ملالہ یوسف زئی نے تعلیم جیسے اہم موضوع پر بات چیت کی: شہزاد رائے
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
---فائل فوٹو
پاکستانی گلوکار و نغمہ نگار شہزاد رائے نے کہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی نے تعلیم جیسے اہم موضوع پر بات چیت کی ہے۔
شہزاد رائے نے جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کے دوران کہا کہ ٹیچنگ کے شعبے کو پروفیشنل انداز میں لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہری علاقوں میں 12ویں جماعت جبکہ دیہی علاقوں میں 8 ویں جماعت کے بعد ہی لڑکیوں پر شادی کا دباؤ ہوتا ہے۔
شہزاد رائے کا غزہ میں اسرائیل کی جاری بربریت پر کہنا ہے کہ غزہ میں بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔
نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پاکستان پہنچ گئیں۔
یاد رہے کہ حال ہی میں نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے، ایک دہائی سے طالبان نے خواتین سے تعلیم کا حق چھین رکھا ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق کانفرنس میں شرکت کے دوران اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد پورا نہیں ہو گا اگر ہم افغان لڑکیوں کی تعلیم کی بات نہ کریں۔
ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ طالبان نے خواتین کے حقوق چھیننے کے لیے 100 سے زائد قانون سازیاں کی ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ملالہ یوسف زئی
پڑھیں:
ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
صحیفہ جبار خٹک نے کہا ہے کہ ریٹنگز کی خاطر ڈرامے جبر اور ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں دکھا رہے ہیں۔حال ہی میں انسٹاگرام پر صحیفہ جبار نے ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی غیر حقیقی نمائندگی اور جبر و ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں پیش کیے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔صحیفہ جبار نے لکھا کہ کیا واقعی پاکستانی گھروں میں خواتین روزانہ ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ کیا وہ ہر روز اتنا میک اپ کرتی ہیں؟ ہمارے ڈراموں میں یہ سب دکھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے یا متوسط طبقے سے ہے، جہاں روزمرہ زندگی میں مہنگے کپڑے پہننا عام بات نہیں ہے۔اداکارہ نے مزید کہا کہ ہمارے ڈراموں میں غلط طرزِ زندگی دکھایا جا رہا ہے اور ایسا پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہر عورت اسی انداز میں زندگی گزارتی ہو۔اداکارہ نے ڈراما سیریلز کے بار بار دہرائے جانے والے مواد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جیسے کہ ساس بہو کی لڑائیاں، مظلوم عورت کا عزت بچانے کی جدوجہد اور ظلم کو رومانی انداز میں دکھانا۔انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ڈراموں کی کہانیاں ایک جیسی کیوں ہو گئی ہیں؟ ہر کہانی میں ایک ہی بات کیوں ہوتی ہے؟ ہر لڑکی اپنی عزت کی وضاحت کیوں دیتی ہے؟ ہر ساس اپنی بہو پر ظلم کیوں کرتی ہے؟ ہر رشتہ زبردستی اور جبر پر کیوں مبنی دکھایا جا رہا ہے؟اداکارہ کے مطابق جبری شادی، ناپسندیدہ تعلق اور شوہر کا بیوی پر ظلم، یہ سب کچھ کئی ڈراموں میں اس طرح دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ محبت کا حصہ ہو یا جیسے یہ سب عام اور قابلِ قبول بات ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب آخر کیوں ہو رہا ہے؟ صرف ریٹنگز کے لیے؟ یا ہم واقعی اپنے معاشرے کو مزید خراب کر رہے ہیں؟