وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بجا طور پرکریڈٹ لیتے ہیںکہ انہوںنے چینی کی سمگلنگ روک دی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب چینی سرپلس بھی ہے اورایکسپورٹ ہو کر پچاس کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ بھی دے رہی ہے جبکہ پہلے یہ صرف بحران دیتی تھی۔ ایک سیاسی رہنما کی غلط فہم و فراست کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اینٹی فوج بیانیے کی وجہ سے الزام لگا یاجاتا ہے کہ سرحدوں پر فوج ہوتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ فوج کی ملی بھگت کے بغیر سمگلنگ ہوجائے۔ جو لوگ نہ تفصیلات سے آگاہ ہیں اور نہ ہی جوابی بیانیے سے، وہ اس پروپیگنڈے سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ میں اعداد و شمار میں بعد میں جاﺅں گا، پہلے ایک ’جٹکی‘ دلیل کے مقابلے میں ویسی ہی دلیل پیش کروں گا کہ اگر فوج یا نیم فوجی ادارے ہی سمگلنگ میں ملوث ہیں تو وہ صرف افغانستان یا ایران کے سرحدی علاقوں میں سمگلنگ کیوں کرواتے ہیں، یہی ادارے اور ان کے افسر انڈیا اور چین کی ساتھ ملنے والی سرحدوں پر بھی ہیں تو وہاں سے مال کیوں نہیں بناتے؟ مان لیجئے ہزاروں ایسے آئٹمز ہیں جو ایران یا افغانستان کی بجائے انڈیا اور چین سے سمگل ہوکر یہاں کی مارکیٹ میں بڑا پرافٹ دے سکتے ہیں۔
چلیں، کچھ اعداد وشمار دیکھیں، پاکستان کا مجموعی بارڈرتقریبا7303 کلومیٹر طویل ہے ، افغانستان کے ساتھ2640 کلومیٹر جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتاہے ،ایران پاکستان بارڈر 959 کلومیٹر، چین پاکستان بارڈر 559کلومیٹر اور انڈیا کے ساتھ 3190 کلومیٹر یعنی یہ سب سے طویل۔ پہلے ہم افغانستان کی بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی اضلاع میں رہنے والے صدیوں سے سامان کی نقل و حمل میں مصروف ہیں بلکہ یہ کہیں کہ ان علاقوں کے آدھے زیادہ خاندان اسی کاروبار سے وابستہ ہیں، سو وہ اسے سمگلنگ نہیں تجارت کہتے ہیں۔ وہ اسے بند کرنے یا اس پر سختی کے ہرگز حامی نہیں اور یہاں وہ ایک جائز مطالبہ کرتے ہیںکہ اگر ریاست اس ’تجارت‘ کو بند کرتی ہے تو وہ شہریوں کومتبادل روزگار دے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اسلام آباد، لاہور یا کراچی میں اس سمگلنگ کو بند کرنے پر پاکستان کی حکومت اور فوج کو سراہتی ہیں انہی کے نچلی تنظیمیں کوئٹہ یا پشاور میں اس کی مخالفت کرتی ہیں مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ افغان ٹریڈ ہماری معیشت کے کئی سو ارب ڈالر کھا جاتی ہے اور اب یہ قابل قبول نہیںہے۔ میرا موضوع یہ ہے کہ پاک فوج کو اس پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اوراصل بات یہ ہے کہ اس سمگلنگ کے ساتھ جرائم کی دنیا جڑی ہوئی ہے اور اس جرائم کی اس دنیا کو اسی سمگلنگ سے ہر روز کئی سو ارب روپوں کی کمائی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سمگلنگ ختم کرنے کے خلاف ہزاروں لوگوں کے ایسے دھرنوں کے خرچے اٹھا لئے جاتے ہیں جو کئی کئی ماہ تک چلتے ہیں، اسی مقامی طور پر جائز اور ضروری’تجارت ‘ کے ساتھ دہشت گردوں کی بھی نقل وحمل ہوجاتی ہے جو ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید کر کے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔
