فلم عاشقی 3 میں کارتک آریان کے ساتھ ہیروئن کون ہوگی؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
بالی ووڈ کے معروف ہدایتکار انوراگ باسو نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ترپتی دیمری کو فلم ’عاشقی 3‘ سے نکال دیا گیا ہے، جو کہ فلم انیمل کے بعد عاشقی 3 کیلئے کاسٹ کی گئی تھیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق مداح ترپتی دیمری کو ’بھول بھلیاں 3‘ کے بعد ایک بار پھر کارتک آریان کے ساتھ ’عاشقی تھری‘ میں دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ جس کے بعد فلم کے ہدایتکار انوراگ باسو نے انہیں فلم میں شامل بھی کرلیا تھا تاہم اب ترپتی کو فلم سے نکال دیا گیا ہے۔
فلم کے ابتدائی شاٹس کی شوٹنگ کے دوران ترپتی کی غیر موجودگی نے ان کی شمولیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
بعد ازاں یہ افواہیں سامنے آئیں کہ انہیں فلم ’اینیمل‘ میں ان کے بولڈ کردار کی وجہ سے انہیں اس پروجیکٹ سے الگ کیا گیا ہے۔ تاہم انوراگ باسو نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے اور اداکارہ کو فلم سے نکالنے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترپتی کو ’اینیمل‘ کے بولڈ سین کی وجہ سے نکالے جانے کی بات درست نہیں، اور خود ترپتی بھی اس حقیقت سے واقف ہیں۔
تاہم ہدایتکار انوراگ باسو نے اداکارہ کو فلم سے نکالنے کی اصل وجہ نہیں بتائی۔
یاد رہے کہ بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فلمسازوں کا ماننا تھا کہ ترپتی ’عاشقی 3‘ کی ہیروئن بننے کے لیے مطلوبہ ’معصومیت‘ کی خصوصیات پر پورا نہیں اترتیں۔
انکا کہنا ہے کہ عاشقی جیسی روحانی محبت کی کہانی کے لیے معصومیت ضروری ہے اور فلم کی ٹیم کے مطابق ترپتی اپنے حالیہ کرداروں کی وجہ سے اس معیار پر پوری نہیں اترتیں کیونکہ انیمل میں انہوں نے جھوٹی محبت کی کہانی رچائی تھی۔
اب کارتک آریان کے ساتھ عاشقی 3 میں ہیروئن کون ہوں گی اس حوالے سے مزید معلومات کا انتظار ہے جس کا اعلان ہدایتکار جلد کریں گے؟
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انوراگ باسو نے کو فلم
پڑھیں:
ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
کراچی (نیوز ڈیسک)مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ایک بار پھر خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، بین الاقوامی نگرانی ختم ہو چکی ہے، اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ تہران خفیہ طور پر افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے جو کم از کم 11 ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ایرانی ماہر کے مطابق ایران 2 ہزار میزائل ایک ساتھ فائر کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے۔دونوں فریق اپنی فوجی تیاریوں میں مصروف ہیں، جب کہ عرب دنیا نئی جنگ کے خدشے سے بچنے کے لیے محتاط توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر سفارتی جمود نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک بار پھر غیر یقینی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ماہرین اس صورتِ حال کو خطرناک تعطل قرار دیتے ہیں جو کسی بھی وقت نئی جنگ میں بدل سکتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک اس وقت ایران کے جوہری پروگرام سے زیادہ اپنی فوری سلامتی اور غزہ کی صورتِ حال پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ایران کے جوہری خطرے کے باوجود، سعودی عرب نے رواں سال ستمبر میں پاکستان کے ساتھ ایک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایران ماہر علی واعظ کے مطابق، ایران نے پچھلی اسرائیلی کارروائیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اب کی بار محدود ردِعمل کے بجائے بڑے پیمانے پر جوابی وار کی تیاری کر رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل فیکٹریاں 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں اور تہران آئندہ جنگ میں دو ہزار میزائل ایک ساتھ فائر کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے جو پچھلے حملوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، اسرائیل اب بھی سمجھتا ہے کہ کام ادھورا ہے، لہٰذا ایران کو یقین ہے کہ اگلا مرحلہ جلد آنے والا ہے۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی خارجہ پالیسی ڈائریکٹر سوزین ملونی کہتی ہیں کہ ایران فی الحال 2003 کے بعد سے اپنی سب سے کمزور معاشی اور سفارتی پوزیشن پر ہے، مگر اس کمزوری نے اسے بے اثر نہیں بنایا۔ان کے مطابق، ایسا ایران جو خود کو محصور اور دباؤ میں محسوس کرے، وہ زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر سکتا ہے۔ سینٹر فار امریکن پروگریس اور رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ایچ اے ہیلیئر کے نزدیک اسرائیل اب سفارتی حل پر اعتماد نہیں کرتا۔ان کا کہنا ہے، مجھے شبہ نہیں کہ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام محض بات چیت سے نہیں روکا جا سکتا۔ جیسے ہی ایران ایک مخصوص حد عبور کرے گا، اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا۔چیتھم ہاؤس کی ماہر وکیل کے مطابق، خلیجی ریاستیں اس وقت عرب ممالک بھی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ اسرائیل پر کچھ پابندیاں لگوائی جا سکیں، جو غزہ، حماس اور حزب اللہ کو تباہ کرنے اور ایران کو نقصان پہنچانے کے بعد ایک علاقائی طاقت بننے کے عزائم رکھتا ہے۔عرب حکام ایران اور امریکہ کے درمیان نئے جوہری مذاکرات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مگر فی الحال زیادہ امید نہیں رکھتے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کو کہا کہ امریکہ کی ایران دشمنی “گہری اور دیرپا” ہے۔انہوں نے 4 نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی سالگرہ کے موقع پر خطاب میں کہا:”امریکہ کی متکبر فطرت کسی چیز کو قبول نہیں کرتی سوائے ہمارے مکمل سرنڈر کے۔”ان کے یہ الفاظ امریکہ کے ساتھ کسی بھی نئے جوہری مذاکرات کے راستے میں رکاوٹ سمجھے جا رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ واشنگٹن نے “ناقابلِ قبول اور ناممکن شرائط” پیش کی ہیں — جن میں براہِ راست مذاکرات اور یورینیم کی افزودگی کا مکمل، قابلِ تصدیق خاتمہ شامل ہے۔