سینیٹ قائمہ کمیٹی اجلاس: کالا علم، جادو، تعویز کرنیوالوں کو سزا دینے کے بل پر بحث
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آ باد:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں کالا علم اور تعویز کرنیوالوں کو سزا دینے کے بل پر بحث کی گئی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا، اجلاس کی صدارت سینیٹر فیصل سلیم نے کی۔
اجلاس میں کالا علم اور تعویز کرنیوالوں کو سزا دینے کے بل پر بحث کی گئی، بل سینیٹر ثمینہ ممتاز کی جانب سے پیش کیا گیا۔
بل میں کالاعلم کرنیوالوں اور ان کی تشہیر کرنیوالوں کو 7 سال سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ کالے علم کی حدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں تک جاتی ہیں، ہرہفتے اخبارات میں ان کے اشتہارات چھپتے ہیں، اسی طرح آپ اس کو پیروں پر لے کر جائیں گے۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ کالا علم کرنے والے ہمارے معاشرے کو تباہ کررہے ہیں، عرفان صدیقی نے ثمینہ ممتاز سے مکالمہ کیا کہ آپ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہی ہیں، سینیٹر ممتاز ازہری نے کہا کہ خیر ہے، مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔
سینیٹر کامران نے کہا کہ مجھے چین جانے کا موقعہ ملا، دیوار چین پر بھی تالے لگے ہوئے تھے، سینیٹر فیصل سلیم نے کہا کہ اس پر حکومت نے کیا کام کیا ہے۔
سینیٹر ثمینہ نے کہا کہ کہاں ہمارے دین میں لکھا ہے کہ رات کو آپ جائیں اور کچھ پڑھیں، فاتحہ کرسکتے ہیں قبر پر بیٹھ کر، دیوار چین پر تالے کی بات، یہ کالے علم کا حصہ نہیں۔
فیصل سلیم نے کہا کہ کالا علم جو ہے وہ آپ نے بہت اچھا بل پیش کیا ہے،
سینیٹر پلوشہ نے کہا کہ کالے علم کے نام پرسادہ لوح لوگوں سے پیسے ٹھگ لئے جاتے ہیں، سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ کالا علم کرنے والے انتہائی غیرقانونی اور غلیظ کاموں میں ملوث ہیں۔
سینیٹر ثمینہ نے کہا کہ کالا علم کرنیوالے کوئی سائل آجائے تو اسے کہتے ہیں کسی کے پہلے بچے کو قتل کرکے اس کا خون لے کر آئیں، عرفان صدیقی نے کہا کہ ایک نیا قانون بنانے سے پہلے کالے جادو کو ڈیفائن کرنا بہت مشکل ہے۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ کالے جادو والے لوگوں ہیناثائز کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے کالا علم کرنیوالوں کو سزا دینے کے بل پر بحث اگلے اجلاس تک موخر کردی
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سینیٹر ثمینہ ممتاز
پڑھیں:
جنات، جادو اورمنترجنتر (پہلا حصہ)
جنات جادو اورمنتر جنتر اوراس طرح کے دوسرے مافوق البشرموضوعات پر بہت کچھ بولا گیا ہے اورسناگیا ہے، لکھا گیا ہے اورپڑھا گیا ہے اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کیوں کہ بہت ہی قدیم، وسیع اورنفع آور کاروبار ہے بلکہ اس روشن روشن دور میں پہلے سے بھی زیادہ پھیل چکا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ جب معاشرہ ناہموار ہوجاتا ہے۔
اس میں ظلم استحصال اوربے انصافی بڑھ جاتی ہے ، مٹھی بھر اشراف سب کچھ کھینچنے اور ہڑپنے لگتے ہیں اورعام انسان بے پناہ دکھوں، محرومیوںاور مجبوریوں کا شکار ہوجاتا ہے، سارے راستے اس پر بند ہوجاتے ہیں تو وہ کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہوتا ہے اوراگر کوئی اسے شارٹ کٹ دکھاتا ہے تو اس کے قریب ہو جاتا ہے ۔ ورنہ یہ جادو، تعویذگنڈے اورجنتر منتر یا اس قسم کی کوئی اور فوق البشر، ناممکن العمل اور ماورائی چیزیں نہ تو اس دنیا میں تھیں ،نہ ہیں اورنہ ممکن ہوسکتی ہیں کیوں کہ قدرت کے اس عظیم نہایت باترتیب اورخود کار کارخانے میں ہر کام، ہرچیز، ہر پیدائش اورہرحرکت میں ایسی چیزوں کی گنجائش ہی نہیں، نہ امکان نہ وجود۔کیوں کہ جب سے یہ کائنات ’’کن‘‘ سے شروع ہوکر ’’فیکون‘‘ ہورہی ہے، ایک اصول کے تحت چل رہی ہے جسے قانون الٰہی کہا جاتا ہے اورخالق کل مالک کل قادروتوانا ہستی نے کہا ہے کہ ’’اس قانون الٰہی میں کوئی تبدیلی ہرگزہرگز ممکن نہیں ‘‘
