کیا فخر زمان مکمل فٹ ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
’’ارے زرا بتاؤ کیا مکمل چیمپئنز ٹرافی یو اے ای منتقل ہو رہی ہے، مجھے پکی خبر ملی ہے، پی سی بی کے سلمان نصیر اور سمیر سید ہنگامی طور پر دبئی چلے گئے ہیں‘‘۔
سعودی عرب سے دبئی پہنچ کر میں ابھی سونے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اچانک پاکستان سے ایک دوست کی فون کال نے نیند اڑا دی، میں نے جواب دیا کہ آپ بھارتی میڈیا کی خبروں کو اہمیت نہ دیں ، وہ تو کافی عرصے سے اسی قسم کی اسٹوریز دے رہا ہے مگر ان میں کوئی صداقت نہیں،جو شیڈول جاری ہو چکا اسی پر عمل ہوگا۔
اس کے بعد میں نے پی سی بی کی ایک اعلیٰ شخصیت سے رابطہ کیا تو انھوں نے بھی اسے ’’فیک نیوز‘‘ قرار دیا۔
آئی سی سی ذرائع کا بھی یہی کہنا تھا، پاکستانی بورڈ حکام یہاں اماراتی بورڈ سے آمدنی میں شیئر وغیرہ کے معاملات طے کرنے آئے تھے، ویسے جب تک چیمپئنز ٹرافی کا اختتام نہیں ہو جاتا بھارت سے منفی خبریں آنا بند نہیں ہوں گی۔
ہمارے ملک میں طویل عرصے بعد کوئی آئی سی سی ایونٹ ہو رہا ہے اور واضح طور پر پڑوسی اس سے خوش نہیں لگتے،ان دنوں یو اے ای میں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی جاری ہے، پاکستان کے فخرزمان، محمد عامر اور اعظم خان اس میں شریک ہیں۔
گذشتہ برس شاہین شاہ آفریدی بھی آئے تھے، پاکستانی کرکٹرز ایک ہی ٹیم ڈیزرٹ وائپرز کی نمائندگی کر رہے ہیں، میں ٹیم ہوٹل پہنچا تو وہاں لابی میں عامر سے سلام دعا ہوئی،فخر کو واٹس ایپ پر پیغام بھیجا تو پتا چلا وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے، ٹیم کے ڈائریکٹر آف کرکٹ ٹام موڈی سے بات چیت ہوئی، انھوں نے پاکستانی کرکٹرز کی موجودگی کو بہترین قرار دیتے ہوئے تینوں کی صلاحیتوں کو سراہا، خاص طور پر فخر کا ساتھ میسر آنے پر وہ خوش نظر آئے۔
یو اے ای کے نوجوان آل راؤنڈر علی نصیر سے بھی بات چیت ہوئی، انھوں نے 2023 کے اپنے ڈیبیو میچ میں ویسٹ انڈیز کیخلاف نصف سنچری بنائی تھی، ان کا تعلق کراچی سے ہی ہے،ان کوپاکستانی کرکٹرز سے خوب مشورے بھی مل رہے ہیں، عامر نے سلو گیند کرنا سکھایا،وہ فخر سے چھکے لگانے کا ہنر بھی سیکھنا چاہتے ہیں۔
علی نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ اعظم خان جب ابتدا میں نیٹ پریکٹس کیلیے آئے تو اتنے زوردار شاٹس کھیلے کہ 5، 6 بالز ہی کھو گئی تھیں۔
میں وہاں سے دبئی کرکٹ اسٹیڈیم چلا گیا جہاں کپتانوں کی پریس کانفرنس تھی، منتظمین نے منفرد انداز میں ٹرافی کی رونمائی کرتے ہوئے کپتانوں کو گراؤنڈ اسٹاف کے جیسا کام کرنے جیسا لک دیا۔
ایک نے گھاس کاٹنے والی مشین سنبھالی، دوسرے رولر چلاتے نظر آئے، سکندررضا بیلز ٹھیک کر رہے تھے، دیگر نے بھی اسی طرح کے کام کرتے ہوئے ٹرافی کے ساتھ پوز دیا، بعد میں میڈیا سے بات چیت میں ٹورنامنٹ کیلیے تیاریوں سے آگاہ کیا۔
وہاں موجود بعض بھارتی صحافیوں نے پریس کانفرنس کے بعد مجھ سے یہی سوال کیا کہ ’’کیا پاکستان چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کر پائے گا‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ آپ لوگ جو ویڈیوز چلا رہے ہیں وہ پرانی ہیں، اب تو کافی حد تک اسٹیڈیمز کا کام مکمل ہو چکا، ایونٹ کا بہترین انعقاد ہوگا،میں نے بعض کو اپنے موبائل میں موجود اسٹیڈیمز کی چند ویڈیوز بھی دکھائیں جس میں بیشتر کام مکمل نظر آیا۔
اگلے دن فخر سے ملاقات کا وقت طے ہوا،جب آئی سی سی اکیڈمی پہنچا تو وہ نیٹ پریکٹس کرتے نظر آئے،اس کے بعد رننگ بھی کی، اعظم خان سے بھی ملاقات ہوئی، وہ ان دنوں لیگز کھیل کر ہی خوش ہیں، ورلڈکپ میں انھیں متواتر مواقع نہیں ملے اور پھر ٹیم سے باہر ہو گئے۔
اعظم کو اب بھی مستقبل میں قومی ٹیم میں واپسی کی امید ہے، فخر جتنے اچھے کرکٹر ہیں اس سے زیادہ اچھے انسان ہیں،ان سے مختصر انٹرویو کرنے کا موقع ملا، جس میں انھوں نے خود کو فٹ قرار دیتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کا عزم ظاہر کیا، میں نے جب ان سے کہا کہ اگر صائم ایوب ان فٹ نہ ہوتے تو آپ اور وہ اوپننگ کرتے تو کتنا زبردست منظر ہوتا،فخر کو بھی صائم کے انجرڈ ہونے کا بہت افسوس تھا۔
