ویب ڈیسک — 

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی یا اقتصادی اقدامات کو مسترد کرنے سے انکار کے بعد، روس نے کہا ہے کہ وہ گرین لینڈ کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم اس صورت حال میں ہونے والی ڈرامائی پیش رفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اور خدا کا شکر ہے کہ ابھی یہ معاملہ بیانات کی سطح پر ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ آرکٹک زون سے ہمارے قومی اور اسٹرٹیجک مفادات جڑے ہیں۔ ہم آرکٹک زون میں موجود ہیں اور ہم وہاں اپنی موجودگی قائم رکھیں گے۔

گرین لینڈ کا ایک بڑا حصہ، جو زیادہ تر آرکٹک سرکل کے اوپر واقع ہے، سرکاری طور پر 1953 سے ڈنمارک کی بادشاہت کا حصہ چلا آ رہا ہے، تاہم اس جزیرے پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت قائم ہے۔

گرین لینڈ میں قائم ایک امریکی فوجی مرکز پیتوفک اسپیس بیس کا ایک منظر۔ 4 اکتوبر 2023

قومی سلامتی کا معاملہ

منگل کے روز فلوریڈا میں ایک نیوز کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو سیکیورٹی کے مقاصد کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی یا اقتصادی ذرائع استعمال کرنے کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آیا ڈنمارک کا اس پر کسی طرح کا کوئی قانونی حق ہے۔ لیکن اگر کوئی حق ہے بھی تو انہیں اس سے دستبردار ہو جانا چاہیے، کیونکہ ہمیں اپنی قومی سلامتی کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کر رہے ہیں۔ 8 جنوری 2025

ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ اس تمام علاقے میں چین کے بحری جہاز ہیں۔ تمام علاقے میں روس کے بحری جہاز ہیں۔ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔

ایک تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کی تجزیہ کار لیانا فکس کہتی ہیں کہ آرکٹک کے زیادہ تر حصے کی طرح گرین لینڈ بھی تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آرکٹک تیزی سے بڑی طاقتوں کی مسابقت اور دشمنی کا زون بن رہا ہے۔ اور امریکہ کو یہ تشویش ہے کہ وہ یہ کھیل ہار رہا ہے۔

لیانا فکس نے کہا کہ آرکٹک کا علاقہ تجارتی سامان بلکہ اہم معدنیات، خاص طور پر زمین سے نکلنے والی نایاب معدنیات، دونوں حوالوں سے زیادہ قابل رسائی ہو گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک فوجی زون بھی بن رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس اس خطے میں چینی ساحلی محافظوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

گرین لینڈ برائے فروخت نہیں

ڈنمارک نے یہ واضح کر دیا ہے کہ گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔ ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکی راسمیسن نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ ٹرمپ کے بیانات، ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کے لیے بحران کا باعث بن رہے ہیں۔




راسمیسن نے بدھ کے روز کہا کہ میں ایک ایسے صدر کو دیکھ رہا ہوں، جو وائٹ ہاؤس جانے کے راستے پر ہیں۔ جن کی زیادہ توجہ آرکٹک پر ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ علاقہ ان کے پاس ہے۔ ڈنمارک کی طرف سے یہ علاقہ ہمارے پاس بھی ہے۔ اور ہمارے پاس یہ نیٹو کے اندر بھی ہے۔

تجزیہ کار فکس کہتی ہیں کہ ڈنمارک کو مخمصے کا سامنا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈنمارک پر بھی یہ پوری طرح واضح ہے کہ امریکہ کی طرف سے گرین لینڈ میں نہ صرف سرمایہ کاری میں تعاون بلکہ فوجی تعاون بھی حقیقتاً ہر ایک کے فائدے میں ہو گا۔

کئی یورپی رہنماؤں نے ٹرمپ کے بیانات کو مسترد کر دیا ہے، تاہم زیادہ تر نے ایک ایسے صدر پر، جو عنقریب اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، براہ راست تنقید سے اجتناب کیا۔

جرمنی کے چانسلر اولف شولز، فائل فوٹو

جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ مغرب کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں کے ناقابل تسخیر ہونے کے اصول کا اطلاق ہر ملک پر ہوتا ہے، چاہے وہ ہمارے مغرب میں ہو یا مشرق میں ہو۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل برو نے زیادہ براہ راست بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے لیے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی ملک کو، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اور مجھے روس سے شروع کرتے ہوئے کہنے دیں ۔۔۔ کہ وہ خودمختار سرحدوں کی وضاحت کرے۔

گرین لینڈ کی آزادی

اس دوران گرین لینڈ کی حکومت مکمل آزادی کے لیے ریفرنڈم کرانے پر زور دے رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کریں گے۔

گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگیڈ، فائل فوٹو

گرین لینڈ کے وزیر اعظم موٹ بوروپ ایگیڈ نے جمعرات کو کوپن ہیگن کے اپنے دورے کے دوران کہا، "گرین لینڈ ایک نئے دور اور ایک نئے سال کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ گرین لینڈ کے لوگ، اس سے قطع نظر کہ وہ کہاں رہتے ہیں، اس کے ہی عوام ہیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی طرح، ہمیں اپنے ملک کو ایک نئے مستقبل کی راہ پر ڈالنے کے لیے لازمی طور پر متحد ہونا چاہیے۔”

