کولکتہ میں اسٹار فٹبال میسی پر مشتعل ہجوم نے بوتلیں برسا دی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
لیونل میسی کے گوئٹ ٹور کے کولکتہ اسٹاپ پر جشن کی امیدیں ہنگامے میں بدل گئیں، جب سالٹ لیک اسٹیڈیم میں انتظامی کوتاہی کے باعث ہجوم پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مایوس مداحوں نے پوسٹر توڑے، بوتلیں پھینکی اور احتجاج شروع کر دیا کیونکہ انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ اسٹیڈیم میں رسائی اور نظر آنے کی سہولیات توقع کے مطابق نہیں ہیں۔
صورتحال جلد ہی کشیدہ ہو گئی اور سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔ میسی صرف 10 منٹ اسٹیڈیم میں رہے اور دیگر VVIPs کے ساتھ انہیں فوری طور پر باہر نکالا گیا۔
کئی مداح جو گھنٹوں انتظار کے بعد اسٹار کو دیکھنے آئے تھے، بغیر میسی کو قریب سے دیکھے مایوس ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر منظرنامے کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں، جن میں ہنگامہ اور انتشار واضح دکھائی دے رہا ہے، اور یہ موقع جو بھارتی فٹبال کے شائقین کے لیے تاریخی اور خوشیوں بھرا ہونا چاہیے تھا، افسوسناک بنا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
ٹرمپ گولڈ کارڈ حاصل کرنے والے کیا فوائد حاصل کرسکیں گے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ملکی دولت مند افراد کے لیے خصوصی اور تیز رفتار امیگریشن اسکیم ’’ٹرمپ گولڈ کارڈ‘‘ باضابطہ طور پر لانچ کر دی ہے، جس کے تحت کم از کم 10 لاکھ ڈالر (تقریباً 28 کروڑ پاکستانی روپے) کی ادائیگی پر درخواست گزاروں کو امریکا میں تیز ترین مستقل رہائش اور شہریت کا راستہ فراہم کیا جائے گا۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا کہ یہ کارڈ ’’اہلیت اور مکمل جانچ پڑتال‘‘ کے بعد خریداروں کو براہِ راست شہریت کا راستہ فراہم کرے گا۔ ان کے مطابق اس اسکیم کا مقصد امریکی کمپنیوں کو اعلیٰ معیار اور قیمتی مہارت رکھنے والا ’’ٹیلنٹ‘‘ رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
گولڈ کارڈ ایک ایسا خصوصی امریکی ویزا ہے جو ان غیر ملکیوں کو جاری کیا جائے گا جو یہ ثابت کریں کہ وہ امریکہ کے لیے ’’بڑا اور نمایاں فائدہ‘‘ فراہم کرسکتے ہیں۔ سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ اسکیم ایسے سرمایہ کاروں اور اعلیٰ پیشہ ورانہ افراد کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے جو امریکی معیشت میں بڑا مالی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سرکاری ویب سائٹ کے مطابق گولڈ کارڈ ہولڈرز کو ’’ریکارڈ مدت‘‘ میں امریکی رہائش فراہم کی جائے گی، جبکہ درخواست دہندہ کو کم از کم 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری یا فیس ادا کرنا ہوگی، جو اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ ’’امریکہ کے لیے نمایاں فائدہ‘‘ کا باعث ہے۔
کاروباری ادارے اگر اپنے ملازمین کے لیے یہ کارڈ حاصل کرنا چاہیں تو انہیں 20 لاکھ ڈالر تک کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ ’’پلاٹینیم گولڈ کارڈ‘‘ بھی جلد متعارف کرایا جائے گا، جس کی قیمت 50 لاکھ ڈالر ہو گی اور اس میں خصوصی ٹیکس مراعات بھی شامل ہوں گی۔
درخواست جمع کرانے کے بعد ہر فرد کو 15 ہزار ڈالر کی ناقابلِ واپسی پروسیسنگ فیس بھی ادا کرنا ہوگی، جبکہ اضافی فیس ہر درخواست گزار کے حالات کے مطابق الگ سے لی جا سکتی ہے۔
فروری میں پہلی مرتبہ اعلان کے بعد سے ڈیموکریٹس کی جانب سے اس اسکیم پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ پروگرام امیر طبقے کو غیر منصفانہ طور پر ترجیح دیتا ہے، جبکہ عام تارکینِ وطن پر پابندیاں دن بدن سخت کی جا رہی ہیں۔
ٹرمپ نے اعلان کے وقت گولڈ کارڈ کو گرین کارڈ سے تشبیہ دی تھی، جو مختلف آمدنی رکھنے والے افراد کو امریکہ میں رہائش اور کام کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم گولڈ کارڈ صرف ’’اعلیٰ سطح کے پیشہ ور‘‘ افراد کے لیے مختص ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ہم ایسے لوگوں کو چاہتے ہیں جو پیداوار اور ملک کے لیے فائدہ مند ہوں‘‘۔ ان کے مطابق 50 لاکھ ڈالر ادا کرنے والا شخص ’’نوکریاں پیدا کرے گا‘‘ اور یہ اسکیم ’’بہت تیزی سے فروخت ہوگی‘‘۔
یہ اسکیم ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پر سخت ترین کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اس وقت غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائیاں جاری ہیں، جبکہ ورک ویزا فیسوں میں بھی نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔
امریکا نے 19 ممالک کے شہریوں—زیادہ تر افریقی اور مشرقِ وسطیٰ ممالک—کے امیگریشن کیسز کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ اسی طرح سیاسی پناہ کی تمام نئی درخواستوں کی پروسیسنگ بھی معطل ہے جبکہ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں منظور شدہ ہزاروں کیسز کی ازسرِنو جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
ستمبر میں ٹرمپ نے H-1B ویزا کے نئے درخواست گزاروں کے لیے 1 لاکھ ڈالر اضافی فیس عائد کرنے کا حکم بھی دیا، جس سے امریکا میں مقیم بین الاقوامی طالب علموں اور ہائی ٹیک کمپنیوں میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