سسرال پہنچنے کے بیس منٹ ہی دلہن نے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کردیا، وجہ کیا تھی؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
بھارت کے اترپردیش میں ایک انوکھا واقعہ اس وقت خبروں کی زینت بن گیا جب دلہن نے سسرال پہنچنے کے محض 20 منٹ بعد ہی شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے سے صاف انکار کردیا۔
رپورٹس کے مطابق دیوریا میں ہونے والی اس شادی میں تمام رسم و رواج دھوم دھام سے ادا کیے گئے تھے۔ لڑکا سلیم پور نگر پنچایت کی رہائشی لڑکی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا، اور شادی کی تقریب بخیر و خوبی انجام پائی۔
تاہم سسرال پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد صورتحال میں ڈرامائی موڑ آگیا۔ خواتین جب چہرہ دکھانے کی روایتی رسم کے لیے دلہن کے گرد جمع ہوئیں تو وہ اچانک اٹھ کھڑی ہوئی اور بتایا کہ اسے فوری اپنے والدین کو بلانا ہے۔
جب وجہ پوچھی گئی تو دلہن نے حیران کن طور پر اعلان کیا کہ وہ اس گھر میں نہیں رہے گی اور اسی وقت میکے واپس جانا چاہتی ہے۔
شوہر اور گھر والوں نے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی، مگر اس نے کسی بات پر کان دھرنے سے انکار کردیا۔ کچھ دیر بعد دلہن کے والدین بھی پہنچ گئے اور انہوں نے بھی بیٹی کو منانے کی کوشش کی، لیکن دلہن نے سسرال والوں کے رویے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا فیصلہ نہیں بدلا۔
کشیدہ ماحول کے پیشِ نظر پنچایت بلائی گئی جو تقریباً پانچ گھنٹے تک چلتی رہی۔ بالآخر دونوں خاندانوں نے باہمی رضا مندی سے شادی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا اور دلہن والدین کے ساتھ واپس چلی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ معاملے سے انہیں آگاہ کیا گیا تھا اور دونوں جانب سے کوئی تحریری شکایت موصول نہیں ہوئی، اس لیے قصہ پنچایت کی سطح پر ہی نمٹ گیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دلہن نے
پڑھیں:
والدین اور استاد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251129-03-4
امیر محمد کلوڑ
سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبیٰؐ کی ذاتِ گرامی کے ایسے ایسے پہلو ہیں کہ جن کو پڑھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے، اہل مغرب تو نبی پاکؐ کے زندگی گزارنے کے ہر پہلو پر ریسرچ کر کر کے تھک گئے ہیں ہمیشہ ان کو ایک نیا سائنسی مگر مثبت پہلو نظر آتا ہے جس سے وہ لوگ انگشت بداں ہیں کہ یہ کون سی شخصیت تھی جن کے ایسے حیران کن پہلو ہیں ان کی ذات کے کہ جن جن پہلوئوں پر بھی کڑی سے کڑی نظر ڈالیں تو پرفیکشن کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا چاہے ان کی ذاتی زندگی ہو، انداز سیاست ہو، جنگی حکمت عملی ہو، رہن سہن، کھانا پینا ہو، معاشرتی پہلو ہوں ماشاء اللہ وہ ہر جگہ سب سے بلند اور پرفیکٹ ہیں۔ اسی لیے تو کائنات کی سب سے سچی کتاب قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ہے لَقَد کَانَ لَْم فِی رَسْولِ اللّٰہِ اْسوَۃٌ حَسَنَۃ (سورۃ الاحزاب، آیت 21)
