کیلیفورنیا:میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے انکشاف کیا ہے کہ واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز کی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن میسجز کو محفوظ رکھنے میں مددگار ہے، لیکن اگر کسی کو موبائل فون تک فزیکل یا ریموٹ رسائی حاصل ہو جائے تو یہ تحفظ بے اثر ہو جاتا ہے۔

زکربرگ نے جمعہ کو جو روگن ایکسپیریئنس پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انکرپشن میٹا یا کسی دوسرے ادارے کو صارفین کے پیغامات کے مواد تک رسائی سے روکتی ہے۔ تاہم، موبائل فون تک براہ راست رسائی کے ذریعے پیغامات کو دیکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔

انہوں نے اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس جیسے اسپائی ویئر کا ذکر کیا، جو خفیہ طور پر موبائل فون پر انسٹال ہو کر پیغامات اور دیگر ڈیٹا تک رسائی فراہم کر سکتا ہے۔

زکربرگ کے مطابق، واٹس ایپ کی انکرپشن صارفین کے پیغامات کو میٹا کے سرورز یا ہیکرز سے محفوظ رکھتی ہے، لیکن فون میں محفوظ ڈیٹا کو انکرپشن کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا دیگر ایجنسیاں موبائل فونز تک رسائی حاصل کر کے ان پیغامات کو پڑھ سکتی ہیں۔

میٹا نے صارفین کی پرائیویسی کو بہتر بنانے کے لیے واٹس ایپ میں "غائب ہونے والے پیغامات” کا فیچر متعارف کروایا ہے، جو ایک مقررہ وقت کے بعد پیغامات کو خودکار طور پر حذف کر دیتا ہے۔

زکربرگ کی یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب روگن نے امریکی صحافی ٹکر کارلسن کے ان الزامات پر سوال کیا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں، جیسے این ایس اے اور سی آئی اے، ان کے پیغامات کی جاسوسی کر کے ان کی کوششوں کو سبوتاژ کرتی ہیں۔

زکربرگ نے صارفین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے موبائل فونز کی حفاظت پر خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر فون تک کسی کو رسائی حاصل ہو جائے تو انکرپشن کا تحفظ بے معنی ہو جاتا ہے۔

یہ بیانات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صرف انکرپشن پر انحصار کافی نہیں بلکہ موبائل فون کی سیکیورٹی بھی اتنی ہی اہم ہے

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: موبائل فون پیغامات کو

پڑھیں:

لی جائے میونگ: فیکٹری ورکر سے جنوبی کوریا کے صدر تک کا سفر

سیئول: جنوبی کوریا میں عوام نے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار لی جائے میونگ کو نیا صدر منتخب کر لیا ہے۔ 61 سالہ لی نے 49 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور ملک کے 14ویں صدر بن گئے ہیں۔

یہ انتخاب اس وقت ہوا جب سابق صدر یون سک یول نے دسمبر 2024 میں مارشل لا نافذ کرنے کی ناکام کوشش کی، جس کے بعد ان کا مواخذہ ہوا اور عدالتی حکم سے وہ عہدے سے ہٹا دیے گئے۔

لی جائے میونگ نے رولنگ پارٹی کے امیدوار کم مون سو کو شکست دی۔ ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ 79.4 فیصد رہا، جو گزشتہ 28 سالوں کا سب سے زیادہ تھا۔

لی کو اب بھی قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال اور جھوٹے بیانات دینے کے الزامات شامل ہیں۔ ایک کیس میں انہیں عدالت نے بری کیا تھا، مگر سپریم کورٹ نے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ ٹرائل کا حکم دیا ہے۔


لی جائے میونگ 1963 میں اندونگ کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں غربت کے باعث انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں کام کرنا پڑا۔ 13 سال کی عمر میں ایک مشین کے حادثے میں ان کا بازو زخمی ہوا۔

انہوں نے اسکالرشپ پر قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1986 میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ لی نے دو دہائیوں تک انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں، پھر 2005 میں سیاست میں قدم رکھا۔

وہ 2010 سے 2018 تک سیونگنام کے میئر اور پھر 2021 تک گیونگی صوبے کے گورنر رہے۔ 2022 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

انہوں نے 2022 میں صدارتی انتخاب لڑا لیکن معمولی فرق سے ہار گئے۔ 2024 میں ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، مگر وہ بچ گئے۔

غریب پس منظر اور سخت مؤقف رکھنے والے لی کو متوسط اور محنت کش طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔

ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے، جو انہیں اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔


 

متعلقہ مضامین

  •  "واٹس ایپ پر اگلے ہی دن ذاتی پیشی کا حکم دینا ناانصافی"فرحت اللہ بابر نے طلبی پر ایف آئی اے میں تحریری جواب جمع کرا دیا
  • ماورا حسین اور امیر گیلانی کی عید کی خوشیاں، غم میں بدل گئیں
  • ایرانی انٹیلی جنس کی بڑی کامیابی، اسرائیل کی خفیہ جوہری معلومات تک رسائی
  • شی جن پھنگ کا میانمار کے رہنما کے ساتھ چین میانمار سفارتی تعلقات کے قیام کی پچھترہویں سالگرہ کے موقع پر تہنیتی پیغامات کا تبادلہ
  • ایسی کیا شکایت تھی کہ 40 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ڈمبلز واپس منگوانے پڑگئے؟
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • لی جائے میونگ: فیکٹری ورکر سے جنوبی کوریا کے صدر تک کا سفر
  • نیتن یاہو کا اعتراف: حماس کو کمزور کرنے کے لیے غزہ میں مسلح گروہوں کو فعال کیا
  • امریکی عدالت نے حکومتی محکمے کو ذاتی معلومات تک رسائی دیدی
  • خان یونس میں مزاحمت کاروں کی کارروائی، 4 صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کا اعتراف