شام کو میں اسٹیڈیم چلا گیا جہاں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کی افتتاحی تقریب ہوئی،اس میں بالی ووڈ اداکار شاہد کپور، سونم اور پوجا نے پرفارم کیا،زبردست آتشبازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا، یو اے ای کے ہر دلعزیز صحافی عبدالرحمان رضا گذشتہ کئی ماہ سے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں، ان کی کمی محسوس ہوتی رہی۔
وسیم اکرم کمنٹری کیلیے آئے ہوئے ہیں، ان سے بات چیت کا موقع ملا، وہ چیمپئنز ٹرافی کا تنازع حل ہونے پر خوش نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ ہونی چاہیے، وسیم بھائی نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ انرجی سے بھرپور شخصیت کے مالک ہیں اور پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنے کیلیے سخت محنت کررہے ہیں۔
افتتاحی تقریب میں شعیب اختر بھی نمایاں رہے،ان کی ایک ویڈیو حال ہی میں سامنے آئی جس میں وہ دبئی کے کسی شاپنگ مال میں شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح سیکیورٹی گارڈز کے جھرمٹ میں چل رہے ہیں،حالانکہ انھیں کوئی تنگ کرنے والا موجود نہیں ہے۔
شعیب ان دونوں ایکٹرز سے بہت متاثر ہیں اورطرزعمل سے یہ واضح بھی ہوتا ہے،وسیم اکرم ان سے بڑے کرکٹر رہے ہیں،وہ آپ کو کبھی ایسا کچھ کرتے دکھائی نہیں دیں گے،پہلے میچ کے بعد گراؤنڈ میں تقریب تقسیم انعامات کے وقت سکندر رضا نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ آپ تو مدینے میں تھے یہاں کب آئے تو میں نے انھیں بتایا کہ کل ہی آیا ہوں،لفٹ سے نیچے آیا تو دروازے کے باہر ایک صاحب ملے جو ٹویٹرپر مجھے فالو کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ وہ ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں اور افتتاحی تقریب کے دوران ٹیسلا کار ان کی کمپنی ہی لائی تھی۔
میں نے ایلون مسک کی اس منفرد الیکٹرونک کار کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں،اگلے دن سکندر رضا کی ٹیم دہلی کیپیٹلز کے ہوٹل پام جمیرہ جانا ہوا، وہاں ان کا انٹرویو بھی کیا، وہ پی ایس ایل کیلیے بھی بہت پرجوش نظر آئے اور ایونٹ سے کئی روز قبل ہی پاکستان آنے کا پلان بنائے بیٹھے ہیں۔
سری لنکن کرکٹر ڈسون شناکا سے بھی بات چیت ہوئی، وہاں سے ابوظبی کے زید کرکٹ اسٹیڈیم آ گیا،وہاں وقار یونس سے ملاقات ہوئی جو کمنٹری کیلیے آئے ہوئے ہیں۔
اس طرح کے ایونٹس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے کرکٹرز وغیرہ سے ملاقات ہو جاتی ہے، میرا یو اے ای کا دورہ مختصر تھااور اب جلد وطن واپسی کی تیاری ہے،یہاں آ کر یہی دیکھا کہ امارات کرکٹ بورڈ اپنی لیگ کو ہر سیزن میں مزید بہتر بناتا چلا جا رہا ہے، یہ مستقبل میں کئی دیگر لیگز کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی انھوں نے یو اے ای رہے ہیں بات چیت کے بعد
پڑھیں:
جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 26 July, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
مون سون کی آمد سے پہلے ہی پاکستان کے مختلف علاقے تباہی کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ بے موسمی اور نہ تھمنے والی بارشیں اس سرزمین پر اس شدت سے برسیں کہ سیلابی ریلوں نے گھروں، سڑکوں، فصلوں اور قیمتی جانوں تک کو بہا لے گیا۔ ان مہینوں میں بارش اجنبی نہیں ہوا کرتی، مگر اس تباہی کی وسعت ماضی کے موسمی برساتی نظم سے بالکل مختلف ہے۔ جو سیلاب کبھی پیشگی تنبیہ اور کسی نہ کسی ترتیب کے ساتھ آیا کرتے تھے، اب ایک ناگہانی عذاب کی طرح اچانک اور بے رحم ہو کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ قوم ایک کڑے سوال کے سامنے کھڑی ہے؛ کیا یہ سب کچھ بدلتے موسموں کا شاخسانہ ہے، انسانی کوتاہی کا نتیجہ ہے یا پھر ربّ کی ناراضی کا اظہار؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان، اگرچہ عالمی کاربن اخراج میں سب سے کم حصہ ڈالنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، مگر ماحولیاتی بگاڑ کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ملکوں میں شامل ہے۔ غیر متوقع موسمی رویے، طویل خشک سالی کے بعد اچانک موسلا دھار بارشیں، شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور جنوب میں بلند ہوتے سمندری سطح کے پانی—یہ تمام عناصر مل کر ایک بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، اگر اس تمام تباہی کا الزام صرف قدرت پر دھر دیا جائے تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا۔
عوام، خصوصاً سیاحوں اور سنسنی کے متلاشی افراد کی غفلت اور لاپروائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سال جب محکمہ موسمیات کی جانب سے وارننگز جاری کی جاتی ہیں، تب بھی کئی لوگ خطرناک علاقوں کا رخ کرتے ہیں، دریاؤں کے کنارے کیمپ لگاتے ہیں یا ان پہاڑی راستوں پر چڑھائی کرتے ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔ ایسی لاپروائی بارہا قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی ہے—نہ صرف ان افراد کی، جو خود خطرہ مول لیتے ہیں، بلکہ ان امدادی کارکنوں کی بھی، جو انہیں بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔
لیکن اصل اور زیادہ خطرناک مسئلہ انفرادی غلط فیصلوں میں نہیں، بلکہ نظامی ناکامی اور بے لگام شہری لالچ میں پوشیدہ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بے قابو پھیلاؤ—جو اکثر بااثر افراد کی سرپرستی کے سائے میں اور ماحولیاتی قوانین کو پس پشت ڈال کر کام کرتا ہے—نے وسیع زرعی زمینوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ سوسائٹیاں، منافع اور سیمنٹ کے جنون میں، صدیوں پرانے دریاؤں اور بارش کے پانی کے بہاؤ کے راستوں کو بند یا موڑ دیتی ہیں۔ نتیجتاً جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے نکلنے کے قدرتی راستے باقی نہیں رہتے؛ وہ رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے، سڑکوں کو ڈبو دیتا ہے، اور ہر اُس چیز کو تباہ کر دیتا ہے جو اس کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
زرعی میدان، جو کبھی بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اب کنکریٹ اور تارکول میں بدل چکے ہیں۔ نہریں اور ذیلی نالے یا تو تنگ کر دیے گئے ہیں یا ان کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں ہاؤسنگ ڈیویلپرز نے خشک دریا کے کناروں پر تعمیرات کر ڈالیں، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے یا جان بوجھ کر بھلا کر کہ یہ خشک راستے مردہ نہیں بلکہ خاموش ہیں۔ جب قدرت اپنا حق واپس لیتی ہے تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان کبھی زرخیز رہنے والا علاقہ، اسلام آباد کے گرد و نواح، اور کراچی کی مضافاتی بستیاں اس بات کی تلخ مثالیں ہیں کہ کس طرح بے لگام تعمیر و ترقی نے ماحولیاتی توازن بگاڑا اور انسانی مصائب کو جنم دیا۔
اس دکھ میں مزید اضافہ نکاسی آب کے نظام کی مجرمانہ غفلت سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر ہر سال بند گٹروں اور صاف نہ کیے جانے والے نالوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بارہا حادثات کے باوجود مقامی انتظامیہ شاذ و نادر ہی بروقت صفائی مہمات کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ معمولی بارش بھی پورے علاقوں کو زیرِ آب کر دیتی ہے، شہری آمد و رفت مفلوج ہو جاتی ہے، اور عوامی و نجی املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
