وینزویلامیں روپوش اپوزیشن رہنما منظر عام پر آگئیں
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اوسلو (انٹرنیشنل ڈیسک) وینزویلا کی نوبیل امن انعام یافتہ اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو تقریباً ایک سال بعد پہلی بار منظر عام پر آگئیں۔ ماچادو طویل عرصے سے وینزویلا میں روپوشن تھیں، تاہم اوسلو پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے ہوٹل کی بالکونی سے ہزاروں حامیوں کا پرتپاک استقبال کیا۔اس دوران حامی آزادی کے نعرے لگاتے رہے جبکہ ماچادو ہاتھ ہلا کر جواب دیتی رہیں۔ماریا کورینا ماچادو نے اس سال کا نوبیل امن انعام وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو کے آمرانہ طرزِ حکمرانی اور اْن کی مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف کھڑے ہونے پر جیتا تھا۔ وہ بدھ کو ہونے والی مرکزی تقریب میں شرکت نہ کر سکیں اور ان کی بیٹی آنا کورینا سوسا ماچادو نے ان کی جانب سے یہ اعزاز وصول کیا۔ نوبیل کمیٹی کے چیئرمین یورگن واٹنے فریدنیس کے مطابق ماچادو رات گئے اوسلو پہنچیں اور سب سے پہلے اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ بعد ازاں ہوٹل کی بالکونی پر آکر انہوں نے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا۔ ما ریا کورینا ماچادو آخری بار 9 جنوری کو عوامی طور پر دیکھی گئی تھیں، جب انہوں نے مادورو کی تیسری بار صدارت سنبھالنے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ وینزویلا حکومت نے انہیں ملک چھوڑنے کی صورت میں مفرور قرار دینے کی دھمکی دی تھی، اس لیے ان کی پرواز اور روانگی انتہائی خفیہ رکھی گئی۔ ناروے کی اوسلو یونیورسٹی کی لاطینی امریکا ماہر پروفیسر بینیڈکٹے بْل کے مطابق ماچادو کی وطن واپسی پر انہیں گرفتار کیے جانے کا امکان موجود ہے۔ تاہم ان کے مطابق حکومت اب تک ماچادو کے معاملے میں نسبتاً محتاط رویہ اپناتی رہی ہے، کیونکہ ان کی گرفتاری سے عالمی سطح پر شدید سیاسی ردعمل پیدا ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے وینزویلا کے ساحل کے قریب موجود ایک تیل بردار جہاز دی اسکیپر کو قبضے میں لے لیا ۔ امریکی اٹارنی جنرل کے مطابق یہ جہاز ایک ایسے غیرقانونی شپنگ نیٹ ورک کا حصہ تھا جو مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کی مدد میں ملوث ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکورٹی اور کوسٹ گارڈ نے محکمہ دفاع کی معاونت سے عدالتی وارنٹ پر عمل کرتے ہوئے کارروائی کی۔ رپورٹس کے مطابق اس تیل بردار جہاز پر کئی سال سے پابندی عائد تھی اور اسے وینزویلا اور ایران کے درمیان تیل کی غیرقانونی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینزویلا کے صدر نکولاس میدورو پر دباؤ بڑھانے کی مہم تیز کردی ہے، جس کے بعد خطے میں ایسی کارروائیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
رنویر پر جنسی حملے کی کوشش: دھرندھر کا وہ سین جس پر سب خاموش
بولی وُڈ کی نئی فلم ‘دھُرندھر ‘ کے ایکشن، سیاسی کھیل اور جاسوسی کی کہانی پر تو سب ہی بات کر رہے ہیں، مگر اس فلم کا سب سے خوفناک اور سنسنی خیز منظر وہ ہے جس پر سب سے کم بات ہو رہی ہے۔ یہ سین مردانگی اور کہانی کے اصل مقصد کا مرکز ہے۔ ہم بات کر رہے رنویر سنگھ کے نبھائے گئے کردارحمزہ علی مزاری پر جنسی حملے کی کوشش کی۔
یہ منظر پریشان کن اور ذہنی طور پر ہلا دینے والا ہے۔ یہ محض ایکشن سین نہیں، بلکہ ایک طاقت کے مظاہرے کو دکھاتا ہے۔
