کائنات سے قیمتی پانی کی ایک چھینٹ!
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے بعد ابو سفیان مدینہ آئے۔ ابو سفیان مدینہ پہنچے تو سیدھے رسول خداﷺ سے گفتگو کرنے کے بجائے ادھر ادھر کی سن گن لینے کا منصوبہ بنا کر اپنی دختر ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے دولت خانہ پر آئے۔ قریش کے معاملہ میں رسول اللہﷺ کے رجحانات کا اندازہ ام المومنینؓ کو بھی تھا۔ لیکن آنحضرتﷺ کے ارادہ کی اطلاع نہ تھی۔ اپنے والد کو آتا دیکھ کر ام المومنین ؓ نے رسول اللہﷺ کا بستر سمیٹ لیا۔ ابو سفیان نے کہا ’’کیا یہ بستر تمہارے باپ کے شایانِ شان نہیں یا تمہارا باپ اس بستر پر بیٹھنے کے قابل نہیں؟‘‘ فرمایا ’’ یہ بستر رسول اللہﷺ کا ہے۔ آپ مشرک نجس ہیں۔ مجھے گوارا نہیں کہ آپ اس بستر سے مس کریں!‘‘۔ ابو سفیان جھلا کر بولے ’’بیٹی! میرے بعد تمہیں شر سے دوچار ہونا پڑے گا‘‘۔ غضب ناک ہو کر ام المومنینؓ کے دولت خانہ سے باہر آئے اور رسول خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مدت صلح میں توسیع کی استدعا کی، مگر رسول اللہﷺ نے مثبت یا منفی کوئی جواب نہ دیا۔
ابو سفیان حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہاں باریاب ہوئے کہ ان سے سفارش کرائیں۔ انہوں نے بھی انکار فرما دیا۔ یہاں سے جناب عمر بن الخطابؓ کے ہاں پہنچے۔ انہوں نے فرمایا ’’میں اور تمہارے لیے سفارش! البتہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے میں برائے نام فائدہ کی توقع بھی ہو تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا‘‘۔
حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرف سے نامراد ہو کر ابو سفیان دولت کدۂ علی بن ابی طالبؓ پہنچے، سیّدہ فاطمہؓ بھی تشریف فرما تھیں۔ ابو سفیان کی اسی درخواست پر بی بیؓ نے نہایت نرم انداز میں فرمایا ’’رسول اللہﷺ جب کسی کام کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس سے کوئی شخص آپﷺ کو نہیں روک سکتا‘‘… ابوسفیان نے درخواست کی ’’مجھے حسنؓ (بن علی) کی پناہ میں دے دیا جائے…‘‘ سیّدۃ الزہراؓ نے فرمایا ’’رسول اللہﷺ کے خلاف کوئی شخص کسی کو پناہ نہیں دے سکتا‘‘ … حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ابوسفیان تمہارے لیے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی چونکہ تم بنو کنانہ کے سردار ہو مدینہ کے کسی مناسب مقام پر کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ ’’صلح قائم ہے‘‘ اور اس کے بعد فوراً واپس چلے جاؤ۔‘‘ (ابوسفیان نے جب واپس آ کر مکہ میں اپنے ساتھیوں سے ماجرا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ سے مذاق کیا ہے)۔
اس کے بعد نبی کریمﷺ نے مکہ کی طرف کوچ کا ارادہ فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو لشکر کی تیاری کا حکم دے دیا۔ اہلیان اسلام کے لشکر نے جب مکہ کی طرف کوچ کیا تو چلتے چلتے اسلامی لشکر میں شامل مہاجر، انصار، بنو مسلیم، بنو مزمینہ، عظفان و دیگر شرکاء کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اِس لشکر میں شامل ہر فرد، ہر ہستی، ہر سواری کے پہ میری اور میرے والدین کی جان قربان۔ اس اثنا میں حضرت عباسؓ اسلام قبول کر چکے تھے۔ اس سفر میں آقا کی ناقہ کا نام بیضا تھا۔
رحمت اللعالیمنﷺ صرف انسانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ کل کائنات کے لیے رحمت ہیں، آپؐ کی عنایات جن و بشر، خشک و تر، چرند پرند ہر ایک پر رہیں اور ہیں۔ فتح مکہ کے سفر کے دوران راستہ میں ایک مقام پر ایک کتیا نے بچے جنے ہوئے تھے۔ آقاﷺ نے لشکر کو کم و بیش ایک سو گز راستہ تبدیل کرنے کا حکم دیا اور یوں لشکر نے راستہ بدل لیا کہ کتیا پریشان نہ ہو۔
الاؤ کے لیے رسول اللہﷺ نے لشکر کے ہر شریک کو چولہا رکھنے کے حکم دیا اور اس حکم کے مطابق مکہ کے قریب دس ہزار چولہوں کے الاؤ سے رات کی تاریکی میں جو منظر پیدا ہوا، اس سے دشمنان اسلام کے دل دہل گئے۔ سرکار آقا کریمﷺ نے اس روز سیاہ رنگ کا عمامہ باندھا ہوا تھا… آقا کریمﷺ کے خیمۂ اقدس میں حضرت عباسؓ، ابو سفیان اور حضرت عمرؓ کے درمیان مکالمہ ہوا جس کے بعد ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا۔
