پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہ دینے کے فیصلے پر مجھے بھی اختلاف تھا، سابق سیکریٹری چیف جسٹس فائز عیسیٰ
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد مشتاق نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلے کا نشان آلاٹ نہ کرنے کے فیصلے پر انہیں بھی اپنے باس یعنی چیف جسٹس سے اختلاف تھا جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس کرنے کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کل سماعت کریگا
وی نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر مشتاق نے اسلام آباد کی بیکری میں پیش آنے والے واقعے سمیت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ہونے والے اہم واقعات سے پردہ اٹھایا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر محمد مشتاق جو خود بھی قانون کے پروفیسر ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بنتے ہی ان کے سیکریٹری تعینات ہوئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر وہ بھی ریٹائر ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر محمد مشتاق نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہیں ایسا بندہ چاہیے جو قابل اعتماد بھی ہو اور ان پر تنقید بھی کر سکے۔
مزید پڑھیں:بلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر
وی نیوز سے خصوصی انٹرویو کے دوران جب ڈاکٹر مشتاق سے پوچھا گیا کہ انہیں چیف جسٹس کے کسی فیصلے سے اختلاف بھی ہوا؟، تو ان کا کہنا تھا کہ ’انٹراپارٹی الیکشن (پی ٹی آئی کو بلے کے نشان کے لیے نااہل قرار دینے) کے فیصلے پر ان کے اور سابق چیف جسٹس کے درمیان تفصیلی مباحثہ ہوا اور ’جس ایک نکتے پر میں نے اختلاف کیا، وہ یہ تھا کہ یہ سب کچھ درست سہی، لیکن اب الیکشن سر پر آ چکے ہیں، اس لیے فیصلہ سنانے کے لیے یہ درست وقت نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھاکہ ان کی رائے میں الیکشن کمیشن کو بطور پارٹی سپریم کورٹ میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ’ جب الیکشن کمیشن بطور پارٹی سپریم کورٹ میں آئے اس میں بعد میں کچھ پرانی مثالیں بھی سامنے آئیں۔ پھر اس کے بعد میری یہ رائے تھی کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں چھوٹی موٹی تفصیلات میں نہیں جانا چاہیے تھا اور ’مائیکرو مینج‘ نہیں کرنا چاہیے تھا‘۔
اس کے بعد تیسرا سوال یہ تھا کہ الیکشن ہوئے یا نہیں ہوئے؟ تو اس پر چونکہ ان کے (پی ٹی آئی کے ) پاس کوئی دستاویز نہیں تھی اس لیے مجھے ہار ماننا پڑی۔
یہ بھی پڑھیں:پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس کے بعد آئینی بینچز جلد کام شروع کریں گے، سپریم کورٹ اعلامیہ
سابق سیکرٹری چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلے کی ٹائمنگ پر ان کے اعتراض کرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ سوال تھا کہ یہ تو پھر نظریۂ ضرورت ہوا کہ قانوناً یہ چیز غلط تھی مگر ہم اس لیے خود کو روک رہے ہیں کہ اس کے نتائج یہ ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر مشتاق نے کہا کہ ’ٹائمنگ پر میرا سوال ضرور تھا، مگر اب سوچتا ہوں کہ اس فیصلے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے پاس قانونی مواقع تھے جیسا کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا، کہ وہ اس فیصلے پر وضاحت حاصل کریں۔ یہ ماننا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے اس معاملے کو درست ہینڈل نہیں کیا‘۔
ڈاکٹر مشتاق نے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دفاع میں اتنا ضرور کہیں گے کہ وہ قانون کی کتاب سے آگے پیچھے نہیں جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس، جسٹس منصور کے ردعمل پر رانا ثنااللہ کی شدید تنقید
ان کا کہنا تھا کہ باقی جماعتوں کا کیس چوںکہ سپریم کورٹ میں نہیں تھا اس لیے ان کے مبینہ طور پر غلط انٹراپارٹی انتخابات پر سپریم کورٹ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
جس وقت بحث چل رہی تھی تو اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے کہا تھا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی؟۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال جنوری میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی فروری انتخابات میں بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سب سے اچھا فیصلہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا لگا جس کے تحت انہوں نے پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار تسلیم کیا اور سپریم کورٹ میں ایک چیف جسٹس کی ملوکیت ختم کردی۔
اسلام آباد کی بیکری میں کیا ہوا تھا؟ڈاکٹر مشتاق نے وی نیوز کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسلام آباد کی بیکری کے اسٹاف کے لیے ڈونٹ خریدنے خود اندر گئے کیونکہ وہ پروٹوکول کے قائل نہ تھے۔ وہاں اس شخص نے بدتمیزی کی اور وہ بھاگ گیا جبکہ اسٹاف کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی بینچز کی تشکیل اور مقدمات کی سماعت سے متعلق سپریم کورٹ کے ججز بھی منتظر
