حمل:
21 مارچ تا 21 اپریل
مشکل وقت ایک آزمائش ہے، دماغ ٹھنڈا رکھیں اور ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائیں۔ کسی بھی معاملے میں لاپرواہی اور غصے سے کام لینا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ صحت کے معاملات بھی پریشان کررہے ہیں۔ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ممکن ہوسکے تو تفریحی سفر کیجئے۔ گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔
ثور:
22 اپریل تا 20 مئی
وقت اگر موقع دے رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں، وقت کی قدر کرنا سیکھیں، قسمت بار بار موقع فراہم نہیں کرتی۔ مالی اور خانگی معاملات میں جو پریشانیاں پچھلے دنوں سے ہیں وہ صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے۔ صدقہ دینے کا عمل جاری رکھیں۔
جوزا:
21 مئی تا 21 جون
مخالفین بہت ہیں لیکن کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ حالات موافق ہیں اس لیے رکے ہوئے منصوبوں کی ابتدا کےلیے مناسب وقت ہے۔ کئی اہم راستے کھلے ہوئے ہیں آپ کا درست انتخاب معاملات کی نہج سنبھال سکتا ہے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ لیجئے۔ جلد بازی کی ضرورت نہیں۔ مشورہ کرنا بہتر ہوگا لیکن دل کی پکار کو نظر انداز نہیں کیجئے گا۔
سرطان:
22 جون تا 23 جولائی
کاموں میں رکاوٹ آجاتی ہے لیکن پریشان نہ ہوں، دن کے ختم ہونے سے پہلے مشکلات بھی ختم ہوجائیں گی اور معاملات نارمل ہوجائیں گے۔ فی الحال مزاج کے مطابق کام کا موقع نہیں ملے گا لیکن حالات بہتر ہوتے ساتھ آپ اپنی مرضی کے مطابق قدم اٹھا سکتے ہیں۔ دن کی ابتدا اچھی نہ بھی ہو تو شام تک بہتری کی امید ہے۔ مزاج میں چڑچڑا پن نہ آنے دیں اور نہ ہی کسی سے فضول بحث کریں۔ درگزر کرنا مناسب طرز عمل ہوگا۔
اسد:
24 جولائی تا 23 اگست
حالات موافق ہیں اور صورتحال آپ کے حق میں ہے۔ جن کاموں کی ابتدا کرنا چاہتے تھے اس لیے مناسب وقت ہے، کامیابی کے امکانات ہیں۔ وقت کو ضایع کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ دل کے معاملات میں بھی پیش قدمی ہوگی۔ کسی اپنے کا ساتھ مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ شادی شدہ افراد اپنی فیملی کے ساتھ آؤٹنگ کا پلان بنائیں۔
سنبلہ:
24 اگست تا 23 ستمبر
تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں، گھریلو، دفتری یا تعلیمی معاملات میں بھی تبدیلی کی توقع ہے، روزمرہ سے ہٹ کر چلنا بہتر ہوگا۔ گزشتہ دنوں جو پریشانیاں اچانک آئی تھیں ان معاملات میں بھی بہتری کی امید ہے۔ اپنوں کے ساتھ وقت گزاریئے۔ فضول خرچی سے گریز کریں لیکن کنجوسی مناسب نہیں۔ فیملی پر خرچ کیجئے، رات میں باہر ڈنر کا پروگروام بنایئے۔ غیروں پر اعتبار کرنے کے بجائے اپنوں کو اہمیت دیجئے۔
میزان:
24 ستمبر تا 23 اکتوبر
معاملات کوئی باہر سے آکر ٹھیک نہیں کرے گا، اپنی اصلاح آپ کو خود کرنا ہوگی، تب ہی حالات درست ہوں گے۔ آج کا دن خاص ہے، کامیابی کی امید ہے لیکن عمل کی ضرورت ہے۔ اگر مگر کی کیفیت مناسب نہیں، جو کرنا ہے کر گزریں۔ رکے ہوئے کام بننے کی توقع ہے۔
عقرب:
24 اکتوبر تا 22 نومبر
لاپرواہی نقصان پہنچا سکتی ہے، سنبھل جایئے اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے۔ صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ سب کچھ اتنا سیدھا نہیں جیسا نظر آرہا ہے۔ باہر کے لوگ معاملات خراب کررہے ہیں۔ آپ کو ابھی صورتحال کا اچھی طرح سے اندازہ نہیں۔ سوچ سمجھ کر قدم رکھیے۔ اجنبیوں پر بھروسہ نقصان پہنچائے گا۔ آپ کے اپنے ہی آپ کے لیے مضبوط حصار ہیں، انھیں نظر انداز نہیں کیجئے۔
قوس:
23 نومبر تا 22 دسمبر
چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا موڈ خراب کرنا مناسب نہیں۔ اگر کوئی وعدہ نہیں نباہ سکا تو اس کی مجبوری کو سمجھیں۔ بحث اپنوں کو مزید دور کردے گی۔ محبت سے پیش آیئے، جو آپ کا اپنا ہے وہ خود لوٹ آئے گا۔ لیکن یاد رکھیں کہ یک طرفہ محبت گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر کوئی آپ کا ساتھ نہیں چاہتا تو زبردستی کا بندھن خود کو تکلیف دے گا۔ بہت سی باتوں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ شادی شدہ افراد اپنے پارٹنر اور بچوں کو توجہ دیں۔ آپ صحت کے معاملات میں مستقل لاپرواہی برت رہے ہیں، یہ درست طرز عمل نہیں۔
