Express News:
2025-06-02@16:47:22 GMT

’’تلخیوں کا بھاری بستہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

کیا آپ کے خیال میں بہت زیادہ سوچنا ٹھیک ہے؟ یہ بات بہرکیف درست ہے کہ زیادہ سوچنا  ہماری خوشیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

زیادہ سوچنا صرف دباؤ، بے چینی اور غم کا سبب بنتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھومتا پہیا ہے، جو آپ کو سوائے پریشانی کے کچھ نہیں دے سکتا، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے بہ جائے اس لمحے کا لطف اٹھائیں، زیادہ سوچنے والے اکثر اپنے دماغ ہی میں پھنسے رہتے ہیں، پچھلے واقعات کو اپنے ذہن میں دُہرا کر یا آنے والے واقعات کی پیشں گوئی کرتے رہتے ہیں۔

وہ حقیقت میں موجودہ لمحات میں نہیں جیتے۔ اس لیے کوشش کریں کہ جیسے آپ نے زیادہ سوچنا سیکھا، ویسے ہی آپ اسے چھوڑ بھی تو سکتے ہیں۔ اپنے ذہن پر توجہ دیں اس کی پرکھ کریں۔ ذہن سازی ایک ایسا طاقت وَر آلہ ہے، جو زیادہ سوچنے سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آپ کو موجودہ لمحے میں واپس لاتا ہے اور آپ کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ آپ کے خیالات حقیقت نہیں ہیں۔

منفی سوچ بھی ایک ایسی عادت ہے، جو آپ کی خوشی کو چھین سکتی ہے، جو لوگ مثبت رویہ اپناتے ہیں، وہ زیادہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔

 

یہ کہنا نہیں ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہیں، لیکن وہ ان کا سامنا مثبت طریقے سے کرتے ہیں۔ اب یہ بھی نہیں کہ آپ کو ہمیشہ مثبت رہنا چاہیے، بس آپ کو ہر صورت میں چمک دار اور روشن پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زندگی کو مسکراتے ہوئے گزارنے کی کوشش کریں۔ آپ کی مسکراہٹ بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی کے بارے میں مثبت رویہ ہماری خوشی پر نمایاں اثر ڈالتا ہے۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ زندگی میں ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، یہ دنیا کے معمول کا ایک حصہ ہے، لیکن اب دیکھنا ہے کہ ہم ان غلطیوں سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں اور نقائص پر بہت زیادہ تنقید کرتے ہیں۔ ہر غلطی یا ناکامی پر اپنے آپ کو مسلسل ملامت کرتے رہتے ہیں۔

 

بلکہ کوشش کریں کہ اپنی غلطی سدھاریں، نہ کہ خود کو ملامت کریں۔ اپنے آپ کے ساتھ وہی مہربانی کیا کریں، جو آپ اپنے قریب ترین دوست کے ساتھ کرتے ہیں۔ آئیے، خود پر ترس نہ کھائیے، بلکہ مثبت ہمدردی کریں، اپنے آپ کو نئی ہمت دیں اور اپنی غلطیوں کو بغیر کسی فیصلے کے تسلیم کریں۔

کیا آپ نے کبھی اپنے آپ کو ماضی کے بارے میں پچھتاتے یا مستقبل کے بارے میں فکر کرتے ہوئے پایا ہے؟ یہ ایک عام عادت ہے، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں میںپائی جاتی ہے، لیکن یہ ہماری خوشی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے’’ماضی میں نہ رہو، مستقبل کے بارے میں خواب نہ دیکھو، اپنے دماغ کو موجودہ لمحے پر مرکوز کرو!‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر توجہ مرکوز کرنا۔ یہ آپ کے ماضی کو تسلیم کرنے، اپنے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے، لیکن موجودہ لمحے میں جینے کے بارے میں ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ تکلیف سے بچنا چاہتا ہے۔خوشی کی طرف ایک اہم قدم یہ ہے کہ ہم تکلیف کا سامنا کرنا سیکھیں، چاہے وہ ایک مشکل گفتگو ہو، ایک سخت ورزش ہو، یا کسی قسم کے کٹھن جذبات کا سامنا ہو، جس سے ہم بچنا چاہ رہے ہوں۔

