عامر خان نے میرے شو کا فارمیٹ چوری کیا، حنا بیات کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
پاکستان کی مشہور اداکارہ حنا بیات اپنی خوبصورتی، ذہانت اور بہادری کے لیے جانی جاتی ہیں، جو حقائق پر کھل کر بات کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک میزبان کے طور پر کیا اور سماجی مسائل پر مبنی پہلا پروگرام پیش کیا، جس میں ممنوعہ موضوعات پر بات چیت کی گئی۔ ان کے اس اقدام سے کئی لوگوں کو مسائل کے حل اور شعور حاصل کرنے میں مدد ملی۔
بعد میں حنا بیات نے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور وہاں بھی کامیابی سمیٹی۔
ایک حالیہ انٹرویو میں حنا بیات نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی اداکار عامر خان کا پروگرام ’ستیہ میں وجیتے‘ جو بھارتی نجی ٹی وی چینل اسٹار پلس پر نشر ہوا کرتا تھا، ان کے پروگرام کے فارمیٹ کو چوری کر کے بنایا گیا تھا۔
حنا نے اوشنا شاہ کے شو میں گفتگو کے دوران کہا کہ عامر خان کے اس شو کا تصور (کانسیپٹ) اور سیٹ ڈیزائن تک ان کے پروگرام سے ملتا جلتا تھا، جس پر ان کی ٹیم کے کئی افراد حیران رہ گئے تھے۔
حنا نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ انہیں اس پروگرام کے زریعے سماجی مسائل پر بات کرنے اور بہت سی کہانیاں لوگوں کو بیان کرنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ان کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حنا بیات
پڑھیں:
شوبز انڈسٹری کے اندرونی مسائل پر اداکارہ صحیفہ جبار کا اہم انکشاف
پاکستانی اداکارہ و ماڈل صحیفہ جبار خٹک نے حالیہ دنوں پاکستانی ڈراما انڈسٹری کے خلاف ایک تفصیلی اور بے باک بیان دے کر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
انسٹاگرام پر اپنی اسٹوریز میں صحیفہ نے نہ صرف انڈسٹری کی ظاہری چمک دمک پر سوالات اٹھائے بلکہ اس کے پس پردہ چلنے والے غیر انسانی رویوں اور غیر پیشہ ورانہ ماحول پر بھی کڑی تنقید کی۔
صحیفہ کے مطابق پاکستانی ڈراموں میں سنجیدہ اور بامقصد کہانیوں کی جگہ صرف گلیمر اور سطحی تفریح کو ترجیح دی جارہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہیں کبھی کام کی کمی کا سامنا نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے خود کئی ایسے پروجیکٹس سے انکار کیا جن کے پیغام سے وہ متفق نہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف دو ڈرامے ’بیٹی‘ اور ’بھول‘ اس لیے کیے کیونکہ ان میں معاشرتی شعور پیدا کرنے والی کہانیاں موجود تھیں۔
انہوں نے اسکرپٹ کے انتخاب کے عمل پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب تک صرف کمرشل کامیابی کو ہی معیار سمجھا جاتا رہے گا، ہم وہ حقیقی اور اثر انگیز کہانیاں کبھی بیان نہیں کر سکیں گے جو معاشرے کو آئینہ دکھاتی ہیں۔
صحیفہ نے ڈراموں میں دکھائی جانے والی غیر حقیقت پسندانہ اسٹائلنگ پر بھی اعتراض کیا۔ ان کے مطابق کرداروں کو ان کے طبقے، حالات اور ثقافت کے مطابق دکھانے کی ضرورت ہے، نہ کہ کسی فینٹسی ورلڈ میں گھڑ کر پیش کرنے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خوبصورتی نہیں، بلکہ سچ دکھانا ہے۔
انہوں نے معاشرتی مسائل کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا کہ ہمارے اردگرد بہت سی ایسی حقیقتیں موجود ہیں جنہیں ڈراموں کے ذریعے پیش کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے داتا دربار کے باہر نشے کے عادی افراد اور قصور جیسے سانحات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ سچائیاں ہیں جو ہمیں جھنجھوڑ سکتی ہیں، لیکن ان پر کوئی بات نہیں کرتا۔
اداکارہ نے شوٹنگ سیٹس پر فنکاروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھی ہدفِ تنقید بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ فنکاروں کو مہینوں ادائیگی کا انتظار کرنا پڑتا ہے، کوئی معاہدہ مکمل طور پر لاگو نہیں ہوتا، اور سیٹ پر سہولیات کی شدید کمی ہوتی ہے۔ مرد و خواتین فنکاروں کو ایک ہی کمرے میں تیار ہونا، کھانا کھانا، اور آرام کرنا پڑتا ہے، جبکہ صفائی ستھرائی کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہوتا۔
صحیفہ نے اس افسوسناک رویے کی نشاندہی بھی کی کہ اگر کوئی فنکار وقت پر آئے، محنت کرے اور بے ضرر رہے تو اسے ’مشکل‘ سمجھا جاتا ہے، لیکن جو نخرے کرے، دیر سے پہنچے اور غیر پیشہ ورانہ رویہ اختیار کرے، وہ انڈسٹری کا پسندیدہ بن جاتا ہے۔
اپنی پوسٹ کے اختتام پر انہوں نے ایک کڑوا سوال اٹھایا: ’’ہم ان مسائل پر بات کیوں نہیں کرتے جو اصل میں اہم ہیں؟‘‘