جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔

مولانا فضل الرحمان نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کی بہتری پر حقائق سامنے آنے چاہئیں، معیشت کی بہتری کے صرف اشاریے مل رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کی بہتری ہماری آرزو ہے، عوام کو ثمرات ملیں گے تو ثابت ہوگا معیشت بہتر ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک روپے کی قدر کو تقویت نہیں ملے گی عام آدمی کو ریلیف نہیں مل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا، ہمیں نہیں پتا وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں پر افسوس ہے کہ سمجھوتہ کرلیتے ہیں، ملک کا نظام بہتر کرنے کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا ہوگا۔

کالا باغ ڈیم اور پنجاب کی جانب سے نئی نہروں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تمام معاملات قومی اتفاق رائے سے حل ہونے چاہئیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ لوگوں کے ووٹ کا مذاق اڑاتی ہے، عوام پھر اسٹبلشمنٹ کا کیوں مذاق نہ اڑائیں، اسٹبلشمنٹ کا غیر سیاسی ہونا بھی سیاسی ہوتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات ذاتی نوعیت کی ہوئی ہے، وہ میرے گھر آجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی سطح پر مدارس کی رجسٹریشن کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مدارس رجسٹریشن میں ریلیف دیا گیا ہے، ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے، حکومت نے کچھ مدارس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، مدارس سیاسی مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی کریں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صوبائی حکومت کیوں قانون سازی میں تاخیر کر رہی ہے۔ جب قومی سطح پر ایک قانون بن چکا ہے تو صوبائی سطح پر فوری طور پر قانون سازی کے ذریعے عملدرآمد کیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مدتیں مارشل لا بھی پورا کرلیتی ہیں، مدت پوری کرنا الگ بات ہے اور حکومت کا جائز یا ناجائز ہونا الگ بات ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی نے مدارس بل پر میرے گھر آکر اسے سمجھنے کی کوشش کی، خالد مقبول صدیقی وزیر تعلیم ہیں لیکن وہ میرے گھر زیر تعلیم ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان ان کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ میں نہیں

پڑھیں:

سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی

سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔

حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔

ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔

یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔

ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔

لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔

وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔

اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔

لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔

کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، فضل الرحمان
  • مولانا فضل الرحمان کا قطر کے سفارتخانے کا دورہ، مسلمہ امہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی ضرورت پر زور
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے،مولانا فضل الرحمان
  • فضل الرحمان کا قطر کے سفارتخانے کا دورہ، امت مسلمہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی ضرورت پر زور
  • امت مسلمہ کو باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمان
  • برطانوی پرچم تشدد، تقسیم کی علامت بنانے والوں کے حوالے نہیں کرینگے، وزیراعظم کیئر اسٹارمر