کچھ لوگ ان واقعات کو روحانی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں خدائی ناراضی کی علامات کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ ایک ایسی معاشرت میں، جو ناانصافی، بدعنوانی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکی ہو، ایسی آفات کو محض قدرتی حادثہ نہیں بلکہ تنبیہ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اس نقطۂ نظر سے اتفاق کرے یا نہ کرے، مگر خوداحتسابی کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ اب صرف آسمان ہی نہیں بدلا، زمین بھی—سماجی، اخلاقی اور حقیقی معنوں میں—ہمارے قدموں کے نیچے سے کھسک چکی ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، اس سال بارشوں سے متعلقہ حادثات کے نتیجے میں اب تک 180 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جبکہ املاک اور بنیادی ڈھانچے کو ہونے والا نقصان 60 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں کئی دیہات یا تو زیرِ آب آ گئے ہیں یا مکمل طور پر منقطع ہو گئے ہیں۔ فصلیں، جو کٹائی سے محض چند ہفتے دور تھیں، بہہ گئی ہیں، جس سے پہلے ہی مشکلات کا شکار دیہی آبادی پر مزید بوجھ پڑا ہے۔
اگر ہم نے مستقبل میں ایسے نقصانات کو روکنا ہے تو فوری اور طویل المدتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک جامع، تکنیکی طور پر جدید ابتدائی وارننگ سسٹم کا قیام ناگزیر ہے۔ مقامی حکومتوں کو ایسے انتباہات پر تیزی سے عمل کرنے کے لیے لیس اور بااختیار ہونا چاہیے۔ شہری منصوبہ بندی میں مناسب نکاسی آب اور پانی کے بہاؤ کے تحفظات کو شامل کیا جانا چاہیے، اور سیلابی میدانوں پر غیر قانونی تعمیرات کو بغیر کسی استثنا کے ہٹایا جانا چاہیے۔ طوفانی نالوں کی سالانہ صفائی شفافیت اور باقاعدہ نگرانی کے ساتھ کی جائے۔
علاوہ ازیں، زرعی زمینوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز کی منظوری پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ زمین کی ترقی سے متعلقہ اداروں کو از سر نو منظم کیا جائے تاکہ وہ قلیل مدتی آمدن کے بجائے ماحولیاتی پائیداری کو ترجیح دیں۔ ملک بھر میں ایک مضبوط اور جدید ابتدائی انتباہی نظام نافذ کیا جانا چاہیے، جس میں حقیقی وقت پر الرٹس اور مقامی سطح پر فوری ردعمل کے مؤثر طریقہ کار شامل ہوں۔ شہروں کو دوبارہ درست شہری منصوبہ بندی کی طرف لوٹنا ہوگا، جس میں نکاسی آب کے نظام، سبز جگہوں، اور پانی جذب کرنے والے علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اس کے علاوہ، نالوں اور نالیوں کی سالانہ صفائی کو ریاستی ذمہ داری قرار دینا چاہیے، نہ کہ صرف بارش سے چند دن قبل کی جانے والی رسمی کارروائی۔ آگاہی مہمات، اسکولوں کے نصابات، اور عوامی پیغام رسانی کے ذریعے بارش کے موسم میں غیر ذمہ دارانہ رویوں کے خطرات کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ آخر میں، پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر ماحولیاتی انصاف کی بھرپور وکالت کرنی چاہیے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی، مالی معاونت اور شراکت داری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک ماحولیاتی خطرات کے خلاف مضبوط مدافعت پیدا کر سکے۔
ہمارے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے، لیکن ناقابل تسخیر نہیں۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، حکمت کو سائنس کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور اپنے اعمال کو عقل اور راستبازی دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، تو ہمیں ابھی تک حفاظت کا راستہ مل سکتا ہے۔ ورنہ اگلے سال بارشیں لوٹ کر آئیں گی اور ان کے ساتھ دکھ کا ایک اور باب بھی لائیں گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، اسرائیلی وزیر نے میکرون کی اہلیہ سے تھپڑ کھانے کی ویڈیو شیئر کردی گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی غیرت کے نام پر ظلم — بلوچستان کے المیے پر خاموشی جرم ہے آبادی پر کنٹرول عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق حلف، کورم اور آئینی انکار: سینیٹ انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا اسمبلی کا بحران اور اس کا حلCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم