کراچی:

 دسمبر 2024ء کے دوران ترسیلات زر میں 3.1 ارب ڈالر آئے جو ماہ بہ ماہ 5.6 فیصد اضافہ ہے۔

کارکنوں کی ترسیلات زر میں مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی طور پر 17.8  ارب ڈالر آئے جو مالی سال 24ء  کی پہلی ششماہی کے موصول شدہ  13.4 ارب ڈالر کے مقابلے میں 32.8  فیصد اضافہ ہے۔ نمو کے لحاظ سے ترسیلات زر دسمبر 2024ء سال بسال 29.

3  فیصد اور ماہ بہ ماہ 5.6 فیصد  بڑھ گئیں۔

دسمبر 2024ء کے دوران ترسیلاتِ زر زیادہ تر سعودی عرب (770.6 ملین ڈالر)، متحدہ عرب امارات (631.5 ملین ڈالر)، برطانیہ (456.9 ملین ڈالر) اور ریاست ہائے متحدہ امریکا (284.3  ملین ڈالر) سے آئیں۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے دسمبر 2024 میں سب سے زیادہ  770.6 ملین ڈالر بھیجے۔ ماہانہ بنیادوں پر یہ رقم 6 فیصد زیادہ تھی لیکن گزشتہ سال کے اسی مہینے میں تارکین وطن کی جانب سے بھیجے گئے 577.6 ملین ڈالر کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ تھی۔

متحدہ عرب امارات سے ماہانہ بنیادوں پر ترسیلات زر میں 2 فیصد اضافہ ہوا جو نومبر میں 619.4 ملین ڈالر سے دسمبر میں 631.5 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ سالانہ بنیادوں پر ترسیلات زر میں تقریبا 51 فیصد اضافہ ہوا کیونکہ گزشتہ سال کے اسی مہینے میں ترسیلات زر 419.2 ملین ڈالر تھیں۔

دسمبر 2024 میں برطانیہ سے ترسیلات زر کا حجم 456.9 ملین ڈالر رہا جو نومبر 2024 میں 409.9 ملین ڈالر کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے۔ برطانیہ سے سالانہ آمد میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

دسمبر 2024 میں امریکا میں مقیم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 284.3 ملین ڈالر بھیجے جو ماہانہ بنیاد پر ایک فیصد کمی ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے ترسیلات زر میں 11 فیصد اضافہ ہوا اور یہ نومبر میں 323.5 ملین ڈالر کے مقابلے میں دسمبر 2024 میں 360.3 ملین ڈالر رہیں۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

قرض ادائیگی کا دباؤ، زرمبادلہ ذخائر محدود، بینک درآمدی بلوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے لگے

اسلام آباد:

کمرشل بینکوں نے غیر ملکی کرنسی کی محدود دستیابی کی وجہ سے درآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں ایک بار پھر تاخیر شروع کر دی ہے۔ جون کے آخر سے قبل بڑے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی زر مبادلہ ذخائر کو ڈبل ڈیجیٹ میں رکھنے کی شرط پر عمل بھی جاری رکھنا ہے۔

متعدد بینکرز کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت کے مطابق یہ صورتحال مرکزی بینک کو ضمانت دیتی ہے کہ وہ یا تو مارکیٹوں سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری کو مکمل طور پر روک دے یا ڈالر کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے اس میں زبردست کمی کرے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتے کے روز اس معاملے پر کوئی سرکاری موقف نہیں دیا۔ بینکنگ اور مارکیٹ کے ذرائع نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا کہ کچھ بڑے اور چھوٹے بینک درآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں دو سے تین ہفتوں تک تاخیر کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم سیکٹر کا درآمدی بل 1750 ارب ہے جسے کم کرنا بڑا چیلنج ہے وزارت توانائی

بینک کچھ بڑے درآمد کنندگان کو لیٹر آف کریڈٹس کی کلیئرنس کے لیے انٹربینک سے زیادہ شرحوں پر ڈالر بھی فراہم کر رہے تھے۔ اس  صورتحال کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قیمت کا فرق وسیع ہونا شروع ہوگیا۔