پروپیگنڈے پر مت جائیںبلکہ سوچیں کہ سرحدوں پر موجود ادارے ہی سمگلنگ کے واحد اور بااختیار پلیئر ہوتے تو وہ صرف افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر سمگلنگ کیوں کرواتے، وہ انڈیا اور چین کی سرحدوں پر بھی اس کو جاری رکھتے۔ اب آپ کہیں گے کہ انڈیا ا ور چین کی بارڈر پر موجود سیکورٹی فورسز اس کی اجازت نہیں دیں گی تو یہی میرا مقدمہ ہے کہ یہ سمگلنگ کبھی ایک طرف کی اجازت سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ایک طرف کی پابندی سے روکی جاسکتی ہے۔پاکستان کی فوج اور حکومت اس وقت پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس سمگلنگ کو روک دیا جائے لیکن افغانستان کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے بلکہ پاکستان کی پانچ، چھ چوکیوں کے بعد ایک افغان چوکی ہے اور وہ بھی مکمل چوکنی اور فعال نہیں۔ افغانستان کے ساتھ اڑھائی ہزار سے کچھ زیادہ کلومیٹروں کی سرحد بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ یوں ہے کہ کسی جگہ پر ایک سرحدی نگرانوں کے پاس پچاس ، ساٹھ کلومیٹر کا علاقہ ہے اور بیشتر پہاڑی،جس پر ہر وقت پٹرولنگ یا نظر رکھنا ممکن ہی نہیں۔ یوں علاقائی لوگوں کو ایف سی اور رینجرز وغیرہ کی موجودگی کے باوجود بیچ میں ایسے راستے مل جاتے ہیں کہ وہ سرحد پار کرجاتے ہیں۔ شائد آپ کو میری اس دلیل کے بعد بات پوری طرح سمجھ آئے کہ امریکا کو میکسیکوکی سرحد کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔ امریکا وہ ملک ہے جو کہتا ہے کہ دنیا میں کہیں سوئی بھی گرے تواس کی ٹیکنالوجی کی نظر سے چھپی نہیں رہ سکتی مگر اس کے باوجود صدر ٹرمپ کو اپنے پچھلے دور میں وہاں دیوار تعمیر کرنا پڑی اور اب بھی وہ اسی معاملے پر چیخ رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، ہماری فوج پروفیشنل بھی ہے اور ٹیلنٹڈ بھی اور اس نے امریکی فوج سے بڑھ کے یہاں پر نتائج دئیے ہیں۔
میں نے معاملے کا ایک پہلو بیان کیا کہ افغانستان سے سمگلنگ کو وہاں کے لوگ معمول کی تجارت سمجھتے ہیں اورجنہیں روکا جائے ان کے پاس متبادل روزگار ہونا چاہئے۔ دوسرا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم پاکستان کے ان اضلاع کی طرف دیکھتے ہیں جہاں پر ایرانی ڈیزل اور پٹرول آتا ہے تو ہمیں دیکھناپڑے گا کہ یہ پٹرول اور ڈیزل استعمال کہاں ہوتا ہے۔ بہت سارے علاقے وہ ہیں جہاں پی ایس او سمیت ہمارے پٹرولیم مصنوعات کے قومی اداروں کی رسائی ہی نہیں ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سخت سردی میںزندگی کو برقرار رکھنے کے لئے جنریٹر چلانا ضروری ہے اور اس کے لئے ڈیزل۔ سمگلنگ روکی جا رہی ہے اور پہلے جو ایرانی ڈیزل ساٹھ ، ستر روپے لیٹر مل جاتا تھا اب وہ طلب و رسد کے اصول کے وجہ سے دو سو روپے لیٹر سے او پر جا چکا ہے۔کئی لوگ کہتے ہیں کہ جب تک ان دور دراز علاقوں میں میں تیل کی سپلائی کا تسلی بخش نظام نہ ہوسمگلنگ کو روکنا اس علاقے کوموت کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا یعنی سمگلنگ روکنے کے حل کے ساتھ کئی دوسرے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے اور سب سے بڑا اور خوفناک معاملہ یہ ہے کہ سمگلنگ کے ساتھ سیاست اور دہشت گردی کا ٹرائینگل ہے جو سب ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ وہ گرہیں جو ہم نے یا شائد قدرت نے صدیوں میں لگائی ہیںاور اب انہیں کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ حالات کی گرد پڑنے کے بعد بہت سخت ہوچکی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھوںکی لگائی ہوئی کئی گرہیں دانتوںسے کھولنی پڑتی ہیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف نے عشروں ( یا صدیوں) سے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ سمگلروںکے ساتھ ساتھ پراپرٹی مافیا اوراس کے ایجنٹوں کی بھی آرمی چیف تک رسائی ختم ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بگڑے معاملات یوں درست ہوتے جا رہے ہیں جیسے ان کے پاس جادو کی چھڑی ہو۔
.