انہوں نے بتایا کہ جب مجھے قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا تو میں نے کہا کہ یہ واقعہ چھپنے والا تو نہیں ہے یہ میڈیا پر تو جائے گا تو کم از کم قانونی تقاضا پورا کرنے کے لیے پولیس رپورٹ درج کروائیں، وہ کروائی گئی۔ اس کے بعد کسی ادارے نے زیادہ فعالیت دیکھائی ہو تو الگ بات ہے مگر ہماری طرف سے یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
’سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں تھا اگر ہوتا تو میری جانب سے یا رجسٹرار آفس یا سپریم کورٹ اسٹاف افسر کی جانب سے ہوتا، ان سب کی طرف سے میں گواہ ہوں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا‘۔
مزید پڑھیں:چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے بدتمیزی کرنے والا وکیل مصطفین کاظمی گرفتار
ڈاکٹر مشتاق نے بتایا کہ بیکری کے ملازم کا تعلق ایک مذہبی تنظیم سے تھا اور پی ٹی آئی سے اس کا تعلق نہیں تھا۔ سابق ’سی ڈی اے‘ افسر اور وکیل مصطفین کاظمی کی جانب سے سپریم کورٹ میں بدتمیزی کے بعد ان پر تشدد کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر بھی کوئی ہدایت کی نہ ہی کچھ بلواسطہ طور پر کہا گیا۔
کیا قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے پر یوٹرن لیا؟سابق چیف جسٹس کے سیکریٹری سے پوچھا گیا کہ آیا ’ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی سے جسٹس منیب اختر کو نکال کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ہی فیصلے سے یوٹرن لیا تو ڈاکٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرڈینیسن پر عمل کیا کیونکہ وہ قانون تھا۔
مزید پڑھیے: سپریم جوڈیشل کمیشن نے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا، جسٹس امین الدین سربراہ مقرر
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ایک جج کو کمیٹی سے نکالے جانے کی بات ہے تو اس کے پیچھے وجوہات ہیں مگر چوں کہ وہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج ہیں اس لیے ان پر تفصیلی بات نہیں کی جا سکتی۔تاہم پچھلی کئی میٹنگز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو محسوس ہوا کہ کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تو اس لیے اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے انہیں وہ فیصلہ لینا پڑا جس کے تحت نئے جج (جسٹس امین الدین ) کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔
مزید پڑھیں: قادیانی مبارک احمد کیس میں پنجاب حکومت کی نظرثانی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر
اس سوال پر کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’مبارک ثانی کیس‘ کی دوسری نظرثانی کیوں کی؟ تو ڈاکٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ اس کو دوسری نظر ثانی اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ ضمانت کا معاملہ تبدیل نہیں ہوا تھا، تاہم صرف اپنے دیگر ریمارکس کی تصحیح کی تھی۔ اس پر ان کی ستائش کی جانی چاہیے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا احساس ہونے پر اس کی تصحیح کی۔
یہ بھی پڑھیں:مبارک ثانی کیس: متنازع پیراگراف حذف، سپریم کورٹ نے وفاق کی درخواست منظور کر لی
سابق چیف جسٹس کے سیکرٹری کا کہنا تھا کہ مبارک ثانی کیس میں ایک بڑے میڈیا گروپ کی غلط رپورٹنگ میں تاثر دیا گیا کہ کچھ دفعات کو قانون سے نکالا جائے حالانکہ فیصلے میں صرف اس کیس میں سے دفعات کو نکالنے کی بات کی گئی تھی کہ ان کا اطلاق اس ’ایف آئی آر‘ پر نہیں ہوتا۔
’یہ انتہائی افسوسناک تھا کہ بلاتحقیق ایسی خبر چلائی گئی جس سے حساس معاملے پر لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے‘
آج کل قاضی فائز عیسی کیا کر رہے ہیں؟ڈاکٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ قاضی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج کل لکھنے لکھانے میں مصروف ہیں اور اسلام اور ماحولیات پر شاید ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو جلد منظر عام پر آ جائے گی۔
میرا خیال ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اللہ نے جو صلاحیت اور مقام دیا ہے ان کے حامی اور مخالفین بھی بہت ہیں ان جیسی شخصیت کے لیے گمنامی کی زندگی گزارنا مشکل ہو گا اور میرا خیال ہے وہ کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹرویو بلے کا نشان بیکری پاکستان تحریک انصاف پرسنل پریکٹس اینڈ پروسیجر پی ٹی آئی جسٹس امین الدین جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس ڈاکٹر مشتاق رجسٹرار سابق جسٹس سازی سپریم کورٹ سیکریٹری فیصلہ کتاب کمیٹی گواہ مبارک ثانی کیس نظر ثانی وی نیوز یوٹرن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرویو بلے کا نشان بیکری پی ٹی ا ئی جسٹس امین الدین جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس سپریم کورٹ سیکریٹری فیصلہ کمیٹی مبارک ثانی کیس وی نیوز مبارک ثانی کیس سپریم کورٹ میں ان کا کہنا تھا سابق چیف جسٹس بلے کا نشان چیف جسٹس کے کی جانب سے پی ٹی آئی نے کہا کہ اس کے بعد نے بتایا انہوں نے نہیں کی کے لیے اس لیے کو بلے
پڑھیں:
عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔ذوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں، پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