بینکنگ اور کرنسی مارکیٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انٹربینک ریٹ 282 روپے فی ڈالر سے زائد تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 285 روپے کے قریب مل رہا تھا۔ ایک نجی بینک کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے کہا ہے  کہ  2022 کے بحران کے مقابلے میں صورتحال زیادہ خراب نہیں ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ مارکیٹ میں قیاس ارائیوں سے بچنے کے لیے مرکزی بینک نوٹس لے۔ 

متعلقہ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی کرنسی اوپن اور انٹربینک دونوں بازاروں میں دباؤ میں آئی۔ لیکن یہ ایک عارضی رجحان ہے اور جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ پاکستان سٹیٹ آئل اور پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ کو بھی اپنی درآمدات کی ادائیگی کے لیے ڈالر کی صحیح قیمت حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا  ہے۔

ذرائع نے بتایا  پی ایس او نے پچھلے معاہدے کے مقابلے میں اپنی تازہ ترین درآمدی ادائیگی کے لیے تقریباً 3 روپے زیادہ قیمت ادا کی۔ اس سے صارفین کے لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ واضح رہے پاکستان اگلے ماہ چین کو 2.4 بلین ڈالر کے غیر ملکی تجارتی قرضوں کی ادائیگی کرنے والا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پٹرولیم گروپ کا درآمدی بل نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا

اس کے علاوہ  کچھ دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کو بھی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس وقت  زرمبادلہ ذخائر 11.5 بلین ڈالر ہیں۔ زر مبادلہ ذخائر کو ڈبل ڈیجیٹ میں رکھتے ہوئے  یہ ذخائر  ادائیگیوں کے لیے ناکافی ہیں۔ آئی ایم ایف نے جون کے آخر تک کے نیٹ انٹرنیشنل ریزرو (این آئی آر) کے ہدف کو مزید سخت کر کے منفی 7.5 بلین ڈالر کر دیا جو گزشتہ سال ستمبر میں طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 1.1 بلین ڈالر کی مزید سختی ہے۔

ایک اور بینک کے سینئر ایگزیکٹو نے بتایا کہ برآمدات اور ترسیلات زر درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن چیلنج مالیاتی اکاؤنٹ تھا جو شرح مبادلہ پر دباؤ ڈال رہا تھا۔ مرکزی بینک کو مارکیٹ کے حالات کو آسان بنانے کے لیے چند ہفتوں تک ڈالر نہیں خریدنا چاہیے۔ 

مرکزی بینک کے گورنر علی جمیل نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ  اسٹیٹ بینک نے ذخائر کی تعمیر کے لیے 2024 میں مقامی مارکیٹ سے 9 بلین ڈالر سے زیادہ خریدے تھے۔ سٹیٹ بینک کے ترجمان نے روپے اور ڈالر کی برابری پر حالیہ دباؤ کی وجوہات اور  اسی طرح  درآمدات سے متعلق موخر ادائیگیوں کی وجہ سے ایک ارب ڈالر کے التوا ہونے کی بابت  سوال کا جواب دینے سے بھی گریز کیا۔

متعلقہ مضامین

  • قرض ادائیگی کا دباؤ، زرمبادلہ ذخائر محدود، بینک درآمدی بلوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے لگے
  • حکومت پر اعتماد کرنے والے شہریوں میں نمایاں ترین اضافہ،سروے رپورٹ جاری
  • پاکستانی شہری حکومتی کارکردگی اور معاشی سمت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں؟؛ رپورٹ
  • کرپٹو کرنسیوں پر کوئی پابندی نہیں، اسٹیٹ بینک کی وضاحت
  • آنے والے دنوں میں کتنی افرادی قوت باہر جا سکتی ہے، پاکستان کی ترسیلات زر میں کتنا اضافہ ہوگا؟
  • پاکستان میں ورچوئل اثاثے غیرقانونی نہیں ہیں، اسٹیٹ بینک
  • پاکستان اور ورلڈ بینک کا اشتراک، 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فریم ورک طے
  • معاشی آؤٹ لک رپورٹ جاری،فچ ریٹنگ میں پاکستانی معیشت اپ گریڈ
  • پنجاب میں ورلڈ بینک کے تعاون سے 2.4 ارب ڈالر کے 12 منصوبے جاری ہیں، مریم نواز
  • زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں 7 کروڑ ڈالر کا اضافہ