جدی:
23 دسمبر تا 20 جنوری
مشکل حالات میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ وقت بدل جائے گا۔ آپ کی سب سے بڑی طاقت آپ خود ہیں۔ مشکلات آپ کو کمزور نہیں کرسکتیں۔ فیملی اور بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ بہتر ہوگا۔ غیروں کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیں، نہ ہی ان کے رویوں سے خود کو تکلیف میں ڈالیں۔ صدقے کا عمل جاری رکھیں۔
دلو:
21 جنوری تا 19 فروری
اجنبیوں پر اعتبار نہ کریں۔ جو نئے رشتے قائم ہورہے ہیں انھیں تھوڑا وقت دیں۔ آج حالات اوپر نیچے ہوتے رہیں گے لیکن اپنے مزاج کو معتدل رکھیں۔ ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ کے آس پاس کون دوست ہے اور کون دشمن یہ آپ کو خود پہچاننا ہوگا۔ مخلص لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑیں، برے وقت میں وہی کام آئیں گے۔ پیسے سے زیادہ ذہنی سکون بہتر ہے۔ ایسے معاملات میں نہ پڑیں جو پریشانی کا باعث ہوں۔ اپنے کام سے کام رکھیں۔ گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا مناسب ہوگا۔
حوت:
20 فروری تا 20 مارچ
حالات میں روزانہ ایک نئی تبدیلی آرہی ہے۔ اپنی غلطیوں سے آپ سبق سیکھ چکے ہیں اس لیے دوبارہ ایسے حالات میں پڑنے سے گریز کریں۔ مشکل وقت ٹلا ضرور ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ آپ کا طرزِ عمل ہی آگے کے حالات کو سنوار یا بگاڑ سکتا ہے۔ معاملات میں جو سدھار آرہا ہے اسے اپنی غلطیوں سے دوبارہ خراب نہ کیجئے۔ صحت کے معاملات بھی پریشان کرسکتے ہیں۔ لوگوں کی زیادہ پرواہ نہ کیجئے بس خود پر دھیان دیں اور جو منصوبے بنائے ہیں ان پر عمل کریں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معاملات میں کے معاملات مناسب نہیں کی امید ہے کے ساتھ
پڑھیں:
اسلام آباد نہیں بلائوں گا
بانی تحریک انصاف کی بہن علیمہ خان کا ایک بیان میرے سامنے ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف نے کہا ہے کہ اب وہ احتجاج کے لیے لوگوں کو اسلام آباد نہیں بلائیں گے۔ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے کہ بانی تحریک انصاف نے لوگوں کو اڈیالہ بلانے کی کال نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی بیان کے اگلے حصہ میں یہ کہا گیا ہے کہ اب پورے ملک میں احتجاج کیاجائے گا۔ لیکن میرے لیے ا ہم یہ ہے کہ اب اسلام آباد کی کوئی کال نہیں دی جائے گی۔
اس سے پہلے رمضان میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ عیدالفطر کے بعد بڑی احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ لیکن ہمیں عید الفطر کے بعد کوئی احتجاجی تحریک نظر نہیں آئی۔ میڈیا بار بار تحریک کے بارے میں پوچھتا رہا۔ لیکن عید الفطرکے بعد تحریک کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ کے پی میں چند ورکر کنونشنز ضرور ہوئے۔ لیکن ان کی قومی سطح پر کوئی اہمیت نہیں۔ اس سے نہ تو مرکز اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ دباؤ میں آتے ہیں۔ اس لیے ان کنونشنز سے تحریک کا کوئی ماحول نہیں بن سکا۔ جب تحریک چلانے کے لیے جنید اکبر کو کے پی کا صدر بنایا گیا تھا۔ تب ہی پنجاب کی صدارت عالیہ حمزہ کو دی گئی تھی۔
عالیہ حمزہ سے بھی یہی توقعات لگائی گئی تھیں کہ وہ پنجاب میں احتجاج کا ماحول بنائیں گی۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو پنجاب میں کسی بھی قسم کی احتجاجی تحریک کا کوئی ماحول نہیں نظر نہیں آرہا۔ چھوٹے چھوٹے ورکر کنونشنز ضرور ہوئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف پنجاب میں کوئی بڑااحتجاج یا ریلی نہیں نکال سکی ہیں۔ یوں قیادت کی تبدیلی سے جو توقع رکھی گئی تھی، پنجاب اس طرح متحرک نہیں ہوا ہے۔
سونے پر سہاگا، گرینڈ الائنس بھی نہیں بن سکا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی گرینڈ الا ئنس بنانے سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ مولانا ساتھ آجائیں گے تو احتجاجی تحریک چلانا آسان ہو جائے گی، مولانا کا کارکن انتظامیہ سے ٹکرا جائے گا اور ہم فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن مولانا نے اپنا کارکن نہیں دیا۔