صحابہ اجمعین اور لشکر اسلام کے شرکاء کی خانہ کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر سے دلوں کو پہنچنے والی مسرت کے نام… حضرت خالد بن ولیدؓ کے رسالے پر عکرمہ، سہیل اور صفوان کے دستے نے حملہ کیا اور جواب میں اٹھائی جانے والی ذلت و رسوائی کے نام … سرکارﷺ کے فرمان ’’اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘‘ کے نام … جنت المعلیٰ کے نام جس کے قریب حضرت ابو رافع ؓ نے سرکارﷺ کے لیے خیمہ لگایا تھا۔ … قصواء کی قسمت کے نام جس پر اس وقت آقا کریمﷺ سوار تھے اور شکر و ثنا میں مشغول تھے۔ … حضرت ابو قحافہؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ہمشیرہ قریبہ کے قبول اسلام کے نام … خیمہ رسولﷺ کے نام … رسول اللہﷺ کے لیے لگائے گئے خیمہ میں اُس وقت موجود جناب ام المومنین حضرت ام سلمیٰؓ، ام المومنین حضرت میمونہ ؓاور جناب سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓکے نام … کچھ دیر بعد خیمہ میں پہنچنے والی حضرت ام ہانیؓ کے نام … قصوا آہستہ آہستہ چل کر آئی حضرت ابو رافعؓ نے آگے بڑھ کر مہار پکڑی آقا کریمؓ نیچے اترے اور خیمہ میں داخل ہو گئے۔ اُن مبارک ساعتوں کے نام … سرکارؓ نے غسل فرمایا، غسل سے بچا ہوا پانی حضرت بلالؓ باہر لائے تو پانی کی ایک ایک چھینٹ، ایک ایک بوندھ کو ترسنے والے بے قرار صحابہ اجمعینؓ کی بے قراری کے نام جو پانی کی ایک چھینٹ کے لیے ٹوٹ پڑے۔ حضرت ابو حجیفہؓ نے ہجوم کو نظم و ضبط دیا مگر پانی برتن، کاسوں، ہاتھوں، آنکھوں، سینوں، چلوؤں چہروں پر مل لینے والے صحابہؓ کے نام، ایک ایک چھینٹ کو کل کائنات سے زیادہ قیمتی سمجھ کر سمیٹ لینے والوں کے نام اُس پانی کی ایک ایک چھینٹ ، ایک ایک بوند کی مہک کے نام۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ام المومنین پانی کی ایک رسول اللہﷺ اسلام کے ایک ایک کے بعد کے نام کے لیے
پڑھیں:
ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
اس وقت ایک اور خطرہ ڈنگی وائرس بھی پھیل چکا ہے۔ محکمہ صحت کی نااہلی، بلدیاتی اداروں کی غفلت اور عوامی بے حسی نے اس خطرے کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ شہر کے گلی کوچے، اسکول، اسپتال، حتیٰ کہ گھروں کے صحن تک مچھروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
رواں سال صوبے بھر میں ملیریا کے 1 لاکھ 92 ہزار 571 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے صرف کراچی میں 2 ہزار 736 کیسز سامنے آئے۔ اسی دوران سندھ میں ڈنگی کے 698 تصدیق شدہ مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 524 کا تعلق کراچی سے ہے اور ایک مریض جان کی بازی ہار چکا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں کراچی میں ڈنگی کے 30، حیدرآباد میں 11 اور تھرپارکر میں 10 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسئلہ محض چند علاقوں تک محدود نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے۔
ڈنگی مریضوں کی تعداد میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کی حاضری کم ہو رہی ہے، کلاس رومز میں خوف کا ماحول ہے، والدین اپنے بچوں کو بھیجنے سے گریزاں ہیں۔
بارشوں کے بعد صفائی کے ناقص انتظامات، نالیوں کا بند ہونا،کچرے کے ڈھیر اور مچھروں کی افزائش نے حالات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ نجی و سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ایمرجنسی وارڈز بھرچکے ہیں اور ڈنگی کے مریضوں کے لیے بسترکم پڑگئے ہیں۔
مچھر مار اسپرے کی مہم محض کاغذوں تک محدود ہے، نہ کوئی مربوط حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی نگرانی۔ شہری علاقوں میں تو صورتحال ابتر ہے ہی دیہی علاقوں میں تو لوگ محض گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