فلم میں کراچی کا علاقہ لیاری دکھایا گیا ہے، جہاں کہانی میں گینگ وار، سیاسی چالیں اور خونی کھیل عام نظر آیا۔ لیکن فلم اچانک ایک لمحے کے لیے سست ہو جاتی ہے تاکہ ایک نوجوان کا تعارف کرایا جاسکے۔ حمزہ نامی ایک بھارتی جاسوس جو بلوچ نوجوان کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، لیاری کے اندھیرے پہلو کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے: ایک ایسی دنیا جہاں تسلط طاقت ہے اور ذلت ہتھیار۔
فلم میں لیاری کو محض ایک پرانے محلے کے بجائے طاقت کا مرکز دکھایا گیا ہے، جیسا کہ راکیش بیدی کا کردار جمیل جمالی کہتا ہے ”لیاری پر حکمرانی کرو گے تو کراچی پر حکمرانی کروگے، کراچی پر حکمرانی کا مطلب ملک کی حکمرانی“۔
حمزہ کا مشن ہے کہ وہ رحمان ڈکیت کے گینگ میں گھسے، اس کا اعتماد جیتے اور اتنا قریب پہنچے کہ شہر کے حالات پر اثر ڈال سکے۔
لیکن جیسے ہی وہ بھول بھلیاں میں قدم رکھتا ہے، بھول بھلیاں اس کے اندر داخل ہو جاتی ہے۔
یہاں ایک ضروری انتباہ: آگے ایک حساس منظر کی بات ہو رہی ہے جو کچھ ناظرین کے لیے اسپوائلر ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو آگے بڑھنے سے پہلے آگاہ رہیں۔
فلم کے آغاز میں جب حریف گینگ کے افراد حمزہ کو دیکھتے ہیں، تو ایک رسم شروع ہوتی ہے: تضحیک دھمکی میں بدل جاتی ہے، دھمکی تشدد میں اور تشدد جنسی حملے میں۔
ایک شخص حمزہ کو زمین پر گرا دیتا ہے اور اس کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اقدام ذاتی شوق کے لیے نہیں، بلکہ طاقت دکھانے کے لیے تھا۔ یہ سین طاقت کی زبان میں ادا کیے گئے جملے کی مانند ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ کون مالک ہے اور یہاں بچے رہنے کے لیے تمہاری اوقات کیا ہے۔
حمزہ کو تو پولیس کی اچانک آمد بچا لیتی ہے، مگر نفسیاتی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ بڑی جسامت والا مشن پر مرکوز اور بے خوف ہیرو اپنی جسمانی طاقت کسی رقص یا لڑائی کے بجائے ایک نازک انداز میں کھو دیتا ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ منظر محض خوف پیدا کرنے کے لیے نہیں عکس بند کیا گیا، بلکہ اس واقعے نے حمزہ کو مزید مضبوط بنا کر ابھارا۔
بھارتی سینما میں شاذ و نادر ہی یہ دکھایا جاتا ہے کہ مرد کردار بغیر کسی ڈرامے یا مزاح کے جنسی ہراسانی کا شکار ہوں۔ ڈایریکٹر آدتیہ دھر نے اس روایت کو توڑا ہے اور حمزہ کے تجربے کو صدمے کے بجائے سنجیدگی اور ایک مقصد کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اس منظر میں تین ناقابل برداشت سچائیاں دنیا کو دکھائی گئی ہیں: جنسی تشدد صرف خواتین تک محدود نہیں، طاقت جسم کو میدانِ جنگ کے طور پر استعمال کرتی ہے چاہے وہ جسم کسی کا بھی ہو، اور ہیرو کی کمزوری بھی کہانی کو آگے بڑھا سکتی ہے۔
اس واقعے کے بعد رنویر سنگھ کی خاموشی فلم کی سب سے طاقتور اداکاری ہے۔ کوئی شور، جذبات کا بھڑکاؤ یا دکھ کا اعلان نہیں، حمزہ زیادہ محفوظ اور جذباتی طور پر مضبوط ہو جاتا ہے۔
دھرندھر میں یہ چھوٹا سا منظر فلم کو زیادہ خوفناک اور ناقابلِ فراموش بنا دیتا ہے۔ جو مار کٹائی، خون، بربریت اور تشدد ہم پردے پر دیکھتے ہیں وہ الگ ہے، مگر وہ تشدد جو ہم واضح طور پر نہیں دیکھتے، وہ زیادہ دیرپا اور ہولناک اثر چھوڑتا ہے۔
یہ منظر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ حقیقی طاقت وہ ہے جو دماغ کو قابو میں کرلے، اور رنویر سنگھ کے کردار حمزہ کے ذریعے یہ پیغام خوفناک انداز میں پہنچایا گیا ہے۔