صاف بات ہے وہ تحریک انصاف اور بالخصوص بانی تحریک انصاف کے لیے اپنے کارکنان کو استعمال کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے تحریک انصاف انھیں کوئی خاص قائل بھی نہیں کر سکی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں مولانا کے انکار نے بھی تحریک انصاف کی احتجاج تحریک کے امکانات کو ختم کیا۔ کیونکہ مولانا کے ساتھ شاید احتجاج کی کوئی شکل نکل آتی۔ لیکن تنہا تحریک انصاف کسی پوزیشن میں نہیںہے۔
اس سے پہلے اسلام آباد کے لیے دو کالز دی گئی ہیں، دونوںدفعہ وزیر اعلیٰ کے پی سرکاری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو لے کر آئے ۔ سرکاری مشینری بھی آئی لیکن پھر تحریک انصاف میں ہی یہ پراپیگنڈا شروع ہو گیا کہ گنڈا پور آخری موقع پر غائب جاتے ہیں، وہ ڈی چوک نہیں پہنچتے۔ اس لیے جنید اکبر کو لانچ کیا گیا۔ لیکن ان کی کارکردگی تو گنڈا پور کی نسبت بہت کمزور رہی ہے۔ انھوں نے تو کے پی کارڈ ختم ہی کر دیا۔ پھر جنید اکبر کے خلاف باتیں شروع ہو گئیں۔ ان کے خلاف پراپیگنڈا شروع ہوگیا۔اور اب یہ خبریں بھی ہیں کہ احتجاجی تحریک کی ذمے داری دوبارہ گنڈا پور کو دے دی گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد آنے کی کال نہ دی جائے تو کیا احتجاجی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ موجودہ صورتحال میں مجھے پنجاب میں احتجاجی تحریک کا کوئی چانس نظر نہیں آتا۔ پنجاب کے بغیر تحریک کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر پورے ملک میں دھرنوں کی کال دی جائے تو پنجاب کے بغیر کیا کامیابی ہے۔ اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کسی بھی قسم کی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کارکن تیار نہیں ہیں جب کہ بڑے لیڈر مفرور ہیں۔ کچھ کے پی سے پنجاب آنے کو تیارنہیں۔
سندھ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اندرون سندھ تحریک انصاف پہلے ہی کمزور تھی۔ کراچی میں بھی اب کوئی حال نہیں۔ جیسے پنجاب میں احتجاجی تحریک کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ ویسے کراچی میں اب تحریک انصاف کافی کمزور ہو گئی ہے۔
اس لیے مجھے وہاں بھی احتجاجی تحریک کاکوئی چانس نظر نہیں آرہا۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کو زیادہ اتحادی بلوچستان سے میسر ہیں۔ لیکن وہاں دہشت گردی اتنی زیادہ ہے کہ جلسہ جلوس ممکن نہیں۔ ویسے بھی بلوچستان میں دھرنوں سے مرکزی حکومت نہیں گر سکتی۔ بلوچستان میں اول تو سیاسی تحریک کوئی گنجائش نہیں، اگر ہو بھی تو مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بلوچستان میں بھی تحریک کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
ایسے میں مجھے تو کہیں کوئی احتجاجی تحریک نظر نہیں آرہی۔ اسلام آباد کی کال تو کے پی کے کی وجہ سے کسی حد تک رنگ جما دیتی ہے۔وزیر اعلیٰ کی سرکاری سرپرستی میں ایک بحران ضرور پیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن دو دفعہ کی کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔ الٹا نقصان ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانی تحریک انصاف تو دوبارہ اسلام آباد کی کال ہی دینا چاہتے ہوں گے۔
انھیں اس بات کی سمجھ ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کے بغیر نہ تو ان کی رہائی ممکن ہے اور نہ ہی حکومت گر سکتی ہے۔ لیکن شاید ان کی جماعت اب اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ گزشتہ ایک ماہ کی تحریک انصاف کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو بانی تحریک انصاف نے سب پر تحریک کے لیے دباؤ کافی دباؤ ڈالا ہے۔ لیکن شاید پارٹی تیار نہیں۔ انھیں سمجھایا گیا کہ لوگ اب ان کے لیے مار کھانے کے لیے تیار نہیں۔ 26 نومبر کو جو لوگ گرفتار ہو ئے تھے۔
ان کی پارٹی نے کوئی دیکھ بھال نہیں کی۔ انھیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ ان کی ضمانتوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ انھیں بے یار ومددگار چھوڑ دیا گیا۔اس لیے شاید کے پی سے بھی اب لوگ اتنی تعداد میں نہیں آئیں گے۔ لوگ ریاست کی رٹ سے لڑنے کے لیے مزید تیار نہیں۔ اس لیے اسلام آباد کی کال نہ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ باقی سب خیر ہے۔ یہ خبر حکومت اور نظام کے لیے اچھی ہے۔