ڈنگی بخار کی ابتدا ایک خاص قسم کے مچھر ایڈیز ایجپٹائی (Aedes Aegypti) کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ مچھر عام طور پر دن کے اوقات میں کاٹتا ہے اور صاف پانی میں افزائش پاتا ہے۔ یعنی وہ پانی جو گھروں کے گملوں، ٹینکیوں، ٹائروں،کولروں یا چھتوں پر جمع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں غفلت کی ابتدا ہوتی ہے۔
شہری انتظامیہ صفائی کے دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر نہ کوئی نکاسیِ آب کا نظام فعال ہے اور نہ ہی مچھر مار ادویات کا اسپرے باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ ڈنگی بخارکی علامات میں اچانک تیز بخار، شدید جسمانی درد، جوڑوں میں اکڑاؤ، آنکھوں کے پیچھے درد، جلد پر سرخ دھبے اورکمزوری شامل ہیں۔ بعض کیسز میں خون کے خلیے کم ہونے لگتے ہیں، جسے ڈنگی ہیمرجک فیورکہا جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
اسپتالوں میں ایسے درجنوں مریض زیرِ علاج ہیں جنھیں پلیٹ لیٹس کی فوری فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مگر خون کے عطیات کی کمی ایک الگ المیہ بن چکی ہے۔ ڈنگی سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ گھروں، دفاتر اور اسکولوں میں صفائی کو اولین ترجیح دی جائے۔
کسی بھی برتن،گملے یا ٹینکی میں پانی کو جمع نہ ہونے دیا جائے۔ بچوں کو پوری آستین کے کپڑے پہنائے جائیں، مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور جسم پر مچھر بھگانیوالا لوشن لگایا جائے۔ شہری حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے کروانا چاہیے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بارش کا پانی اب تک جمع ہے۔ڈنگی کا علاج عام طور پر علامات کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔
مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام اور پانی کی وافر مقدار دی جاتی ہے تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔ بخارکم کرنے کے لیے پیراسیٹامول کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اسپرین یا بروفن جیسی دوائیں ہرگز نہیں دینی چاہئیں،کیونکہ یہ خون پتلا کرتی ہیں اور خون بہنے کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں، اگر پلیٹ لیٹس بہت کم ہو جائیں تو ڈاکٹر کے مشورے سے اسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے۔
ڈنگی کے مریض کی خوراک میں ہلکی، توانائی بخش اور وٹامن سی سے بھرپور غذائیں شامل ہونی چاہئیں جیسے کہ پھلوں کے جوس، ناریل پانی، سوپ، پپیتا، سیب اورکیلا۔ مریض کو کیفین والے مشروبات، چکنائی والی اشیاء اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیزکرنی چاہیے۔
پپیتے کے پتوں کا رس کچھ تحقیقات کے مطابق پلیٹ لیٹس بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا ہے، تاہم اس کا استعمال صرف ڈاکٹر کی مشاورت سے کرنا چاہیے۔ ڈنگی بخارکے پھیلاؤ کی اصل وجوہات میں شہری حکومت کی نااہلی، صفائی کے ناقص انتظامات، مچھرمار مہمات کا غیر سنجیدہ رویہ اور عوامی غفلت شامل ہیں۔
شہریوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ ڈنگی محض ایک عام بخار ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وائرس جسم کے خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے اور وقت پر علاج نہ ہونے کی صورت میں موت کا باعث بن سکتا ہے۔
تشخیص کے لیے خون کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جیسے ڈنگی کی تشخیص کے لیے طبی ماہرین دو بنیادی ٹیسٹ استعمال کرتے ہیں۔ پہلا NS1 Antigen Test ہے، جو بخارکے آغاز کے ابتدائی پانچ دنوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ وائرس کے اینٹی جن کی موجودگی کو براہِ راست ظاہرکرتا ہے، لہٰذا اس سے ڈنگی کی فوری شناخت ممکن ہوتی ہے۔
دوسرا IgM Antibody Test ہے، جو عام طور پر بخار کے پانچ سے سات دن بعد مؤثر ہوتا ہے،کیونکہ اس وقت جسم وائرس کے خلاف مدافعتی ردِعمل میں IgM اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے۔ ان دونوں ٹیسٹوں کے ذریعے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ مریض حالیہ انفیکشن میں مبتلا ہے یا بیماری کا عمل پرانا ہے۔
