Express News:
2025-09-18@17:27:29 GMT

’’تلخیوں کا بھاری بستہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

کیا آپ کے خیال میں بہت زیادہ سوچنا ٹھیک ہے؟ یہ بات بہرکیف درست ہے کہ زیادہ سوچنا  ہماری خوشیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

زیادہ سوچنا صرف دباؤ، بے چینی اور غم کا سبب بنتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھومتا پہیا ہے، جو آپ کو سوائے پریشانی کے کچھ نہیں دے سکتا، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے بہ جائے اس لمحے کا لطف اٹھائیں، زیادہ سوچنے والے اکثر اپنے دماغ ہی میں پھنسے رہتے ہیں، پچھلے واقعات کو اپنے ذہن میں دُہرا کر یا آنے والے واقعات کی پیشں گوئی کرتے رہتے ہیں۔

وہ حقیقت میں موجودہ لمحات میں نہیں جیتے۔ اس لیے کوشش کریں کہ جیسے آپ نے زیادہ سوچنا سیکھا، ویسے ہی آپ اسے چھوڑ بھی تو سکتے ہیں۔ اپنے ذہن پر توجہ دیں اس کی پرکھ کریں۔ ذہن سازی ایک ایسا طاقت وَر آلہ ہے، جو زیادہ سوچنے سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آپ کو موجودہ لمحے میں واپس لاتا ہے اور آپ کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ آپ کے خیالات حقیقت نہیں ہیں۔

منفی سوچ بھی ایک ایسی عادت ہے، جو آپ کی خوشی کو چھین سکتی ہے، جو لوگ مثبت رویہ اپناتے ہیں، وہ زیادہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔

 

یہ کہنا نہیں ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہیں، لیکن وہ ان کا سامنا مثبت طریقے سے کرتے ہیں۔ اب یہ بھی نہیں کہ آپ کو ہمیشہ مثبت رہنا چاہیے، بس آپ کو ہر صورت میں چمک دار اور روشن پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زندگی کو مسکراتے ہوئے گزارنے کی کوشش کریں۔ آپ کی مسکراہٹ بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی کے بارے میں مثبت رویہ ہماری خوشی پر نمایاں اثر ڈالتا ہے۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ زندگی میں ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، یہ دنیا کے معمول کا ایک حصہ ہے، لیکن اب دیکھنا ہے کہ ہم ان غلطیوں سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں اور نقائص پر بہت زیادہ تنقید کرتے ہیں۔ ہر غلطی یا ناکامی پر اپنے آپ کو مسلسل ملامت کرتے رہتے ہیں۔

 

بلکہ کوشش کریں کہ اپنی غلطی سدھاریں، نہ کہ خود کو ملامت کریں۔ اپنے آپ کے ساتھ وہی مہربانی کیا کریں، جو آپ اپنے قریب ترین دوست کے ساتھ کرتے ہیں۔ آئیے، خود پر ترس نہ کھائیے، بلکہ مثبت ہمدردی کریں، اپنے آپ کو نئی ہمت دیں اور اپنی غلطیوں کو بغیر کسی فیصلے کے تسلیم کریں۔

کیا آپ نے کبھی اپنے آپ کو ماضی کے بارے میں پچھتاتے یا مستقبل کے بارے میں فکر کرتے ہوئے پایا ہے؟ یہ ایک عام عادت ہے، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں میںپائی جاتی ہے، لیکن یہ ہماری خوشی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے’’ماضی میں نہ رہو، مستقبل کے بارے میں خواب نہ دیکھو، اپنے دماغ کو موجودہ لمحے پر مرکوز کرو!‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر توجہ مرکوز کرنا۔ یہ آپ کے ماضی کو تسلیم کرنے، اپنے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے، لیکن موجودہ لمحے میں جینے کے بارے میں ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ تکلیف سے بچنا چاہتا ہے۔خوشی کی طرف ایک اہم قدم یہ ہے کہ ہم تکلیف کا سامنا کرنا سیکھیں، چاہے وہ ایک مشکل گفتگو ہو، ایک سخت ورزش ہو، یا کسی قسم کے کٹھن جذبات کا سامنا ہو، جس سے ہم بچنا چاہ رہے ہوں۔

تلخیوں یا ماضی کے دردوں کو سینے میں بٹھانا ایک ایسا بھاری بستہ لے جانے کے مترادف ہے، جسے آپ ہر جگہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ آپ کو غیر ضروری طور پر وقت سے پہلے ہی بوجھل کر دیتا ہے اور آپ کو حقیقی خوشی کا تجربہ کرنے سے روکتا ہے۔ آئیے ہم ماضی کی تلخیوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ تلخی کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش کریں۔

 زندگی کو اتنا سنجیدہ لینا بھی ٹھیک نہیں کہ آپ موجودہ خوشیوں کو نظر انداز کر دیں۔ زندگی سے لطف اٹھانے کا سادہ اور عملی طریقہ یہ ہے کہ آپ تفریح کے لیے وقت نکالیں۔ چاہے یہ دوستوں کے ساتھ ہو یا اپنے خاندان کے ساتھ، یا اپنے کسی پالتو جانور کے ساتھ کھیلنا ہو یا کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر اپنی پسند کی کتاب پڑھنا ہو۔ لہٰذا، اپنے لیے نئے سال کی خوشیوں کو خوش آمدید کہیے اور پرسکون ماحول میں ان سے لطف اٹھایے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں کوشش کریں ہے کہ ا پ کرتے ہیں اپنے ا پ کے ساتھ

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • قومی شاہراہوں کی بندش سے جموں میں سیب کے تاجروں کو بھاری نقصان
  • شیرانی، دہشتگردوں کا تھانے پر حملہ، دو اہلکار شہید، متعدد زخمی
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • لوگوں چیٹ جی پی ٹی پر کیاکیا سرچ کرتے ہیں؟ کمپنی نے تفصیلات جاری کر دیں
  • 65 ء کی جنگ کا پندرہواں روز‘ سیالکوٹ سیکٹر میں دشمن کا حملہ ناکام، بھارتی فوج کو بھاری نقصان 
  •  شہری اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں گے  تو شہر صاف رہے گا‘ا ایم ڈی سالڈ ویسٹ