ہرپیدائش ،حرکت، ارتقاء، فنا، عروج وزوال، قدرتی عوامل ، رنج وراحت سب کچھ اسی اصول کے مطابق ہوتا ہے ۔اب کیا یہ ممکن ہے کہ مافوق الفطرت قسم کی مخلوق اس کی سب سے بعد تخلیق انسان پر سوار ہوجائے، اسے تنگ کرے اوراپنی مرضی سے چلائے یا پھر دودوٹکے کے غلیظ اورگندے لوگ جادو ٹونے منتر جنتر اورتعویذ گنڈے سے اس کے قانون میں مداخلت کریں ، ناقابل علاج بیماریوں کاعلاج کریں، لوگوں کی تقدیر بدل دیں، اور خدا کے رواں دواں قانون پر روک لگادیں۔
اب بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند بھوکوں مرچکے ہوتے کیوں کہ عقل مند خود تو کچھ نہیں کرتے، احمق سے ان کی کمائی مختلف طریقوں سے چھین کر کھاتے ہیں ، یوں کہیے کہ عقل مند ان احمقوں کے پیراسائٹ یاطفیلی ہوتے۔کبھی مذہب کاجھانسہ دے کر، کبھی وطن کا نشہ دے کر ،کبھی رنگ ونسل کے بانس پر چڑھا کر ، کبھی آزادی کا سبز باغ دکھا کر اورکبھی ’’کل‘‘ کی امید دلاکر ان سے ان کی کمائیاں کھینچ کر ہڑپتے ہیں، اس کے علاوہ ان پندرہ فی صد عقل مندوں کی تھیلی میں اوربھی کئی ڈگڈیاں اور بانسریاں ہوتی ہیں جو موقع ومحل کے مطابق نکال کر بجائی جاتی ہیں اورکم عقلوں کو مسحور کرکے لوٹا جاتا ہے، ان کی کمائیاں چھین کر کھاتے ہیں کچھ بھی نہ کرکے صرف باتوں سے بتنگڑ بنا کر لوٹتے ہیں ۔
کچھ بھی نہ کرنے والی یہ پندرہ فی صد اشرافیہ وسائل کا،پیداوارکا اورپورے ملک کاپچاسی فی صد ہڑپتی ہے جب کمانے والی، پیدا کرنے والی، مہیا کرنے والی عوامیہ عرف احمقوں کوان کی اپنی کمائی کا پندرہ فی صد بھی نہیں ملتا۔ایسے میں ان ہی عقل مندوں کے کچھ ساجھے دار ان کو طرح طرح کے شارٹ کٹ اور سبز باغ دکھاتے ہیں ، ناممکن قسم کی امیدیں اورسنہرے ’’کل‘‘ بیچتے ہیں ۔اگلے زمانوں میں یہی ’’مندرومحل‘‘ کی ساجھے دار اشرافیہ احمق عوامیہ کو لوٹ لوٹ کربے حال کردیتی ، تو یہ مذہب کاہتھیار استعمال کرنے والے ان کو بتاتے ہیں کہ تمہارے اعمال برے ہیں ، دیوتا تم سے ناراض ہیں کچھ لاؤ تاکہ ہم دیوتاؤں کو تم پر مہربان کریں۔
اس طرح اگر ان میں کچھ خون کے قطرے بچے ہوتے تو انھیں بھی چوس لیتے۔ چاہے نام بدلے ہو، مقام بدلے ہو، لوگ بدلے ہوں لیکن طریقہ وارادات اب بھی وہی ہے، وہی عقل مندوں پر مبنی پندرہ فی صد اشرافیہ ، پچاسی فی صد احمقوں کو اسی طرح لوٹتی ہے ۔ سارا کھیل ہزاروں سالوں سے جاری ہے کہ عقل مند اشرافیہ نے ہی ان پچاسی فیصد کو احمق بنایا ہوا ہے، انھوں نے عوامیہ کو دماغ کے عدم استعمال پر لگایا ہوا ہے اور یہ تو آج کے بچے بھی جانتے ہیں کہ یہ جو چیز یا عضو زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
وہ ترقی کرکے طاقتور ہوجاتی ہے اورجس کااستعمال نہیں ہوتا وہ کمزور ہوکر معدوم اور صفر ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اشرافیہ یا عقل مندوں نے اپنے مذہبی ساجھے دارکے ذریعے پچاسی فی صد احمقوں کو یقین دلایا کہ حکمران دیوتا ہے ، دیوتا زادہ ظل اللہ ہے،سایہ خدائے ذوالجلال ہے، اس لیے سوچنا اور دماغ سے کام لینا اسی کا کام ہے اوران کے کہے پر عمل کرنا تمہارا کام ہے ، تمہارا کام اس کے کہنے کے مطابق صرف جسم سے کام لینا اور اسے پالنا ہے، یوں ہزاروں سال سے استعمال اور عدم استعمال کے اس عمل کے ذریعے عوام کو صرف ’’جسم‘‘ اوراشراف کو ’’دماغ‘‘ بنایا جا چکا ہے۔چنانچہ عقل مند نعرے ،نظریے ، عقیدے اور دوستیاں دشمنیاں ’’ایجاد‘‘ کرتے ہیں اوراحمق اور بے دماغ عوامیہ اس پر بے سوچے سمجھے عمل کرتی ہے کہ سوچنے کاکام دماغ کرتا ہے اوروہ اس کے پاس رہا نہیں ہے۔
اب اس صورت حال میں جب احمقوں پر سارے راستے بند ہوجاتے ہیں، عقل مندوں کے استحصال سے بے حال اوربدحال ہوجاتے ہیں تو شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اوروہ شارٹ کٹ ان کو یہ عامل جنات ،جادو ، جنتر منتر اور تعویذ گنڈوں والے دکھاتے ہیں ۔چونکہ ان خالی دماغ احمقوں کی ایک کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ مذہب کے نام پر آسانی سے شکارہوجاتے ہیں،اس لیے ان کو مذہب ہی کے راستے دھوکا دیاجاتا ہے ،مائل کیاجاتا ہے، پھنسایا جاتا ہے۔
(جاری ہے)