مذاکراتی عمل اور عمران خان کی رہائی
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
ایک طرف مذاکرات کا مذاق چل رہا ہے جس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات ہیں اور دوسری طرف 190ملین پونڈ میں سزا کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا کمال ہے کہ اس نے عمران خان کے فین کلب کو اس بات پر پوری طرح قائل کر رکھا ہے کہ بس کوئی دن جاتا ہے کہ عمران خان کی رہائی ہوئی سو ہوئی اور اس کے باوجود یہ کمپین جاری ہے کہ فی الحال اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔ مذاکرات تو سبو تاژ ہو چکے اور ان سے جس نے بھی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی امید لگائی تھی وہ احمقوں کی جنت میں رہتا تھا ۔ ان سے کوئی نتیجہ نکلنا تھا اور نہ نکلا لیکن پھر بھی یہ انتہائی احمقانہ بات کہی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بانی پی ٹی آئی کے پاﺅں پڑ رہی ہے کہ آپ مہربانی کر کے ہماری بات مان لیں اور رہائی قبول کریں ۔ کیا ملک میں حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں جلسے جلوس ہڑتالیں کیا پورا ملک جام ہو چکا ہے اور کاروبار مملکت چلانا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے اور بنگلا دیش جیسی صورت حال ہو چکی ہے ۔ اگر تو ایسا ہے تو پھر تو اسٹیبلشمنٹ کا بانی پی ٹی آئی کے ترلے منت کرنا بنتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور ہر چیز نارمل ہے تو پھر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آخر اسٹیبلشمنٹ کو کیا پڑی ہے کہ وہ جیل میں جا کر بانی پی ٹی آئی کے پاﺅں پڑے لیکن سوشل میڈیا پر بھائی لوگوں کو دکان داری چمکانے کے لئے اس طرح کے چورن بیچنے کی مجبوری ہوتی ہے لہٰذا وہ تو یہ کام کرتے رہیں گے لیکن اس تمام تر پروپیگنڈا کے باوجود بھی قانونی اور سیاسی تجزیہ کاروں کی ایک بہت بڑی اکثریت 190ملین پونڈ میں بانی پی ٹی آئی کو سزا ہوتا دیکھ رہی ہے اور سزا کو موخر ہی اسی لئے کیا جا رہا ہے کہ ہائی کورٹس کی سطح پر
اس سزا کے ختم کرنے کے امکانات کو ہی ختم کر دیا جائے ۔ کل کو اس کیس میںکیا فیصلہ ہوتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا لیکن اگر اس میں بری ہی کرنا ہوتا تو دو لائنوں کا فیصلہ اب تک آ چکا ہوتا ۔
ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ تحریک انصاف والے کیوں اور کس حد تک خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہیں کہ انھیں سوشل میڈیا پر صرف ویوز چاہئیں اور اپنی بوٹی کی خاطر یہ ملک و قوم ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کا بکرا بھی ذبح کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر پاکستان تشریف لائے تو وہ پاکستان کے ایک معزز مہمان کی حیثیت سے تشریف لائے تھے اور کسی بھی سربراہ مملکت کا اپنا ایک پروٹوکول ہوتا ہے ۔ اسی کے تحت وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ بھی ان سے ملیں ۔ محترمہ مریم نواز نے ان سے ہاتھ ملایا تو اس پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان بد تمیزی بپا کر دیا گیا ۔ یہ کام جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی انتہائی شرم ناک کہا جا سکتا ہے اسے کرتے ہوئے یہ لوگ اس بات کو بھول گئے کہ مریم نواز صاحبہ پر کیچڑ اچھالنے سے بات صرف مریم نواز تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس میں متحدہ عرب امارات کے صدر کی ذات پر بھی حرف آئے گا اور پھر یہی ہوا کراچی میں یو اے ای کے قونصلر جنرل نے انتہائی سخت لہجہ اور الفاظ میں خبردار کیا کہ اگر پاکستان کے اداروں یا امارات کے صدر بارے گفتگو کرو گے تو ڈی پورٹ ہو جاﺅ گے عمر قید ہو گی اور اگر ری پوسٹ یا لائیک کریں گے تو آپ کی ہسٹری بنے گی اور آپ کو کبھی دوبئی کا ویزا نہیں ملے گا۔ کوئی بھی عمل وہ ایک حد تک ہی چل سکتا ہے لیکن اگر حدود کراس ہونا شروع ہو جائیں تو پھر اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ۔ اب انتہائی احمقانہ اور مضحکہ خیز انداز میں ایک طرف ہاتھ ملانے پر طوفان بد تمیزی اور دوسری طرف یہ پروپیگنڈا کہ امارات کے صدر نے میاں شہباز شریف کو زور دے کر کہا ہے کہ ان کے ” دوست “ عمران خان کو فوری رہا کرو ۔ اس سے پہلے چند ماہ قبل جب ملائیشیا کے وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو اس وقت بھی یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ انھوں نے عمران خان کی رہائی کی بات کی ہے بلکہ اس وقت تو ایک قدم آگے جا کر یہ بھی کہا گیا کہ وہ بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت پاکستان نے اجازت نہیں دی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملائیشین دفتر خارجہ کی جانب سے ایسی کسی بات کا ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ در حقیقت یہ سارے انتہائی احمقانہ ہتھکنڈے سیڑھیاں لگا کر قد بڑھانے کے مترادف ہیں کہ جن سے قد کبھی بڑھا نہیں کرتے بلکہ الٹا جگ ہنسائی ہوتی ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف کا وہ سوشل میڈیا کہ جسے بیانیہ بنانے میں ماہر سمجھا جاتا ہے اب اس کا معیار اس حد تک گر گیا ہے کہ بیانیہ بنانا تو دور اس کا جھوٹ چند گھنٹے بھی نہیں چل پا رہا ۔
اب ایک فیکٹر رہ گیا ہے کہ امریکہ اور ٹرمپ کا تومنگل کو امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بانی پی ٹی آئی کے مقدمات کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دے کر تحریک انصاف کی امیدوں پر کافی حد تک پانی پھیر دیا ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹرمپ کے آنے پر دفتر خارجہ اپنے موقف میں360ڈگری کا یو ٹرن لے کر لٹھ لے کر پاکستان کے پیچھے پڑ جائے ۔ اب جہاں تک ٹرمپ کی بات ہے تو بالفرض محال اگر کوئی دباﺅ آتا بھی ہے تو تین آپشن ہیں ایک تو بالکل مسترد ، دوسرا ٹھیک ہے رہا کر دیں گے لیکن بیرون ملک جانا ہو گا اور تیسرا 9مئی پر معافی مانگنا ہو گی لیکن جس طرح امریکہ میں لابسٹ پاکستان مخالف بیانیہ بنا کر اور بانی پی ٹی آئی کے اکاﺅنٹ سے جس طرح کے ٹویٹس کئے جا رہے ہیں تو اس میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک طبقہ بھی ضد پر آ رہا ہے کہ اب جو بھی ہو لیکن رہائی نہیں ہو گی ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی کے امارات کے صدر تحریک انصاف پاکستان کے سوشل میڈیا مریم نواز کی رہائی رہا ہے ہے اور اس بات
پڑھیں:
جی ایچ کیو حملہ کیس: جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس، عمران بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوں گے
لاہور؍ اسلا م آباد؍ راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار+ آئی این پی) پنجاب حکومت نے جی ایچ کیو حملہ کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے جی ایچ کیو حملہ کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس لے کر نیا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کی واپسی کے بعد جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اب اڈیالہ جیل کے بجائے انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی میں ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس اور دیگر مقدمات کے باقی ملزمان اے ٹی سی راولپنڈی پیش ہوں گے جبکہ عمران خان کو ضرورت کے مطابق ویڈیو لنک پر پیش کیا جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ 2 کیس کا اڈیالہ میں جیل میں جاری ٹرائل حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا۔ سابق وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد احمد اور ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کرنل ریحان کا بیان قلمبند کرلیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے وکلا نے دونوں گواہان کے بیانات پر جرح بھی مکمل کرلی۔ مقدمے میں مجموعی طور پر 18 گواہان کی شہادت قلمبند کرکے جرح بھی مکمل کرلی گئی۔ مقدمے کی سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔ استغاثہ کے گواہ نیب افسر محسن ہارون کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کرلیا گیا۔ سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو جیل سے کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر کے رخصت پر ہونے کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی کے میڈیا بیانات پر پابندی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت نہ ہو سکی۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کو دلائل دینے کی ہدایت‘ وفاقی حکومت اور چیئرمین پیمرا سے جواب طلب کر رکھا ہے۔