیریا؛ سہاگ رات کو دلہا کے گھر سے دلہن اپنی 12 سہیلیوں سمیت اغوا
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
نائیجیریا میں مقامی روایت کے تحت دلہن شادی کی پہلی رات اپنی سہیلیوں کے ساتھ سسرال میں گزارتی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مسلح افراد نے مقامی گاؤں کے ایک ایسے ہی گھر پر حملہ کیا جہاں دلہن اپنی درجن بھر سہیلیوں کے ساتھ تھی۔
روایت کے تحت سہیلیوں کے ساتھ دلہن مختلف رسومات ادا کرتی ہے اور پر اگلے روز صبح شوہر گھر آتا ہے اور سہیلیاں اپنے اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔
تاہم اس سے قبل ہی مسلح افراد نے شادی کے گھر پر دھاوا بول کر دلہن اور اس کی 12 سہیلیوں اور ایک بچے کو اغوا کرلیا جو ان میں سے ہی ایک سہیلی کا ہے۔
یہ واقعہ نائیجیریا میں حالیہ ہفتوں میں متعدد اجتماعی اغوا کاریوں کے واقعات کا تسلسل ہے۔
اس سے قبل عیسائی مشنری اسکولوں کی سیکڑوں طالبات کو بھی اغوا کیا جا چکا ہے جن میں سے صرف درج سے زائد واپس لوٹ سکی ہیں۔
یاد رہے کہ اکتوبر میں بھی اسی گاؤں پر حملہ ہوا تھا جس میں 13 افراد اغوا کیے گئے تھے اور رہائی کے لیے تاوان ادا کرنا پڑا تھا۔
ایک نائیجیرین انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق نومبر میں سکوٹو ریاست میں اغوا کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہمسایہ ریاستوں کی جانب سے بعض اغوا کاروں سے کیے گئے مبینہ معاہدے بھی اس اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
نائیجیریا میں اغوا کی وارداتیں 2014 میں بوکو حرام کی جانب سے چیبوک کی 276 اسکول طالبات کے اغوا کے بعد مزید بڑھ گئیں۔
ملک کے شمالی اور وسطی حصوں میں شدت پسند اور جرائم پیشہ گروہ دیہات پر حملے، لوٹ مار، گھروں کو نذر آتش کرنے اور تاوان کی خاطر شہریوں کے اغوا میں ملوث رہے ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق اغوا کاروں سے کیے گئے مذاکرات گروہوں کو مزید مضبوط کرتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کے لیے کارروائیاں مشکل بنا دیتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اغوا کی
پڑھیں:
عوام الناس کے مسائل
پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اور احتجاج سر عام ہوتا نظر آتا ہے لیکن مجال ہے سرکار کے سر پر جوں رینگتی ہو، اب بات یہ ہے کہ جوں ہے ہی نہیں، رینگے گی کہاں سے؟
اسی لیے گزشتہ دنوں پانی کے ستائے ہوئے لوگوں نے پمپنگ اسٹیشن پر دھاوا بول دیا، وہ تو بھلا ہو سنتری بھائیوں کا کہ انھوں نے حالات کو کنٹرول کر لیا ورنہ تو وہ پانی کا چھڑکاؤ بھی کر سکتے تھے، بے چاری پریشان حال خواتین کو یہ ظلم بھی برداشت کرنا پڑتا، چونکہ احتجاج میں خواتین کی تعداد دو تین گنا زیادہ تھی۔ہمیں اس موقع پر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا ہے:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے تو من تیرا نہ تن
یاد آنے کی وجہ یہ تھی کہ اب یہ دور، دور بے رحمی اور بے حسی کا ہے، حیا جیسا قیمتی موتی اپنا آپ کھو چکا ہے، احساس مرگیا ہے، غیرت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے، لہٰذا پانی پانی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
شرم کا ایک قطرہ بھی آنسو بن کر آنکھ سے نہیں بہتا ہے۔ اب تو یہ وقت آ گیا ہے کہ غیر کے آگے جھکنا تو دورکی بات ہے اب تو مع کشکول کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں۔
ستم رسیدہ حضرات کی شکایت بجا تھی کہ اگر شہر میں پانی نہیں ہے تو پھر خالی ٹینکر پانی سے کیسے بھر جاتے ہیں؟ کئی ماہ قبل ہمیں بھی پانی کی ایسی مار پڑی کہ دن میں تارے نظر آ گئے اور رگ جاں کی تڑپ نے گہرے دکھ سے ہمکنارکیا۔
افسوس اس بات کا تھا کہ ایک تو واٹر بورڈ کا بل ماہانہ ادا کرنا ناگزیر ہے، ٹینکر کا خرچ علیحدہ، اس کے ساتھ ہی ٹرک ڈرائیوروں کے الگ نخرے، کبھی اس قدر شفقت کہ فون بند کرکے جان چھڑانے کی خواہش جاگتی ہے اور کبھی اتنا غصہ گویا فون سے باہر آ جائیں گے۔
’’ ابی تم بار بار فون کرکے تنگ کرتا ہے، اپن کے پاس پانی نہیں ہے تو ام کاں سے لاوے، بند کرو فون۔‘‘نشے کے عادی لوگ، اسی حالت میں ٹینکر چلاتے ہیں اور بے شمار راہ گیروں کو گنگناتے ہوئے کچل دیتے ہیں۔ان کی دل لگی ٹھہری، مسافر اپنی جان سے گئے اور حکومت کو ایسے سانحات کی ذرہ برابر فکر نہیں۔ یہی خونی واقعات خبروں اور افسانوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر ایک دریا ہزار سال کا افسانہ لکھتا ہے
کراچی کے شہری پانی کے لیے ترس گئے ہیں جب کہ پانی زندگی ہے، اس کے بغیر جینا محال ہے، بنیادی ضرورتوں میں سب سے زیادہ اہمیت پانی کی ہے، زندگی بچانے اور پینے کا صاف پانی خریدنے کے لیے اکثر گھروں میں پیسے ہی نہیں۔