تلخیوں یا ماضی کے دردوں کو سینے میں بٹھانا ایک ایسا بھاری بستہ لے جانے کے مترادف ہے، جسے آپ ہر جگہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ آپ کو غیر ضروری طور پر وقت سے پہلے ہی بوجھل کر دیتا ہے اور آپ کو حقیقی خوشی کا تجربہ کرنے سے روکتا ہے۔ آئیے ہم ماضی کی تلخیوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ تلخی کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش کریں۔

 زندگی کو اتنا سنجیدہ لینا بھی ٹھیک نہیں کہ آپ موجودہ خوشیوں کو نظر انداز کر دیں۔ زندگی سے لطف اٹھانے کا سادہ اور عملی طریقہ یہ ہے کہ آپ تفریح کے لیے وقت نکالیں۔ چاہے یہ دوستوں کے ساتھ ہو یا اپنے خاندان کے ساتھ، یا اپنے کسی پالتو جانور کے ساتھ کھیلنا ہو یا کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر اپنی پسند کی کتاب پڑھنا ہو۔ لہٰذا، اپنے لیے نئے سال کی خوشیوں کو خوش آمدید کہیے اور پرسکون ماحول میں ان سے لطف اٹھایے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں کوشش کریں ہے کہ ا پ کرتے ہیں اپنے ا پ کے ساتھ

پڑھیں:

روشن اور تاریک پہلو (آخری حصہ)

ایسے لوگ جان لیں کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ سورۃ الطلاق میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں بتایا ہے جنھوں نے اللہ کے احکام کو نہیں مانا اور اپنی من مانی کی۔

’’ اورکتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا اور انھیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، چنانچہ انھوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا اور ان کے اعمال کا آخری انجام نقصان ہی نقصان ہوا۔‘‘

اللہ تعالیٰ آیت نمبر 10(مع تفسیر) میں فرماتے ہیں ’’ اور آخرت میں ہم نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا اے عقل والو! جو ایمان لے آئے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ نے تمہارے پاس ایک سراپا نصیحت بھیجی ہے، یعنی وہ رسول جو تمہارے سامنے روشنی دینے والی اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اللہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں جنتی لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق طے کردیا ہے۔‘‘

آج ہمارا معاشرہ برائیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کچھ تو لوگوں کی اپنی جہالت ہے اور رہی سہی کسر چینلز نے پوری کر دی ہے، بہن اور سالیوں کے پاکیزہ رشتوں کے تقدس کے علاوہ ساس، سسر کا رشتہ بھی بہو کے لیے قابل احترام ہے، گویا وہ ان کی بیٹی کی ہی طرح اہمیت رکھتی ہے، اور سسر یا دیور کی بری نگاہ دین و دنیا میں تباہی کے مترادف ہے۔

کتنے ہی ڈرامے ایسے نشر ہو چکے ہیں اور مزید یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ وہ دور چل رہا ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کو یکسر بھلا دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ معصوم بچیاں اور بیٹیاں اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ ہونے والے بچے اجازت لیتے رہے ہیں، اللہ اسی طرح تمہارے سامنے آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔

بیٹے ہوں یا بیٹیاں ایک خاص فاصلہ اپنے والدین سے ضروری ہے، لیکن زمانہ شیرخواری سے بچپن یعنی دس،گیارہ سال تک وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک ساتھ بستر پر لیٹ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت بھی نہ کریں ان کی عزت و احترام ان کے ذاتی کام کرنا فرض ہے کہ اللہ اپنی اس آیت کے ذریعے احساس دلاتا ہے کہ جس طرح انھوں نے تمہیں بچپن میں پالا پوسا تھا اور ان کے سارے کام کیے تھے جب تم ایک گوشت کے لوتھڑے کی مانند تھے۔ بے شمار اولادیں ایسی بھی لائق فائق ہیں جو اپنے بیمار والدین کے لیے خدمت گار نہیں رکھتے ہیں بلکہ سارے کام انجام دے کر اپنے لیے جنت کی راہیں ہموار کر لیتے ہیں۔

ٹی وی پروگراموں کے کردار ’’عدت‘‘ پوری کرنے سے مبرا نظر آتے ہیں اور یہ ہی حال ہمارے معاشرے کا ہے شوہر کے انتقال یا طلاق کے بعد عدت کے احکام پر عمل کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا ہے، ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا ہے وہ بن سنور کر شادی بیاہ میں ایسے شرکت کرتی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے، جانوروں کے مرنے پر بھی لوگ دکھی ہو جاتے ہیں اور کئی ہفتوں غم میں گزارتے ہیں۔ 

چونکہ پالتو جانوروں سے محبت فطری بات ہے، اب بھلا شوہر کا کتے، بلی یا دوسرے جانور، ان سے کیا مقابلہ؟ دکھی ہونا تو دور کی بات ہے غم اور محرومی کا اظہار بھی انھیں بے مقصد نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بات تمام بیواؤں اور مطلقہ خواتین کے لیے لاگو نہیں ہوتی ہے، بے چاری بے شمار خواتین تو شوہر سے جدائی کے بعد اس کی یاد میں بسر کرتی ہیں اور دوسری شادی کرنا، یا دنیا کے رسم و رواج، شادی بیاہ اور تہواروں میں خوشی منانا اپنے لیے شجر ممنوعہ سمجھ لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس طریقے کو پسند نہیں فرمایا ہے۔ ہر کام اعتدال اور اخلاق وتہذیب کے دائرے میں ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 ایسے ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں کہ الامان۔ حاضرین اور اینکر پرسن اور ناظرین سب ہی لطف اٹھاتے ہیں، گفتگو میں تہذیب نہیں، لباس مغربی طرز کا، دوپٹہ تو عرصہ دراز سے غائب ہو چکا، جو کبھی ایک شانے پر جھول رہا ہوتا تھا، اب اس کی بھی چھٹی۔ اگر کہا جائے کہ لباس سے کچھ نہیں ہوتا ہے، ہم دل سے مسلمان ہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں یہ نہیں فرماتا کہ علی الحیاوالایمان۔

یعنی ’’حیا‘‘ ایمان کا حصہ ہے اور اپنی زینت کو چھپاؤ، زمین پر اکڑ کر نہ چلو، ایسے زیور نہ پہنو، جو بجتے ہوں۔ شادیوں کے معاملے میں بھی لڑکیاں اپنی من مانی کرتی نظر آتی ہیں، اچھے اچھے رشتوں کو ٹھکرا کر والدین کو شرمندہ اور دکھ سے ہمکنار کرتی ہیں، اپنے والدین سے ہم کلام ہوتے ہوئے ذرہ برابر لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی ایسی ہی تیز ترار لڑکیاں سامنے آئی ہیں، وہ جو چاہتی ہیں کرتی ہیں وہ والدین کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں۔ آج کی اولادوں نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لیا ہے اور ان کا یہ عمل انھیں نیکی اور شرافت سے دور بہت دور لے جاتا ہے چونکہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی عذاب کا باعث ہوتی ہے۔

جب سے اسمارٹ موبائل آئے ہیں مزید تباہی کے در وا ہوئے ہیں۔ حکومت اگر اپنے ملک اور اپنی رعایا سے مخلص ہے تب وہ ان حالات پر نہ صرف یہ کہ توجہ دے بلکہ تدارک بھی کرے، ایسا کرنا اپنے ملک کو استحکام بخشنا ہے انھی نوجوانوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے خاندان کی حفاظت کرنا ہے بلکہ برائی کی جڑوں کو کاٹنا ناگزیر ہے۔ ملک ایسے ہی پھلتے پھولتے اور خوشحال نہیں ہوتے ہیں جب تک کہ حکومت اور اس کی رعایا مل جل کر کام نہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • فتح جنگ: گراں فروشی اور ناقص اشیاء پر کریک ڈاؤن، بھاری جرمانے اور ایف آئی آر درج
  • سمبڑیال الیکشن میں خاتون کو مرد امیدوار پر بھاری برتری
  • بھارت سے جنگ نہیں چاہتے، جنگ مسلط کی گئی تو پہلے سے زیادہ اور بڑےسرپرائز دیں گے، صدر مملکت
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • روس، چلتی ٹرین پر آسمان سے موت ٹوٹ پڑی، بھاری گاڑیوں سمیت پل گرنے سے 7 افراد ہلاک
  • انسان کا منفی کردار
  • روشن اور تاریک پہلو (آخری حصہ)
  • فکر و خیال کا جاں سوز شاعر، شہزاد نیئر
  • میری زندگی، میری مرضی؛ علیزے شاہ کا مختصر لباس پہننے پر جواب
  • ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ وجہ سامنے آگئی