تو آئیے چلتے ہیں، میرے ماں باپ ان پر قربان ان کی زندگی کے دلچسپ اور انوکھے پہلو پر۔ ’’دنیا میں دو ایسی عظیم اور بلند مرتبہ ہستیاں ہیں جن کے احسانات کا حق کوئی انسان تمام عمر بھی ادا نہیں کر سکتا: والدین، جن کی شفقت سایہ رحمت ہے، اور استاد، جن کی رہنمائی انسان کی زندگی کو روشن راہوں کی طرف لے جاتی ہے‘‘۔ اور اب جو میں نایاب الفاظ کہنے جا رہا ہوں جو خالصتاً میرے تخلیق شدہ ہیں وہ آپ نے اب تک نہ کسی کتاب میں پڑھے ہوں گے اور نہ ہی کسی ذی روح سے سنے ہوں گے کیونکر کہ: اللہ جل جلالہ کو مکہ کے یتیم بچے اور رہتی دنیا تک سب سے زیادہ عاجزی کے پیکر، جن کے لیے حضرت حق نے کہا کہ اے محبوب اگر تمہیں اس دنیا میں پیدا نہ کرتا تو میں اس کائنات کو کبھی نہ بناتا، تو وہ الفاظ جو اللہ پاک نے میرے دل میں ڈالے وہ یہ ہیں کہ: ’’اللہ پاک نے یہ دونوں رشتے اپنے پیارے نبیؐ کو نہیں دیے، آپ دونوں سے مبرا تھے آپ کہیں گے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے تو وہ ایسے کہ رحمت اللعالمین کے والد محترم کا انتقال تو آپؐ کی اس دنیا میں آمد سے قبل ہوگیا تھا اور جہاں تک بات ہے بی بی آمنہ والدہ ماجدہ کی تو آپ کی عمر 6 سال بعض کتب میں 9 سال آئی ہے تو اس وقت آپ تو صغیر سنی کی عمر میں تھے، یعنی کہ آپ ابھی کم سن ہی تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی، تو آپ پر نہ والد کی ذمے داری تھی کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا اور نہ والدہ کی ذمے داری تھی بلکہ اس عمر میں تو آپؐ خود والدہ کی ذمے داری یا زیر نگرانی تھے، یعنی آپ غیر مکلف تھے۔
تو جو الفاظ اسلامی کتب میں آتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی انسان ماں باپ کا حق ادا نہیں کرسکتا تو ’’یہ عبارت نبی اکرمؐ کی ذاتِ اقدس پر صادق نہیں آتی، کیونکہ آپؐ کے والدین کا انتقال آپؐ کے اوائل ِ طفولیت ہی میں ہو گیا تھا‘‘۔
یعنی کہ ربّ ذوالجلال کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ کل کلاں کو کفار آقائے دو جہاں کو یہ طعنہ دیں کہ آپ کے دین میں تو اتنا مقام ہے والدین کا تو اس طرح تو آپ بھی اپنے والدین کا حق ادا نہیں کرسکے، تو یہ جملے سننا بھی اللہ نے اپنے محبوب کے لیے پسند نہیں فرمائے اور وہ یہ نوبت ہی نہیں لائے۔
اب آتے ہیں دوسری ہستی یعنی استاد پر۔ آپ اس کائنات کی کوئی سی بھی کتاب اٹھالیں، چاہے وہ احادیث کی ہو، تفسیر ہو، فقہ کی ہو، کسی بھی مسلک کی ہو یا کسی بھی مذہب کی، چاہے وہ عیسائیت ہو، یہودیت ہو، ہندو مت ہو، یہ آپ کو کہیں لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ مسلمانوں کے آخری نبیؐ نے کسی اسکول، مدرسہ، کالج، یونیورسٹی، دارالعلوم سے تعلیم حاصل کی ہو اور فلاں فلاں حضرات ان کے استاد رہے۔ یہ آپ کو دنیا کی کسی بھی کتاب میں نہیں ملے گا آپ کتنی بھی ریسرچ کریں لیکن آپ ناکام ونامراد ہی لوٹیں گے۔
یہاں تک کہ احادیث کتب میں آیا ہے کہ جب اللہ پاک نے آپ پر پہلی وحی نازل فرمائی تھی تو جب جبرائیل امین نے پہلی دفعہ اقرا کہا یعنی پڑھ تو آپؐ خاموش رہے، پھر دوسری مرتبہ اقرا کہا آپؐ خاموش رہے اور جب تیسری مرتبہ اقرا باسم ربک الذی خلق، تو پھر آپؐ نے پڑھا، تو اس پر محدثین کرام اور فقہاء کرام اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اقرا پڑھ لیتے تو جبریل امین تھوڑے بہت استاذ کے ذمرے میں آسکتے تھے لیکن آپ نے پہلی دفعہ اور دوسری مرتبہ بھی نہیں پڑھا اور جب تیسری مرتبہ پڑھ اپنے ربّ خالق کے نام سے تو نبی پاکؐ نے پڑھا، تو اس حکمت سے آپ کا کوئی استاذ اس کائنات میں نہیں ہے۔ سوائے اللہ سبحانہ کی ذات کے۔ یعنی کہ: ربّ ذوالجلال کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ کل کو کفار یہ آقائے دو جہاں کو طعنہ دیں کہ آپ کے دین میں تو استاد کا اتنا مقام ہے تو اس طرح تو آپ بھی اپنے استاد کرام کا حق ادا نہیں کرسکے، تو یہ جملے سننا بھی اللہ نے اپنے محبوب کے لیے پسند نہیں فرمائے۔ واہ قربان جائیں ان کے قدموں کی خاک پر، جہاں جہاں ان کے قدم مبارک پڑے تھے۔