بعض اوقات IgG Antibody Test بھی کیا جاتا ہے جو سابقہ یا بار بار ہونیوالے ڈنگی انفیکشن کی نشاندہی کرتا ہے۔ درست تشخیص کے لیے مریض کو صرف مستند لیبارٹریز سے ہی ٹیسٹ کرانے چاہییں تاکہ بروقت علاج ممکن ہو سکے۔
مگر حیدرآباد کے کئی اسپتالوں میں یہ سہولت موجود نہیں، جس کے باعث مریض یا تو کراچی جانے پر مجبور ہیں یا نجی لیبارٹریوں میں مہنگے داموں ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ اس صورتحال نے عام شہریوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتِ سندھ اور محکمہ صحت محض اعداد و شمار جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ مچھر مار مہم کو مؤثر اور شفاف بنایا جائے، صفائی کا نظام فعال کیا جائے، نالیوں اورکچرے کے ڈھیروں کی فوری صفائی کی جائے۔
اسپتالوں میں ڈنگی کے لیے خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں، ٹیسٹوں کی قیمت کم کی جائے اور اسکولوں میں آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ بچے، اساتذہ اور والدین حفاظتی تدابیر اختیارکریں۔
عوام کو بھی اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ گھروں میں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے، مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جائیں اور اگرکسی کو بخار ہو تو فوراً ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ وائرس مزید نہ پھیلے۔
ڈنگی ایک خطرناک مگر قابلِ تدارک بیماری ہے، اگر بروقت صفائی،آگاہی اور علاج کی سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ وائرس چند ہفتوں میں قابو میں آسکتا ہے، لیکن اگر حکومت کی بے حسی اور عوام کی غفلت جاری رہی تو آنیوالے دنوں میں یہ وبا مزید شدت اختیارکرسکتی ہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ حیدرآباد کراچی سمیت پورے سندھ میں ہنگامی بنیادوں پر مچھر مار مہم، اسپتالوں میں معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنایا جائے اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس وبا کا راستہ روکا جائے تاکہ شہریوں کی قیمتی جانیں محفوظ رہ سکیں، اگر یہ مربوط اور عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو حیدرآباد کراچی اور سندھ کے دیگر شہر ایک طویل وبائی دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے، اسکولوں میں حاضری مزید کم ہو گی اور شہری خوف و بے بسی کے عالم میں روزمرہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ صفائی اور سیوریج کی خرابی سے صرف ڈنگی نہیں بلکہ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ہیضہ جیسی بیماریاں بھی جنم لیں گی۔
گلیوں میں گندے پانی کی بدبو، مچھروں کی بھرمار اور اسپتالوں میں ادویات کی قلت ایک ایسے بحران کو جنم دے گی جس پر بعد میں قابو پانا ممکن نہیں رہے گا، محکمہ تعلیم نے طلبہ میں شعور بیدار نہیں کیا تو اسکولوں اورکالجوں میں ڈنگی وائرس میں مزید اضافہ ہوگا، اگر بلدیہ نے صفائی اور نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر نہ بنایا تو شہرکا ہر محلہ مچھروں کی افزائش گاہ بن جائے گا اور اگر عوام نے اپنے گھروں، چھتوں اور صحنوں میں احتیاط نہ کی تو یہ وائرس گھر گھر پہنچ جائے گا۔
ڈنگی وائرس کے متعلق خصوصی پروگرامز نشرکیے جائیں، فلاحی تنظیمیں شہر میں اہم شاہراہوں پر امدادی کیمپ قائم کریں اور عوام کو طبی سہولیات فراہم کریں۔ حکومتی نمایندے ہنگامی بنیادوں پر اس وباء پر قابو پانے ؐثٌٰٔ بھرپور اقدامات کریں، اگر اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو یہ وباء صرف جسموں کو نہیں بلکہ معیشت، تعلیم اور سماجی زندگی کو بھی مفلوج کر دے گی۔ شہری حکومت پر اعتماد کھو بیٹھیں گے، اسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا اور خوف و بد اعتمادی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