چونکہ آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے، کاروبار ختم ہو چکا ہے، مہنگائی کے طوفان میں تنگ دست اور فاقہ کش جیتے جی مر چکے ہیں، مقتدر حضرات انجام سے بے خبر ہیں، منصف کا قلم غلط فیصلے کرتے نہیں تھکتا ہے، غیر قانونی زمین پر ان عمارات کو مسمار کرنے کے لیے نوٹس جاری کر دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ اس بلڈنگ میں رہنے والے مکین اپنے خاندان کو لے کر کہاں جائیں؟ وہ بھی راتوں رات یا پھر ایک دو دن بعد اتنی مختصر مہلت میں گھر اور گھر گرہستی چھوڑی جا سکتی ہے جو مشکل سے پیٹ کاٹ کر بنائی گئی ہو، ورنہ ایک متوسط طبقے کا فرد اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں رہتا ہے۔
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
گھر اور گھر کی آرائش کے لیے ضرورت مند، خوبصورت چیزوں کا تصور تو کر سکتا ہے لیکن کھانے پینے کی اشیا اور صاف و شفاف پانی کے تصور سے بات نہیں بنتی ہے۔
پانی اور اشیا خور و نوش کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔ خیال و خواب کی دنیا میں زندگی بسر کرنے والے حضرات بنا پانی اور غذا کے زندگیاں نہیں گزار سکتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب فٹ پاتھوں سے تجاوزات کا خاتمہ کرایا گیا تھا، اس عمل میں بے شمار لوگ بے روزگار ہوئے تھے، گھروں کے چولہے جلنا بند ہو گئے تھے، ٹھیلے اور خوانچوں والوں کو نہ صرف یہ کہ ہٹایا گیا تھا بلکہ اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پولیس ان کا ساز و سامان بھی زمین پر گرا دیتی اور ساتھ میں ان چھوٹے تاجروں کی کمر پر ڈنڈے بھی برسانے سے باز نہ آتی تھی۔
اب وہ بے چارے جائیں تو کہاں جائیں کہ رزق حلال کمانے کے لیے مشکلات کا سامنا معمول کی بات ہے۔ مزید ستم یہ بھی ہے کہ ان بے چاروں سے بے ضمیر اور بے حس اپنی وردی کا رعب جھاڑتے ہوئے مفت میں چیزیں اٹھا کر کھاتے ہیں اور ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔
سال دو سال کے بعد پھر ٹھیلوں اور پتھاروں نے اپنی جگہ بنا لی ہے یہ سب کچھ کس کی ایما پر ہوتا ہے؟ اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے۔ رشوت اور لوٹ مار میں بہت طاقت ہے لیکن جب حقیقی طاقت، بادشاہوں کا بادشاہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے تو بڑے بڑوں کی چھٹی ہو جاتی ہے، تخت والے تختے پر آ جاتے ہیں اور محلوں کے رہنے والوں کے لیے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں پانی اور تجاوزات کے حوالے سے ایک خبر نظر سے گزری، وہ یہ ہے کہ کمشنر نے تجاوزات کے قائم ہونے کے مقدمات درج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شہریوں نے کمشنر کراچی سے مطالبہ کیا ہے کہ شہر بھر میں پھر تجاوزات نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔
کمشنر نے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سڑکوں پر تجاوزات قائم کرنے والوں کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دکانوں کو سیل کر دیا جائے گا اور ان کے بھی مزے ختم جو کرسیاں اور میزیں دکانوں کے سامنے سجاتے ہیں اور اپنے اطراف کے نوجوانوں کے لیے گرما گرم چائے سستے داموں فروخت کرتے ہیں، ساتھ میں گرم گرم پراٹھے بھی۔
اس طرح دکاندار اور ہوٹل والے بھی کچھ کما لیتے ہیں اور باہر ناشتہ کرنے والے بھی سستا بل ادا کرکے بھوک کو مٹانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ذمے داران افسران مستقل طور پر نگرانی کیوں نہیں کرتے؟ آخر یہ وقفہ آیا ہی کیوں؟ ڈھیل دے کر رسی کھینچنا غریب اور مظلوم طبقے پر محض ظلم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔زندگی اس شعر کے مترادف ہے :
تم کو رقبے ملے ہیں ورثے میں
تم نہ سمجھو گے، بے گھروں کا دکھ
مفلس زدہ انسان کی زندگی بھی کیا زندگی ہے، صبح و شام تفکرات کی بھٹی میں جلنا، گویا اس کا مقدر ہے۔ وہ اپنی تقدیر سنوارتے سنوارتے موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
حکومت نے اپنی عوام سے زندگی گزارنے کی ہر سہولت چھین لی ہے، اسکول اور اس کی فیس نہ کتابوں کے خریدنے کے لیے پیسے، غریب اور بے بس انسان بے شمار مصائب اور قدرتی آفات کا شکار ہے۔
گزشتہ ماہ و سال میں سیلاب نے لوگوں کی زندگیوں کو ڈبو دیا، گھر بار سب برباد ہو گیا، ہمیشہ کی طرح پانی اس سال بھی ضایع ہوا۔ آج بھی ہمارا ملک پانی کے لیے بھارت کا محتاج ہے، وہ اپنی ہار کا بدلا پانی بند کرکے یا پھر چھوڑ کر لے رہا ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور دکھ جھیل رہے ہیں۔ کسی شاعر کے مطابق۔
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں، کہ اس میں ڈوب جائیں