(وی او اے نیوز)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل گرین لینڈ کی گرین لینڈ کے کو مسترد کر کہنا تھا کہ کا کہنا میں ہو کے لیے رہا ہے کہا کہ کر دیا نے کہا

پڑھیں:

چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا

چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 25 July, 2025 سب نیوز

بیجنگ :اس سال چین اور یورپی یونین کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 50 ویں سالگرہ ہے، اور چین یورپی یونین تعلقات ایک اہم تاریخی موڑ پر پہنچ گئے ہیں. چینی صدر شی جن پھنگ سے بیجنگ میں یورپی کونسل کے صدر کوسٹا اور یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیئن نے ملاقات کی، جو  بیجنگ میں چین-یورپی یونین رہنماؤں کے 25 ویں اجلاس کے لئے چین آئے تھے۔شی جن پھنگ نے ملاقات میں  “باہمی احترام  کی بنیاد پر شراکت داری  کو  مضبوط بنایا جائے”، “کھلے تعاون سے تنازعات کو  حل کرنے” اور “کثیر الجہتی پر عمل کرتے ہوئےعالمی قواعد اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے” پر زور دیا ۔ صدر شی کی جانب سے پیش کی جانے والی ان تین تجاویز نے چین اور یورپی یونین کو  تعاون پر توجہ مرکوز کرنے، مداخلت کو  دور کرنے اور مشترکہ طور پر  عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے  اسٹریٹجک رہنمائی فراہم کی۔ 

حالیہ برسوں میں، یورپی فریق نے چین کو “شراکت دار، معاشی مقابل، اور ادارہ جاتی مخالف” کے طور پر پیش کیا ہے، جس کی بدولت چین کے بارے میں یورپی موقف میں اکثر تضادات اور تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جبکہ چین نے ہمیشہ یورپ کو ایک “شراکت دار” کے طور پر دیکھا ہے۔ جب بھی چینی اور یورپی یونین کے رہنما ملتے ہیں، چین ہمیشہ چین-یورپی یونین تعلقات کی ترقی کے لئے مثبت پیغام دیتا  ہے. اقتصادی و تجارتی تعاون ہمیشہ چین  یورپی یونین تعلقات کا “اسٹیبلائزر” اور “بوسٹر” رہا ہے۔ جب تک ہم چین-یورپی یونین تعاون کی حقیقت کو منطقی طور پر دیکھتے ہیں تو یہ پتہ چلےگا  کہ باہمی انحصار خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی مفادات کا امتزاج۔ چین اور یورپی یونین کےدرمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کا جوہر تکمیلی برتریاں، باہمی فائدے اور جیت نے والے نتائج ہیں. دو بڑی معیشتوں کی حیثیت سے چین اور یورپ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی  اختلافات ناگزیر تو  ہیں، لیکن بات چیت اور مشاورت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنا اہم اور ممکن ہے۔ 50 سال گزرنے کے بعد  چین یورپی یونین تعلقات اب ایک نئے نقطہ آغاز پر کھڑے ہیں.چاہے بین الاقوامی صورتحال میں کتنی ہی زیادہ تبدیلیاں رونما کیوں نہ ہوں ، تعاون چین  یورپی یونین  تعلقات کا مرکزی دھارہ رہنا چاہئے – اس پر قائم رہتے ہوئے  چین – یورپی یونین تعلقات  صحیح سمت میں رہیں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور چین کی افواج کے درمیان تعلق باہمی تعلقات کا اہم ستون ہیں، چینی فوجی کمیشن چینی صدر نے چین میں 16 نئے غیر ملکی سفیروں سے سفارتی اسناد  وصول کیں دنیا  امریکہ کی اداروں اور معاہدوں سے’’ دستبرداری‘‘کی عادی ہو گئی ہے، سی جی ٹی این کا سروے نو چینی شہروں کو بین الاقوامی ویٹ لینڈ سٹی کا درجہ بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام شدید متاثر ہے، چینی وزیراعظم پاکستان میں سونے کی قیمت کو بریک لگ گئی، ہزاروں روپے کی بڑی کمی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان بہترین مقام بن چکا ہے، وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس گھنٹوں معطل
  • چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا
  • موجودہ حالات کے ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں ادارے بھی ہیں، پرویزالہیٰ
  • گنڈا پور مولا جٹ کی طرح بیانات دیتے ہیں کے پی میں تو آپریشن چل رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر خیبرپختونخوا
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کل اپنی والدہ کے آبائی ملک سکاٹ لینڈ کا نجی دورہ کریں گے
  • غزہ: حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو تباہ کن حالات کا سامنا، یو این ادارہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا باراک اوباما پر غداری کا الزام، سابق صدر نے ردعمل میں کیا کہا؟
  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے
  • بھارت کی دوبارہ سبکی، امریکی صدر نے 5 طیارے گرانے کا ذکر پھر چھیڑ دیا