سینیٹر عرفان صدیقی : فوٹو فائل

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ  امید ہے کل پی ٹی آئی وعدے کے مطابق تحریری مطالبات سامنے لائے گی۔

جیو نیوز سے خصوصی گفتگو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ گنتی کے لحاظ سے کل مذاکرات کا تیسرا دور ہے مگر عملًا پہلا دور ہوگا، امید ہے پی ٹی آئی 23 دسمبر کو کیے گئے وعدے کو کل پورا کر دے گی۔

عرفان صدیقی  نے کہا کہ بال ہمارے کورٹ میں آئے تو اس کو مثبت انداز میں آگے بڑھائیں گے، جیل کے اندر ملاقاتوں کا اپنا ضابطہ موجود ہے، ہم بیسیوں مرتبہ نواز شریف سمیت دیگر لیڈروں سے ملنے جیل گئے ہیں، ایک چھوٹا سا کمرہ ہوتا تھا آٹھ، دس لوگوں کو وہاں بٹھا دیتے تھے، کمرے کے چاروں کونوں میں پولیس اور کوئی اور اہلکار بھی ہوتے تھے۔

بانی پی ٹی آئی کے بیان میں براہ راست وزیرِاعظم کی ذات پر حملہ کیا گیا، عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات میں جو اس وقت صورتحال ہے اس کی ذمہ داری ن لیگ کی نہیں۔

رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ میاں صاحب نے کبھی کسی کو نہیں کہا کہ تم نکل جاؤ، ہم کوئی خفیہ طریقے سے نہیں کھلے عام باتیں کیا کرتے تھے، پی ٹی آئی کی جو ملاقات ہوئی اس میں اہلکار یا پہرے دار موجود نہیں تھا، چوکیدار، پہرے دار کو  تو مینیج کیا جا سکتا ہے، اب در و دیوار کو کیسے ہٹایا جائے، کمرے کی چھت تو دیواروں پر ہوتی ہے، اب دیواروں کو کیسے ہٹایا جائے؟

عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ انہوں نے ایسی کیا خفیہ باتیں کرنی ہیں کہ انہیں تخلیہ چاہیے، ایسے تو شاید نہ ہوسکے کہ ہم کوئی بے در و دیوار سا فضا میں کمرہ تخلیق کریں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی نے کہا کہ

پڑھیں:

کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب  کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ  میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل بلاشبہ غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، برنی سینڈر
  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • پاکستان اور بھارت آج ایک اور کھیل کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے
  • آپریشن بنیان مرصوص کے بعد ہمارا ملک ابھر کر سامنے آیا : شیری رحمان
  • اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی
  • کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • زیارت سے اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر اور بیٹے کی ویڈیو منظر عام پر، رہائی کے لیے مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل
  • نسلہ ٹاور کے پلاٹ کی نیلامی کیلئے کوئی خریدار سامنے نہ آسکا‘ذرائع