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سمگلنگ کو کے ساتھ ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: ترک صدر رجب طیب ایردوان کاکہنا ہے کہ مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اسرائیلی حملوں کے شکار فلسطینی عوام کی ہر ممکن مدد جاری رہے گی۔
بین الاقوا می میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک وزارتِ خارجہ کی نئی عمارت کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کر تے ہوئے رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ہم یروشلم کو ناپاک ہاتھوں سے پامال نہیں ہونے دیں گے، چاہے ہٹلر کے مداحوں کی نفرت کبھی ختم نہ ہو۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترک قوم کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے صدیوں تک اسلام کا پرچم بلند رکھا اور یروشلم کو چار سو برس تک عزت و وقار کے ساتھ سنبھالا، جہاں مسلم حکمرانی میں عیسائیوں اور یہودیوں کے حقوق بھی محفوظ رہے۔
ایردوان نے کہا کہ ترکیہ کی جدوجہد یروشلم کو امن، سلامتی اور ہم آہنگی کا شہر بنانے کے لیے جاری ہے اور یہ سلسلہ کسی وقفے یا پسپائی کے بغیر آگے بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے جس کی سرحدیں 1967 کی بنیاد پر ہوں اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہو۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ یروشلم مکہ اور مدینہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے روحانی مرکز ہے، کوئی بھی ہمیں غزہ کے مظلوم عوام کا ساتھ دینے سے روک نہیں سکتا جو اسرائیلی بربریت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ترک صدر کاکہنا تھا کہ ترکیہ آج بھی اور کل بھی ان قوتوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا رہے گا جو خطے کو خون میں نہلانے اور عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں،انقرہ شام سے یمن، لبنان سے قطر تک اسرائیلی جارحیت کا شکار عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ “جو لوگ معصوم بچوں کے خون کے عوض ظلم و نسل کشی کے ذریعے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہ بالآخر اپنے ہی بہائے ہوئے خون میں ڈوب جائیں گے۔
ایردوان نے کہا کہ خطہ روزانہ نئے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے لیکن ترکیہ ان چیلنجز کو اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر عزم کے ساتھ سنبھال رہا ہے،ترکیہ بلقان سے وسطی ایشیا، افریقہ سے لاطینی امریکا اور یورپ سے ایشیا پیسفک تک استحکام، تعاون اور بھائی چارے کو فروغ دے رہا ہے۔
انہوں نے وزارتِ خارجہ کی نئی عمارت کو ترکیہ کے عالمی کردار کی ایک جدید علامت قرار دیا اور کہا کہ یہ کمپلیکس ملکی سفارت کاری کی یادداشت، حال اور مستقبل کو ایک چھت کے نیچے لے آئے گا اور انقرہ کی نمایاں عمارتوں میں شمار ہوگا۔